بھارتی جارحیت کو اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھایا جائے
بھارتی جارحیت کوپوری دنیا کےسامنےآشکار کرنےکےلیےپاکستان نےاقوام متحدہ کےفوجی مبصرین کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا ہے
اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے گزشتہ روز سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیا، انھوں نے شواہد بھی اکٹھے کیے اور شہداء کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا۔اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ماضی میں بھی ایسی ایکسرسائز کرتے رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آج تک کچھ نہیں نکلا ۔ ورکنگ باؤنڈری پر جاری بلااشتعال بھارتی فائرنگ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ادھر بھارتی فائرنگ کے باعث سرحدی دیہات سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور 30 سے زائد دیہات خالی ہو چکے ہیں۔
بھارتی فوج ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر اکثر و بیشتر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے ۔پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا ،اب صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور جنگ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سی ایم ایچ سیالکوٹ میں داخل زخمیوں کی عیادت کے لیے گئے۔ انھوں نے وہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارت نے حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے، بھارت کو 65ء کی جنگ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔وہ خوش فہمی میں نہ رہے ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھارتی جارحیت کا معاملہ آیندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔
بھارتی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لیے پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا ہے، اقوام متحدہ کے مبصرین اس سے قبل بھی بھارتی جارحیت سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں مگر اب تک اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پچھلی بار اقوام متحدہ کے مبصرین نے بھارتی جارحیت کے ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے تو پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے تھا تاکہ بھارتی جارحیت کو روکا جا سکے لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے اس معاملے میں کوئی جاندار اور موثر کردار سامنے نہیں آیا جس سے بھارتی حکومت کو حوصلہ ملا اور اس نے سرحدوں پر جارحیت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ کیا اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دورے کے بعد سرحدوں پر بھارتی گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ رک جائے گا، بھارتی حکومت کے موجودہ جارحانہ رویے کے تناظر میں شاید ایسا نہ ہو سکے کیونکہ بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات اس کے لیے ساز گار ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تو آیندہ ماہ جنرل اسمبلی میں بھارتی جارحیت کا معاملہ اٹھائیں گے اگر اس عرصے کے دوران بھارت نے اپنا رویہ نہ بدلا اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا تو اس صورت میں پاکستانی حکومت کا رویہ کیا ہو گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ کیا صرف سخت بیان دینے یا بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کرنے سے بھارتی حکومت اپنی جارحیت سے باز آ جائے گی اس کا بھی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان اس وقت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی میں مصروف ہے اور شمال مغربی سرحد پر بھی دہشت گردی کے واقعات اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتے رہتے ہیں، اسی پیچیدہ اور مشکل صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مشرقی سرحد پر فائرنگ کا محاذ کھول رکھا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کے لیے مشرقی محاذ کو گرم کیے ہوئے ہے، بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دہشت گردی کو ہوا دی جائے تاکہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہیں، سرحدی خلاف ورزیوں کا اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کشمیر کے مسئلے پر اپنی شرائط کے مطابق فیصلہ کرا سکے۔ پاکستان اس پر واضح کر چکا ہے کہ اسے بھارتی شرائط منظور نہیں اور وہ کشمیر کے مسئلے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس پاکستان کا ہنگامی دورہ کر رہی ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا سوزن رائس کے دورے کے بعد بھارت اپنی جارحیت سے باز آ جائے گا اور سرحدوں پر مسلسل امن قائم ہو جائے گا۔ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی موجودہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر سمیت بھارتی جارحیت کو اقوام متحدہ کے فورم پر بھرپور طور پر اٹھاتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ خطے کے امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔
بھارتی فوج ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر اکثر و بیشتر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے ۔پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا ،اب صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور جنگ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سی ایم ایچ سیالکوٹ میں داخل زخمیوں کی عیادت کے لیے گئے۔ انھوں نے وہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارت نے حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے، بھارت کو 65ء کی جنگ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔وہ خوش فہمی میں نہ رہے ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھارتی جارحیت کا معاملہ آیندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔
بھارتی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لیے پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا ہے، اقوام متحدہ کے مبصرین اس سے قبل بھی بھارتی جارحیت سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں مگر اب تک اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پچھلی بار اقوام متحدہ کے مبصرین نے بھارتی جارحیت کے ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے تو پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے تھا تاکہ بھارتی جارحیت کو روکا جا سکے لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے اس معاملے میں کوئی جاندار اور موثر کردار سامنے نہیں آیا جس سے بھارتی حکومت کو حوصلہ ملا اور اس نے سرحدوں پر جارحیت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ کیا اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دورے کے بعد سرحدوں پر بھارتی گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ رک جائے گا، بھارتی حکومت کے موجودہ جارحانہ رویے کے تناظر میں شاید ایسا نہ ہو سکے کیونکہ بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات اس کے لیے ساز گار ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تو آیندہ ماہ جنرل اسمبلی میں بھارتی جارحیت کا معاملہ اٹھائیں گے اگر اس عرصے کے دوران بھارت نے اپنا رویہ نہ بدلا اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا تو اس صورت میں پاکستانی حکومت کا رویہ کیا ہو گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ کیا صرف سخت بیان دینے یا بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کرنے سے بھارتی حکومت اپنی جارحیت سے باز آ جائے گی اس کا بھی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان اس وقت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی میں مصروف ہے اور شمال مغربی سرحد پر بھی دہشت گردی کے واقعات اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتے رہتے ہیں، اسی پیچیدہ اور مشکل صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مشرقی سرحد پر فائرنگ کا محاذ کھول رکھا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کے لیے مشرقی محاذ کو گرم کیے ہوئے ہے، بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دہشت گردی کو ہوا دی جائے تاکہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہیں، سرحدی خلاف ورزیوں کا اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کشمیر کے مسئلے پر اپنی شرائط کے مطابق فیصلہ کرا سکے۔ پاکستان اس پر واضح کر چکا ہے کہ اسے بھارتی شرائط منظور نہیں اور وہ کشمیر کے مسئلے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس پاکستان کا ہنگامی دورہ کر رہی ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا سوزن رائس کے دورے کے بعد بھارت اپنی جارحیت سے باز آ جائے گا اور سرحدوں پر مسلسل امن قائم ہو جائے گا۔ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی موجودہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر سمیت بھارتی جارحیت کو اقوام متحدہ کے فورم پر بھرپور طور پر اٹھاتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ خطے کے امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔