میڈیکل کالجوں میں داخلوں کا مسئلہ
پاکستان میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کا نظام انتہائی مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کا نظام انتہائی مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کا نظام کوئی بہتری نہیں لا سکا بلکہ یہ ایسا طریقہ کار بن گیا ہے جس کے ذریعے ہزاروں طالب علم بھی داخلوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے زیراہتمام پنجاب بھر کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلوں کی غرض سے انٹری ٹیسٹ میں بیک وقت 13 شہروں کے34 امتحانی مراکز میں ہزاروں امیدواروں نے قسمت آزمائی کی۔ ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد سے زائد امیدوار داخلوں سے محروم رہیں گے۔ میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبوں میں جانے والے طالب علم انتہائی لائق ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر تو ایک خاص گریڈ تک نمبر حاصل کرنے والے تمام طلباء کو میڈیکل یا انجینئرنگ کالجز میں بغیر کسی سفارش کے داخلہ ملنا چاہیے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ انٹر میڈیٹ میں 80 سے90 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طالب علم بھی داخلوں سے محروم رہتے ہیں کیونکہ بعض طلباء انٹری ٹیسٹ میں بہتر نمبر حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس نظام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے طالب علم کالجوں کی فیس ادا کرتے ہیں' ٹیوشن فیس ادا کرتے ہیں اور پھر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے الگ سے اکیڈمیاں قائم ہیں جن کی فیسیں بھی ہزاروں روپے میں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہر سال یہ اکیڈمیاںانٹری ٹیسٹ کے نام پر والدین سے کروڑوں روپے بٹور رہی ہیں۔ یہ طلباء اور والدین کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کی تعداد تو بہت ہی کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ملک میں زیادہ سے زیادہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالج قائم کرے' جتنے زیادہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالج ہوں گے' اتنے ہی زیادہ طالب علموں کو آسانی سے داخلے میسر آسکیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں بھی سرکاری درسگاہوں کی تعداد کم ہے۔
نجی سیکٹر کو میڈیکل اور انجینئرنگ کالج قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن نجی سیکٹر میں قائم ان اداروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ متوسط طبقے یا غریب طبقے کے ذہین طالب علم ان نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی افورڈ نہیں کر سکتے۔ یوں تعلیم انتہائی مہنگی ہونے کی بنا پر وطن عزیز کا قیمتی ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔ میڈیکل کالجوں میں خواہش مند ایسے طلبا جو انٹری ٹیسٹ میں ناکام ہو جائیں گے' وہ بے چارے کہاں جائیں گے۔ نجی سیکٹر میں تعلیم نہیں ہونے کی بناء پر وہ وہاں داخلے نہیں دے سکیں گے۔ یوں کوئی آرٹس میں گریجویشن کرنے کے لیے چلا جائے گا اور کوئی سائنس کے کسی اور سبجیکٹ گریجوایشن کرے گا۔ یہ صورت حال ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ پنجاب حکومت میٹرو بس اور دیگر روڈ نیٹ ورکس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے' اگر اس کے ساتھ ساتھ نئے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے پر بھی اربوں روپے خرچ کیے جائیں تو قوم کے ذہین طلباء اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک میں چند یونیورسٹیاں ہیں اور گنتی کے ہی چند میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج ہیں۔ سرکاری سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں تاکہ ملک کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ انٹر میڈیٹ میں 80 سے90 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طالب علم بھی داخلوں سے محروم رہتے ہیں کیونکہ بعض طلباء انٹری ٹیسٹ میں بہتر نمبر حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس نظام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے طالب علم کالجوں کی فیس ادا کرتے ہیں' ٹیوشن فیس ادا کرتے ہیں اور پھر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے الگ سے اکیڈمیاں قائم ہیں جن کی فیسیں بھی ہزاروں روپے میں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہر سال یہ اکیڈمیاںانٹری ٹیسٹ کے نام پر والدین سے کروڑوں روپے بٹور رہی ہیں۔ یہ طلباء اور والدین کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کی تعداد تو بہت ہی کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ملک میں زیادہ سے زیادہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالج قائم کرے' جتنے زیادہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالج ہوں گے' اتنے ہی زیادہ طالب علموں کو آسانی سے داخلے میسر آسکیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں بھی سرکاری درسگاہوں کی تعداد کم ہے۔
نجی سیکٹر کو میڈیکل اور انجینئرنگ کالج قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن نجی سیکٹر میں قائم ان اداروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ متوسط طبقے یا غریب طبقے کے ذہین طالب علم ان نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی افورڈ نہیں کر سکتے۔ یوں تعلیم انتہائی مہنگی ہونے کی بنا پر وطن عزیز کا قیمتی ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔ میڈیکل کالجوں میں خواہش مند ایسے طلبا جو انٹری ٹیسٹ میں ناکام ہو جائیں گے' وہ بے چارے کہاں جائیں گے۔ نجی سیکٹر میں تعلیم نہیں ہونے کی بناء پر وہ وہاں داخلے نہیں دے سکیں گے۔ یوں کوئی آرٹس میں گریجویشن کرنے کے لیے چلا جائے گا اور کوئی سائنس کے کسی اور سبجیکٹ گریجوایشن کرے گا۔ یہ صورت حال ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ پنجاب حکومت میٹرو بس اور دیگر روڈ نیٹ ورکس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے' اگر اس کے ساتھ ساتھ نئے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے پر بھی اربوں روپے خرچ کیے جائیں تو قوم کے ذہین طلباء اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک میں چند یونیورسٹیاں ہیں اور گنتی کے ہی چند میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج ہیں۔ سرکاری سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں تاکہ ملک کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔