بدلتے موسم

انسان کودنیا سے اٹھنے سے پہلے،وہ سب کچھ دیکھنا ہوتا ہے جودرحقیقت عملی طورپر کیاہوتاہے


راؤ منظر حیات August 31, 2015
[email protected]

انسان کودنیا سے اٹھنے سے پہلے،وہ سب کچھ دیکھنا ہوتا ہے جودرحقیقت عملی طورپر کیاہوتاہے۔ قدرت کا سبق یہی ہے، صرف یہی۔ دنیامیں ہی ہر انسان کواس کی اصل دکھادی جاتی ہے۔اس قانون قدرت سے کسی صورت مفرنہیں۔کسی بھی صورت۔ یہی اصول گروہوں اورقوموں پربھی صادر ہے۔

ملک کے حالات ناقابل یقین برق رفتاری سے تبدیل ہورہے ہیں۔زیادہ تر مثبت اندازمیں۔کئی بارتو یقین نہیں آتا کہ واقعی ایساہورہاہے۔مگراب جوکچھ ہونے جارہاہے، شائد وہ اتنامحیرالعقول ہوکہ لوگ انگلیاں دانتوں میں لے لیں گے۔ کارزارسیاست میں تمام فریقین اپنے آخری داؤپیچ کھیل رہے ہیں۔ انھیں احساس ہی نہیں کہ وقت نے انھیں خشک پتے میں تبدیل کردیاہے۔

ہمارامقتدرطبقہ ساٹھ برس سے ہراس مصلحت کا شکار رہا ہے جس سے ملک اورقوم کے مفادکوزک پہنچے۔ کسی اصول،کسی ضابطہ کے بغیر،طاقت کاوہ بے رحم کھیل جس نے ملک کو تقریباً ناکام ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔مگراب شائد وقت کا دھارااپنے اصلی رخ پر پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ بڑے بڑے زمینی خدا لرزاں ہیں۔ کانپ رہے ہیں۔دولت چھپانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔زمین آہستہ آہستہ ان پرتنگ ہورہی ہے۔ صاحبان!یہی قانون قدرت ہے۔ مکافاتِ عمل بھی۔

کراچی سے ایک باخبردوست سے تفصیلاًبات ہوئی۔جوکچھ ہو رہا ہے، اخبارات اورمیڈیامیں اس کامحض پانچ فیصد بھی نہیں آرہا۔ چندافسروں اورسیاست دانوں کایہ حال ہوچکاہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ڈالر،پاؤنڈ اورپاکستانی کرنسی جلارہے ہیں۔یہ وہ کالادھن ہے جوانھوں نے گزشتہ آٹھ سال میں کمایا تھا۔اب نہ وہ اسے کسی بینک میں جمع کراسکتے ہیں،نہ باہربھجوا پارہے ہیں۔ہنڈی کا کاروبار کرنے والے بھی دبک کرکونے میں بیٹھ چکے ہیں۔ کچھ اہم لوگ حراست میںہیں چنانچہ یہ وزراء اورافسران مجبورہوکر خود اپنے ہاتھوں سے اپنے کالے دھن کوآتش دان میں راکھ بنا رہے ہیں۔انتہائی ذمے داری سے عرض کررہا ہوںکہ وہ اسے اپنے بچاؤاوردفاع کاآخری حربہ سمجھ رہے ہیں۔ مگر یہاں بھی وہ غلط ثابت ہوں گے۔ ہر ایک کے متعلق مکمل معلومات موجودہیں۔

اسلام آباداورکراچی کے تمام باخبرحلقے جانتے ہیں کہ ڈاکٹرعاصم کون ہیں ۔ انھیں پی ایم ڈی سی کاسربراہ مقررکیا گیا۔ڈاکٹر کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ یہ ادارہ پورے میڈیکل سائنس کی تعلیم کے نظام کوراہِ راست پررکھتا ہے۔پوسٹ گریجویٹ کے امتحانات کوترتیب دیتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں کہ یہ میڈیسن کے شعبہ کاجی ایچ کیو (G.H.Q) ہے۔ لیکن انتہائی ادنیٰ درجہ کے میڈیکل کالجوں منظوری دی گئی،اس سے اس مقدس شعبے کوبہت نقصان پہنچا ہے۔کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج کے منتظم سے بات کیجیے۔ وہ سب کچھ بتا دے گا۔ صاحبان ہمارے ملک میں کچھ لوگ کیک نہیںپوری بیکری کھا چکے ہیں۔ ڈاکٹرعاصم پرہاتھ ڈالنے کامطلب اتناسادہ نہیں ہے۔یہ دراصل محترم زرداری صاحب پرہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔

ایم کیوایم کی طرف آئیے۔کچھ عرصے سے محترم الطاف حسین صاحب کی تقاریر کا سلسلہ بندہے استعفوں کاآخری پتہ کھیلنے کے باوجودوہ ایم کیو ایم گو مگو کی حالت میں ہے۔دیگ کا محض ایک دانہ سب کچھ بتا دیتا ہے۔ایک سابقہ وفاقی وزیر صرف ایک شادی گھرسے کروڑوں روپے سے مستفید ہوئے ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان غیرملکی حکومتوں سے رابطہ کرچکی ہے کہ بیرون ملک جانے والوںکو جلد از جلد واپس پاکستان لایاجائے۔اس میں کتنی کامیابی ہوتی ہے،یہ مرکزی حکومت کی اپنی ساکھ کاسوال بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ اب ناگریزہوچکاہے۔اب یہ سلسلہ بڑھے گا اور ہر صوبہ میں بلا تفریق شروع کیاجائے گا۔سنی سنائی بات ہے کہ پنجاب میں چالیس انتہائی اہم افرادکی فہرست تیار ہوچکی ہے۔ اس میں ہرقبیل کے لوگ موجود ہیں۔ خیر دیکھیے،اب وقت کیافیصلہ کرتاہے۔

احتساب کے مضمون سے نکلتے ہوئے،بدلتے ہوئے سیاسی حالات پرنظررکھناانتہائی ضروری ہے۔ محترم ایازصادق اورمحترم عمران خان نے فیصلہ آنے کے بعد،ایک انتہائی اچھی اورپُروقارسیاسی مثال قائم کی ہے۔دونوں سیاست دانوں نے ایک دوسرے پرقطعاً شخصی حملے نہیں کیے۔ ایازصادق کو یہ تک کہتے سناکہ ان کے خان صاحب کے خاندان سے دیرنیہ ذاتی تعلقات ہیں جوہمیشہ برقراررہیںگے۔ میں اس ذاتی احترام کی مثال کوبہت اہمیت دیتا ہوں۔ کیونکہ یہ سیاسی نظام میں شائستگی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔بالکل اسی طرح پیپلز پارٹی کوچھوڑتے ہوئے محترم صمصام بخاری نے ٹی وی پر انتہائی باوقاررویہ اپنایا۔برملاکہاکہ وہ اپنی پرانی وابستگی اور پرانے سیاسی دوستوں کامکمل احترام کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی کہتے سناتھاکہ انھوں نے اپنی پرانی سیاسی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کی قیادت کوایک خط بھی لکھاہے جس میں اپنی دیرینہ رفاقت کے اعتبارسے پارٹی کاشکریہ ادا کیا ہے۔ طالبعلم کی دانست میں یہ دونوں واقعات ہمارے سیاسی نظام کی بہتری کے سفر کی جانب اشارہ ہیں۔خیرشخصی حملے اوربے سروپا الزامات کی بھی بوچھاڑہے۔بلکہ اکثر سیاست دان رکیک جملے بازی کواپنا وتیرہ بناچکے ہیں۔نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ لوگ سب کچھ جانتے اورسمجھتے ہیں۔

سیاسی نظام کی بقاء اوراہمیت اس نکتہ میں پنہاں ہے کہ "الیکشن کمیشن"کے ادارے کوکس حد تک مضبوط اور توانا کیاجاتا ہے۔اب یہ اَمرمکمل واضح ہوچکاہے کہ "الیکشن کمیشن"اپنے بنیادی فرائض انجام کرنے میں ناکام رہی ہے۔نااہلی کی سزا پورے سیاسی نظام کومل سکتی ہے۔اس ادارے کواتنامضبوط ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شخص اس کی کارکردگی پرانگلی نہ اٹھاسکے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ادارے کے سابق سربراہ محترم فخرو بھائی عمرکے اس حصے میں تھے کہ انھیں ہرمسئلہ کاادراک ہی نہ ہوپایا۔اس کے علاوہ ان کی سیلانی طبیعت بھی آڑے آتی رہی۔انھوں نے الیکشن کے بعدکئی مرتبہ نجی محفلوں اور تقریبات میں بتایاہے کہ پورے کاپورا ادارہ سپریم کورٹ کی ایک شخصیت کے شدیددباؤمیں تھا۔عملی طورپرپوراالیکشن کمیشن ایک بیرونی اہم ترین شخص کاطفیلی بن چکاتھا۔احکامات فخرو بھائی کے بجائے کہیں اورسے موصول ہوتے تھے اوران پر عمل درآمد بھی ہوتاتھا۔اس پورے عمل نے الیکشن کمیشن جیسے معتبرادارے کو"عضومعطل"بناکے رکھ دیا تھا۔

آج سیاست دان جس عذاب میں مبتلاہیں،وہ اسی بے قاعدگی کا ثمرہے۔ فائدہ پہنچانے کے بجائے سیاسی نظام کواس درجہ کمزور اور لاغر کردیاگیاہے کہ اپنے بوجھ تلے گرنے سے بچنے کے لیے حتی المقدورکوشش کررہاہے۔الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفوں سے معاملہ مزیدکشیدگی کی طرف جاسکتاہے۔یہ سیاست کا بازار ہے، یہاں کچھ بھی ہوسکتاہے۔اب بھی وقت ہے،حکومت کے اہم ترین لوگ سرجوڑکر بیٹھیں۔ نادان دوستوں کو دور کریں۔ سنجیدگی سے ایسی دوررس اصلاحات کاڈول ڈالیں،جس سے بہتری کے آثارنمایاں ہوں۔ میں نادان دوستوں سے بچنے کی باربارگزارش اس لیے کروںگا کہ اس حدتک خرابی کے مقام پرلانے کے لیے چند غیرسنجیدہ افرادنے محض ذاتی فائدے حاصل کرنے کے لیے پورے نظام کوداؤ پر لگا دیا ہے۔ اس میں سرکاری بابوبھی شامل ہیں، چندریٹائرڈ افسر اور معدودے سیاست دان۔ میری دانست میں ابھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں نکلا۔ معاملے کو ابھی بھی سلجھایاجاسکتا ہے۔ایک معقول درمیانہ راستہ نکل سکتاہے۔مگربروقت اور صائب فیصلہ کرنے کی اَشد ضرورت ہے۔موسم بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ نئے پیڑ، نئے شجراورنئے پرندے۔یہ بدلتے موسموں کی رُت ہے۔

آخرمیں فیضان عارف کے چنداشعار۔فیضان کے متعلق محض یہ عرض کروںگاکہ بہالپورسے تعلق رکھنے والایہ شاعر،دل برداشتہ ہوکرپاکستان سے لندن منتقل ہوگیا۔بیس برس کے بعدفیضان سے رابطہ ہواتویادوں کادریاسابہنے لگا۔ فیضان ایک ایسامحب وطن انسان ہے جس کے لہوکے ہر قطرے میں اپنے وطن سے شدیدمحبت شامل ہے۔وہ پاکستان کے حالات کودیکھ کرآج بھی اتناہی پریشان ہے،جتناملک چھوڑتے وقت تھا۔فیضان کی ایک غزل۔

جہاں پہ لوگ ہی ظلمت پرست ہوجائیں
وہاں پہ پھرکوئی سورج نکلنے والا نہیں

یہ قائدین ہمارے سمندروں کی طرح
مگرکوئی بھی خزانہ اگلنے والا نہیں

دکھاتے رہتے ہیں سب روشنی کے خواب مگر
چراغ بن کے اندھیروں میں جلنے والا نہیں

اسی یقین سے سب بیٹھتے ہیں مسندپر
کہ اقتدارکاسورج توڈھلنے والا نہیں

یہ آگ چاروں طرف پھیلنے لگی فیضان
محض دعاؤں سے خطرہ یہ ٹلنے والا نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں