کیا مرض اور کیا علاج
ایک دیہاتی حکیم صاحب کے پاس گیا اور پیٹ درد کی شکایت کی۔
ایک دیہاتی حکیم صاحب کے پاس گیا اور پیٹ درد کی شکایت کی۔ دیہاتی زندگی اور چالیس پچاس سال قبل کا قصہ۔ وہ زمانہ جب نہ بجلی، نہ روشنی۔ حکیم صاحب نے مریض کو آنکھوں میں لگانے کے لیے سرمہ دیا۔ دیہاتی حیران تھا کہ پیٹ درد کا علاج سرمہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اس نے حکیم سے کہا کہ جناب درد میرے پیٹ میں ہے آنکھوں میں نہیں۔ دانا نے جواب دیا کہ تمہیں جلی ہوئی روٹیاں کمزور آنکھوں کے سبب دکھائی نہیں دیتیں۔ یوں جب تم سرمہ لگاؤ گے تو پیٹ کے درد کا علاج ہوجائے گا۔ سوال کیا گیا کہ دہشت گردی کا کیا سبب ہے تو کالم نگار نے جواب دیا کہ ماڈل گرل ایان علی کا کرنسی اسمگلنگ کیس کی ملزمہ ہوتے ہوئے جامعہ کراچی جیسے مقدس ادارے میں بطور مہمان خصوصی قدم رکھنا۔ کہاں کی بات کہاں پہنچ گئی۔ نہ ہم حکیم نہ سوال کرنے والی خاتون مریضہ۔ جس طرح حکیم صاحب کو عجیب و غریب نسخہ تجویز کرنے کی وجہ بیان کرنی پڑی اسی طرح ہم بھی دوسری مرتبہ وضاحت کردیتے ہیں کہ دہشت گردی کی وجہ ماڈل گرل کیوں کر ہے؟ اسے ایک اور کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے؟
ایان علی ایک ماڈل گرل ہے جو پانچ لاکھ ڈالر دبئی لے جاتے ہوئے راولپنڈی ایئرپورٹ سے گرفتار ہوگئی۔ تقریباً ایک سو دن اسے جیل اور لاک اپ میں رہنا پڑا پھر ضمانت ہوئی۔ آٹھ دس مرتبہ اس کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ خوب صورت خاتون اگر ملزمہ ہو اور شاندار لباس اور ٹھیک ٹھاک میک اپ کے ساتھ عدالت جا رہی ہو تو میڈیا کی توجہ کا مرکز بن ہی جاتی ہے۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کے سبب نہیں بلکہ جب صرف اخبارات ہوا کرتے تھے تب بھی یہی تھا۔ کہتے ہیں کہ ساٹھ کے عشرے میں جب مشہور شاعر مصطفیٰ زیدی کا قتل ہوا تو شہناز نامی ان کی دوست پر پولیس نے شک کا اظہار کیا۔ خوب صورت خاتون کی جب عدالت میں پیشی ہوتی تو اخباری نمائندے عوام الناس کو خبر پہنچانے میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے۔ ایسا ہی کچھ نئی صدی کے دوسرے عشرے میں ایان علی کے ساتھ ہوا۔ماڈل گرل کو کراچی یونیورسٹی کے چند طالب علموں نے اپنی ذاتی حیثیت میں مدعو کیا۔ اس میں جامعہ کی انتظامیہ کا تو کوئی قصور نہ تھا لیکن تنقید کا نشانہ وہ بن گئے۔ الزام لگا کہ انھیں خبر کیوں نہ ہوئی یا سیکیورٹی والوں نے کیوں نہ روکا۔ ایان علی کو دعوت دینے والے اور اسے مارکیٹنگ کی دنیا کی ملکہ ثابت کرنے والے اب نوٹس کی زد پر ہیں۔
انھیں بتانا پڑے گا کہ جامعہ کی اجازت کے بغیر رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ملزمہ کو قابل عزت انداز میں کیوں کر بلوایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمے دار ایان علی جیسی ماڈل گرل کیوں کر ہوگئی؟عجیب و غریب بات کی جا رہی ہے کالم میں۔ یہ تو ایسی بات ہوئی کہ شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دو کیوں کہ پروانہ خواہ مخواہ جان سے جائے گا۔ یہ ایک مشکل شعر ہے جسے نثر میں بیان کرکے یوں کہا جا رہا ہے کہ شہد کی مکھی جب چھتا بنائے گی تو اس سے موم نکلے گا۔ جب اس پر دھاگا باندھ کر آگ روشن کی جائے گی تو پروانہ آجائے گا۔ شمع روشن ہو اور پروانے نہ آئیں؟ یوں ناحق اس غریب کا خون بہہ جائے گا۔ اب ایان علی سے دہشت گردی کیسے پروان چڑھ رہی ہے؟ حکیم کے قصے اور شہد کی مکھی کے موم والی بات کرکے اب ایان علی والی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پانی کا جہاز سفر میں ہو اور اس کے مسافر اس کے تختے نکال نکال کر الگ کر رہے ہوں تو؟ وہ جہاز ڈوبے گا یا منزل مراد تک پہنچے گا؟ اسی طرح اگر ملک کے لوگ اپنے وطن کی دولت چھپا چھپا کر بیرونی دنیا میں لے جائیں گے تو ہمارے پاکستان کا کیا ہوگا؟
یہ جائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت نہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں دو سو ارب ڈالر پاکستانیوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے کمائی گئی دولت ہے۔ جب ملک کے پاس وسائل نہیں ہوں گے تو کیا بچے گا تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے۔ جب ریاست ماں کے جیسی نہ ہوگی اور ہر باپ اپنی آمدنی کے مطابق ہی اپنے بچے کو تعلیم دلا سکے گا تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا جب ملک میں پانچ قسم کے آج کے بچے اور کل پانچ قسم کے شہری ہوں گے؟ اے او لیول والے، انگلش میڈیم والے، سرکاری اسکولوں والے، مدرسوں میں پڑھنے والے اور سڑکوں اور گلیوں میں گھوم پھر کر کتاب زندگی کا مطالعہ کرنے والے۔ پھر ایک قوم کیسے بنے گی؟جب کسی کو سزا دینے کے بجائے عزت دی جائے تو ایک فیصد ہی سہی ایمانداری کی روکھی سوکھی کھانے والے کس عذاب سے گزریں گے؟ جب ملک و قوم کے پاس تعلیم کے لیے رقم نہ ہو یا یہ حکمرانوں کی ترجیح نہ ہو کیا ہوگا؟ جب ریاست ماں کے جیسی نہ ہو اور بچوں کو تعلیم باپ کی آمدنی کے مطابق ملے تو ہمارے بچے کتنے آسان ہدف ہوں گے دہشت گردوں کے بہکاوے کا۔ بہکاوے میں ایان علی جیسی خوب صورت لڑکیاں بھی آ رہی ہیں کہ وہ زندگی میں کچھ حاصل کریں کہ ان کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔
وقت ان کے پاس بھی کم ظاہر کیا جاتا ہے جنھیں خودکش حملوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ خوب صورت لڑکیاں اپنی دنیا کو جنت بنانا چاہتی ہیں۔ انھیں خبر ہے کہ چار دن کی چاندنی ہے اور اس کے بعد اندھیری رات۔ جنت وہ نوجوان لڑکے بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جنھیں ریاست نے نظرانداز کردیا ہوتا ہے کہ وہ غریب گھروں کے نور نظر ہوتے ہیں۔ پھر وہ ان کی نظروں میں آجاتے ہیں جن کی نظروں کو پاکستان میں نظر آنے والی خوشحالی کھٹکتی ہے۔ ایک طرف ترچھی نظروں والی حسیناؤں کو ملک کے معاشی دہشت گرد اپنی نظروں میں رکھتے ہیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ دہشت گردی کرنے والے ان نوجوانوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جن پر سے ریاست نے اپنی نظریں پھیر لی ہیں۔ اگر تعلیم کو حکومتوں کی جانب سے نظر کرم کی بھیک ملے تو کچھ بہتری ہو۔ اگر ایمانداری کو قابل عزت اور بے ایمانی کو نشان عبرت بنایا جائے تو کوئی بات بنے۔
شاعر نے انقلاب وقت کو مخاطب کرکے اس کی عظمتوں کی خیر مانگی تھی۔ پناہ مانگتے ہوئے کہا تھا کہ معاشرے نے کس کو کیا بنادیا ہے۔ معاشرہ دستار فضیلت انھیں پہنا رہا ہے جو سر ہی نہیں رکھتے۔ المناکی بیان کرتے ہوئے دوسرے مصرعے میں شاعر نے کہا تھا کہ سماج نے چوروں کو احترام کے قابل بنادیا ہے۔ یوں جب ماڈل گرلز ملک کا پیسہ باہر لے جاتی ہیں تو پاکستان میں تعلیم کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ حکمران اپنی دنیا علیحدہ کرنے کے لیے طبقاتی تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں کہ نہ رقم ہے اور نہ تعلیم ان کی ترجیح۔ یوں معاشی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ دہشت گردی فروغ پا رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حکیم صاحب نے پیٹ درد کا علاج آنکھوں کا سرمہ تجویز کیا تھا یعنی کیا مرض اور کیا علاج۔