ابھی یا پھر کبھی نہیں
بہتر حکمرانی سے ہی ریاستیں پسماندگی و افراتفری سے خوشحالی کا سفر طے کرتی ہیں۔
بعض محترم سیاست دان اس بات کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ وفاقی سیکیورٹی ادارے صوبائی معاملات میں مداخلت کرکے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کررہے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک عمل ہے، تو جناب عالی! جب جمہوریت اور آئین کے نام پر اس وطن عزیز کے ہمیشہ سے پسماندہ اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ دو وقت کی خوراک حاصل کرنے کے لیے در در مارے مارے پھر رہے ہوں، انسانی زندگی اپنے تحفظ کے لیے ترس رہی ہو، گرمی سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوجائیں، اسپتالوں میں مریض صحت کی سہولتوں سے محروم کردیے جائیں، بے روزگاری اپنی انتہا کو چھورہی ہو، بڑے شہروں کی تو بات ہی کیا چھوٹے چھوٹے شہر سیوریج کے نظام نہ ہونے کی وجہ سے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہوں، بارشیں ہونے کے باوجود لوگ پانی جیسی قدرتی نعمت کے حصول سے محروم کردیے گئے ہوں، پٹرول کی قیمتیں تقریباً 40% فیصد کم ہونے کے باوجود اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا رہے، کرپشن اور بدعنوانی نے لوٹ مار کی شکل اختیار کرلی ہو، صلاحیت، ایمانداری اور محنت سے ترقی کرنے کے راستے مسدود کرکے ترقی کوچمچہ گیری، چاپلوسی اور رشوت ستانی کے ذریعے حاصل کرنے کی روایت کو پروان چڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہو اور ہر سال سیکڑوں ارب روپے عوام سے ٹیکس کی شکل میں حاصل کرکے غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اس پیسے اور وسائل کو اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے منظور نظر چند سو لوگوں کے اثاثوں کو بڑھانے کا سلسلہ جاری ہو تو ایسی جمہوریت اور آئینی طرز حکمرانی کسی بھی ریاست کو قابل قبول نہیں ہوتی۔ عوام ایسی حکمرانی کو یکسر مسترد کردیتے ہیں اور پھر ریاست کے حقیقی محافظ قومی سلامتی کی خاطر ہر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہمارے محترم سیاست دانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بجائے الیکٹرانک میڈیا پر یہی ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب! ملک میں موجودہ طرز حکمرانی برقرار رہنا چاہیے، ایسی جمہوریت وہ بھی موجودہ انداز میں ہر قیمت پر اپنے اسی شاہانہ انداز میں چلتی رہنا چاہیے۔ ''جمہور زندہ رہیں یا نہ رہیں'' مگر جمہوریت یونہی چلتی رہے اور مزید یہ کہ کوئی آوارہ ایسی استحصالی اشرافیائی طرز حکمرانی سے متعلق ان سے باز پرس کرنے کا مجاز بھی نہ ہو۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ایسا تو قرون وسطیٰ میں بھی نہیں ہوتا تھا، جب اس دنیا میں شہنشاہیت اور بادشاہت قائم تھی تو بھلا 2015 میں اس آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کے دور میں یہ کس طرح ممکن ہے۔
ہمارے موجودہ سیاست دان، وفاقی فورسز اور احتسابی اداروں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے بتائیں کہ پچھلے ساڑھے سات سالہ مادر پدر آزاد جمہوری حکمرانی سے انھوں نے پاکستانی جمہور کی فلاح و بہبود کے لیے کتنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، بے روزگاری اور غربت میں کتنی کمی کی، صحت و تعلیم، انفرااسٹرکچر، لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال میں کس حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تو خدا بھلا کرے اس وطن پرست، اپنے مفاد سے بالاتر ہر مصلحت سے پاک اور اپنی قوم کا حقیقی درد رکھنے والے عظیم شخص اور اس کی ٹیم کا جس نے فوراً PPO جاری کروا کر اس قوم کو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کے ہاتھوں مکمل تباہ و برباد ہونے سے بچانے کا بیڑہ اٹھایا اور قوم کے تمام طبقات کو ان مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے ایک قومی اتفاق رائے پیدا کیا، میرا ایمان ہے کہ خدا اسے اس مقصد کے حصول میں ضرور کامیاب کرے گا چونکہ پوری قوم کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں، لہٰذا سیاسی افق پر موجود اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی پر فائز سیاست دان اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں اور تسلیم کریں کہ وطن عزیز کے دفاع اور سلامتی کے ضامن ادارے اپنا سب کچھ قربان کرکے اس وطن کو تمام برائیوں اور جرائم سے پاک کرنے کا جو کام کررہے ہیں یہ انھیں اپنی اولین ذمے داری سمجھتے ہوئے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیا قوم نے اس ذمے داری کو نبھانے کا مینڈیٹ آپ حضرات کو (حکمران سیاست دانوں) کو نہیں دیا تھا؟ کیا آپ کو صرف میٹرو جیسے منصوبے بنانے کی ذمے داری سونپی گئی تھی؟
بہتر حکمرانی سے ہی ریاستیں پسماندگی و افراتفری سے خوشحالی کا سفر طے کرتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ Action Speeks Louder Than Words قومی خدمت اور ریاستی بقا کا تقاضا ہے کہ ملک کے سلامتی اور تحفظ کا حلف اٹھائے ہوئے اداروں کے اٹھائے گئے ہر ہر قدم کو تمام قوم اور بالخصوص سیاست دان اپنے اقتصادی، سیاسی اور پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر انھیں مکمل اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی سپورٹ فراہم کریں اور ان پر بالواسطہ اور بلاواسطہ تنقید کرنے سے اجتناب کریں۔
یہی وقت ہے وطن پرستی کا، یہی وقت ہے وطن سے محبت کے حقیقی اظہار کا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ذاتی خواہش کے بجائے قومی خواہشات کی تکمیل کی منصوبہ بندی کی جائے، اسے عملی جامہ پہنایا جائے، اپنے سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو ہر طرح کے جرائم سے پاک کرنے کے اس عظیم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا مکمل ساتھ دیا جائے۔ تمام ترقی یافتہ قوموں کی زندگی میں ایسے دشوار، کٹھن مراحل ضرور آتے ہیں جن سے گزر کر ہی وہ قومیں ترقی و خوشحالی کے عظیم تر مقصد کو حاصل کرکے اپنی آنے والی نسلوں کی نظر میں سرخرو ہوتی ہیں۔ مگر اس کے لیے بابائے قوم کے وضع کردہ تین اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر سختی سے کاربند رہنا پڑے گا، چوں کہ:
وہی ہے صاحب امروز کہ جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
ہمارے محترم سیاست دانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بجائے الیکٹرانک میڈیا پر یہی ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب! ملک میں موجودہ طرز حکمرانی برقرار رہنا چاہیے، ایسی جمہوریت وہ بھی موجودہ انداز میں ہر قیمت پر اپنے اسی شاہانہ انداز میں چلتی رہنا چاہیے۔ ''جمہور زندہ رہیں یا نہ رہیں'' مگر جمہوریت یونہی چلتی رہے اور مزید یہ کہ کوئی آوارہ ایسی استحصالی اشرافیائی طرز حکمرانی سے متعلق ان سے باز پرس کرنے کا مجاز بھی نہ ہو۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ایسا تو قرون وسطیٰ میں بھی نہیں ہوتا تھا، جب اس دنیا میں شہنشاہیت اور بادشاہت قائم تھی تو بھلا 2015 میں اس آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کے دور میں یہ کس طرح ممکن ہے۔
ہمارے موجودہ سیاست دان، وفاقی فورسز اور احتسابی اداروں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے بتائیں کہ پچھلے ساڑھے سات سالہ مادر پدر آزاد جمہوری حکمرانی سے انھوں نے پاکستانی جمہور کی فلاح و بہبود کے لیے کتنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، بے روزگاری اور غربت میں کتنی کمی کی، صحت و تعلیم، انفرااسٹرکچر، لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال میں کس حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تو خدا بھلا کرے اس وطن پرست، اپنے مفاد سے بالاتر ہر مصلحت سے پاک اور اپنی قوم کا حقیقی درد رکھنے والے عظیم شخص اور اس کی ٹیم کا جس نے فوراً PPO جاری کروا کر اس قوم کو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کے ہاتھوں مکمل تباہ و برباد ہونے سے بچانے کا بیڑہ اٹھایا اور قوم کے تمام طبقات کو ان مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے ایک قومی اتفاق رائے پیدا کیا، میرا ایمان ہے کہ خدا اسے اس مقصد کے حصول میں ضرور کامیاب کرے گا چونکہ پوری قوم کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں، لہٰذا سیاسی افق پر موجود اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی پر فائز سیاست دان اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں اور تسلیم کریں کہ وطن عزیز کے دفاع اور سلامتی کے ضامن ادارے اپنا سب کچھ قربان کرکے اس وطن کو تمام برائیوں اور جرائم سے پاک کرنے کا جو کام کررہے ہیں یہ انھیں اپنی اولین ذمے داری سمجھتے ہوئے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیا قوم نے اس ذمے داری کو نبھانے کا مینڈیٹ آپ حضرات کو (حکمران سیاست دانوں) کو نہیں دیا تھا؟ کیا آپ کو صرف میٹرو جیسے منصوبے بنانے کی ذمے داری سونپی گئی تھی؟
بہتر حکمرانی سے ہی ریاستیں پسماندگی و افراتفری سے خوشحالی کا سفر طے کرتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ Action Speeks Louder Than Words قومی خدمت اور ریاستی بقا کا تقاضا ہے کہ ملک کے سلامتی اور تحفظ کا حلف اٹھائے ہوئے اداروں کے اٹھائے گئے ہر ہر قدم کو تمام قوم اور بالخصوص سیاست دان اپنے اقتصادی، سیاسی اور پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر انھیں مکمل اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی سپورٹ فراہم کریں اور ان پر بالواسطہ اور بلاواسطہ تنقید کرنے سے اجتناب کریں۔
یہی وقت ہے وطن پرستی کا، یہی وقت ہے وطن سے محبت کے حقیقی اظہار کا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ذاتی خواہش کے بجائے قومی خواہشات کی تکمیل کی منصوبہ بندی کی جائے، اسے عملی جامہ پہنایا جائے، اپنے سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو ہر طرح کے جرائم سے پاک کرنے کے اس عظیم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا مکمل ساتھ دیا جائے۔ تمام ترقی یافتہ قوموں کی زندگی میں ایسے دشوار، کٹھن مراحل ضرور آتے ہیں جن سے گزر کر ہی وہ قومیں ترقی و خوشحالی کے عظیم تر مقصد کو حاصل کرکے اپنی آنے والی نسلوں کی نظر میں سرخرو ہوتی ہیں۔ مگر اس کے لیے بابائے قوم کے وضع کردہ تین اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر سختی سے کاربند رہنا پڑے گا، چوں کہ:
وہی ہے صاحب امروز کہ جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا