آپ کیا ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں

کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اپنے طبعی میلان کے مطابق ملازمت اختیار کریں۔


Khurram Mansoor Qazi October 21, 2012
فوٹو: فائل

بچپن سے ہی ہم مستقبل کے حوالے سے اپنے لئے خواب دیکھتے ہیں یا ہمیں ایسے خوابوں کی دنیا میں رکھا جاتا ہے جہاں کوئی پائلٹ بننا چاہتا ہے تو کسی کے والدین اسے انجینئر کے روپ میں دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔

کسی کو ڈاکٹر بننے کا جنون سوار ہوتا ہے تو کسی کو گھر والے کمپیوٹر سائنس کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں مگر کیا سب کی خواہشات پوری ہو جاتی ہیں؟ کیا سب کے خواب شرمندہ تعبیر ہو کر رہتے ہیں؟ کیا ہر ایک کو منزل مل جاتی ہے؟... ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے، اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب حقیقت یہ ہو کہ ہو وہی کر سکتے ہیں جو ہمارے بس میں ہو اور جس کی ہم استطاعت بھی رکھتے ہوں مختصر الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ قدرت نے ایک انسان میں تمام خوبیاں نہیں رکھیں،ہر انسان ہر کام نہیں کر سکتا ،ہر شخص خدا کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں کے مطابق ہی کام کر سکتا ہے۔

کوئی بھی اپنی حد اور سکت سے باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ ہمیں بہت سارے معاملات میں حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ کہیں مسائل راستہ روکتے ہیں اور کہیں وسائل آڑے آ جاتے ہیں اور انسان وہ سب کچھ نہیں کر پاتا جس کی آرزو اس کے دل میں پل رہی ہوتی ہے اور جس کی تمنا وہ کر رہا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی مرحلے پر یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ کام اور آرام میں زمین آسمان کا فرق ہے' ہم یہ طے کر لیتے ہیںکہ جب ہم کام کر رہے ہوں تو پھر سکون نہیں مل سکتا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم کام کو سکون' راحت اور آرام سے ہٹ کر کوئی چیز سمجھتے ہیں اور یہیں سے ساری گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے۔

میں ایک ایسی فیملی کو جانتا ہوں کہ صاحبِ خانہ تو ہر وقت کتابوں میں کھوئے رہتے تھے' مطالعے میں مستغرق رہتے تھے' پیشے کے اعتبار سے وہ مصنف تھے اور انھیں دن رات لکھنا یا پھر پڑھنا پڑتا تھا... یہی ان کی زندگی تھی' یہی ان کا مشغلہ اور پیشہ تھا۔ میں نے انھیں کبھی کسی معاملے میں بہت زیادہ بیزار' پریشان اور فکر مند نہیں دیکھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے کبھی کوئی شکایت نہیں کرتے تھے جبکہ دوسری جانب ان کی بیوی کا یہ حال تھا کہ بہت اچھی ٹیچر ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے کام پر توجہ نہ دی اور پیشے میں دلچسپی نہ لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں وقت کے ساتھ چڑچڑاپن پیدا ہو گیا۔

اکتاہٹ کا غلبہ رہنے لگا ا ور بدمزاجی کے زیر اثر انھوں نے کسی بھی معاملے میں حالات کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا ... انھوں نے حالات کی یکسانیت سے جان چھڑانے کی خاطر قبل از وقت ریٹائرمنٹ بھی لے لی اور خوشی تلاش کرنے نکلیں مگر ناکام رہیں۔ میرے آبائی علاقہ میں ہمارے پڑوس میں رہنے والے ان افراد کو بچپن سے دیکھ دیکھ کر میں نے ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لی کہ انسان کو وہی کام کرنا چاہئے جو اسے اچھا لگتا ہو' جس کا اسے شوق ہو ا ور وہ اس کے لئے مشغلے کا درجہ رکھتا ہو۔

جو لوگ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت کے دوران سکون محسوس نہیں کرتے اور پھر سکون کو کام ختم کرنے کے بعد کسی اور جگہ تلاش کرنے نکلتے ہیں تو انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ آخری سانس تک پریشان ہی رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ جس پر آرام سے بیٹھا جائے کیونکہ ا س کا تعلق براہ راست ذہن سے ہے اور جب ذہن ہمہ وقت بے سکون اور بے آرامی کا شکار ہو گا تو ہم کس طرح مطمئن زندگی گزار سکیں گے۔ ہمیں تو اسی نکتے پر سوچ و بچار کرنی چاہئے کہ ہم کام کاج اور زندگی کی مصروفیات کے دوران کس طرح خوش مزاج رہ سکتے ہیں۔ آپ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں جہاں ہر شخص مرنے مارنے پر آمادہ دکھائی دے گا۔

آپ اپنی کوئی جائز شکایت لے کر اس امید پر جائیں کہ مسئلہ حل ہو جائے گا مگر افسوس کہ ایک آدھ کے سوا ہر شخص اکتاہٹ' بیزاری اور چڑچڑے پن میں مبتلا نظر آئے گا جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان افراد نے کام کو ایک بوجھ سمجھ کر اپنے اوپر لادا ہوا ہے اور جیسے تیسے مقررہ وقت پورا کر کے وہ گھر کی راہ لیتے ہیں اور وہاں اپنی خوشیاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر زندگی کے مسائل وہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کی شخصیت بے سکونی کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ جاتی ہے۔

جو لوگ اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں' اسے اپنے اوپر بوجھ تصور نہیں کرتے تو وہ ظاہر ہے کہ خوش رہتے ہیں اور انھیں الگ سے آرام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح وہ کام کریں جس میں ہماری پوری دلچسپی ہو۔ اس سوال کا بڑا سادہ اور آسان سا جواب یہ ہے کہ ہمیں وہی کام کرنا چاہئے جو ہمیں خود بھی پسند ہو ا ور جس میں ہمیں ذاتی طور پر دلچسپی محسوس ہوتی ہو۔ جو لوگ اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں اور اس کے تحت کام کرتے ہیں وہ نہ صرف کامیاب زندی گزارتے ہیں بلکہ خوش و خرم بھی رہتے ہیں۔

اپنی پسند کے کام اور سہولت کے مطابق ملازمت کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے' بہت کم افراد ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مشغلے کو پیشہ بنانا بہت سوں کے نزدیک قابل قبول نہیں یا وہ اسے خسارے کا سودا کہتے ہیں کیونکہ ان کے تصورات میں یہ بات پل رہی ہوتی ہے کہ اس صورت میں مشغلے کا خون ہو جاتا ہے حالانکہ یہ خوف محض حالات کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ حالات کا شکوہ کرتے رہنا اور تقدیر پر رونا دھونا محض وقت کا ضیاع ہے' اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ اپنی پسند کا کام تلاش کرنے پر توجہ دیں۔

ظاہری بات ہے کہ اس کے لئے پہلے آپ کو اپنی صلاحیت اور مہارت کا جائزہ لینا ہو گا کیونکہ ایسا کرتے ہوئے ہی آپ اپنے بارے میں کوئی بہتر رائے قائم کر سکیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ میں کسی کام کے لئے مطلوبہ قابلیت نہ ہو اور آپ اسے محض اس وجہ سے اپنا سکیں کہ یہ آپ کا شوق ہے۔

میں ایک صاحب سے واقف ہوں جو برسوں پہلے والدین کے کہنے پر انجینئرنگ کا انتخاب کر بیٹھے کہ انجینئر کی نوکری مستقبل کو سنوار دے گی مگر انھیں کرکٹ کھیلنے اور ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ جیسے تیسے انھوں نے ایف ایس سی کیاور پھر انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری ہونے لگی مگر اس عرصے میں کرکٹ اور لکھنے کا جنون یکجا ہو کر انھیں شوقیہ طور پر کھیل کی صحافت میں لے گیا اور حیران نہ ہوں کہ آج وہ اسے اپنا پیشہ بنانے کے بعد مکمل طور پر مطمئن اور آسودہ ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے شوق کو وقت آنے پر پیشے کا روپ دے دیا اور کامیابی کا زینہ طے کر گئے۔

اگر آپ بھی اپنے لئے کوئی پسندیدہ کام تلاش کرنا چاہتے ہیں' ایسا کام جو آپ کو خوشی اور راحت دے سکے تو اپنے بچپن کے مشاغل کو یاد کریں تاکہ ا نداز ہو سکے کہ کس نوعیت کے کاموں اور دلچسپیوں میں آپ کا دل لگتا تھا۔ وہ کام یاد کریں جن میں آپ کی دلچسپی بھی زیادہ تھی اور جن میں آپ کا نتیجہ بھی اچھا رہتا تھا۔ اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کون سی اقدار آپ کو زیادہ عزیز ہیں اور آپ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ وہ آپ کے کام اور پیشے میں بھی دکھائی دیں۔

ایک مرتبہ یہ طے کر لینے کے بعد کہ آپ کو کن معاملات میں زیادہ مہارت حاصل ہے اور کن معاملات میں آپ خود کو بہتر طور پر پیش کر سکتے ہیں' اس بات کا تعین بھی کریں کہ کن پیشوں میں ان مہارتوں کو زیادہ واضح طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور کہاں آپ کے شوق کا عکس جھلک سکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں انسان محض محسوسات کا غلام ہو کر رہ جاتا ہے۔ لاکھ سمجھانے پر بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتیں محسوسات سے بالکل الگل واقع ہوئی ہیں۔ اس معاملے میں آپ کو زیادہ سے زیادہ تخلیق کا مظاہرہ کرنا ہے اور اس بات کی پرواہ بہت کم کرنا ہے کہ آپ کو درحقیقت کیا محسوس ہوتا ہے۔

جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں دوسروں کو بتائیں اور پھر دیکھیں کہ لوگ آپ میں کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں اور کس طرح مشوروں اور ہدایات سے نوازتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ہمہ وقت ہماری مدد کو بے تاب رہتے ہیں' وہ کچھ کرنا اور اپنا کردار نبھانا چاہتے ہیں لیکن ہم کسی نہ کسی وجہ سے ان کی مدد لینے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جب آپ اپنی مرضی اور پسند کا کام کرتے ہیں تو ذاتی دلچسپی کے سبب کام بے حد آسان ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں توانائی صرف ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

پھر فرائض میں اضافہ بھی آپ کو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے تھکاوٹ میں مبتلا نہیں کرتا۔ اپنی پسند کے شعبے میں کام کرنے سے آپ کی تخلیقی صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھتی ہیں کیونکہ آپ کو کام سے وقت نکال کر الگ سے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارا خیال ہے کہ مندرجہ بالا دلائل پڑھنے کے بعد آپ قائل ہو چکے ہوں گے کہ انسان کو وہی پیشہ اختیا ر کرنا چاہئے کہ جو اس کے شوق اور طبیعت سے مطابقت رکھتا ہو تاکہ کام اور خوشی و اطمینان یکجا ہو کرکامیابی و کامرانی کی راہ ہموار کر سکیں۔

طبعی میلان (Aptitude):

انسان کے فطری میلان اور رجحان کو Aptitude کا نام دیا جاتا ہے اور اس میلان کا درست اندازہ لگانے کے لیے Aptitude tests کا ایک پورا نظام موجود ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں طلباء کے طبعی میلان کو جانچنے کا مستقل بندوبست موجود ہوتا ہے اور اس بارے میں باقاعدہ طالب علموں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جو آگے چل کر انھیں عملی زندگی میں شعے کا چنائو کرنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ طبعی میلان کی نوعیت ذہنی بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طبعی میلان یا Apitude سے مراد انسان کا علم، سمجھ یا وہ مہارتیں، صلاحیتیں اور رویہ ہرگز نہیں جو اس نے محنت اور اکتساب کے عمل سے گزر کر سیکھا ہو۔ یہ فطری جوہر ہوتا ہے جو انسان میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔

طبعی میلان اور آئی کیو (Intelligence Qaotient) یعنی ذہانت آپس میں تعلق تو رکھتے ہیں، لیکن کچھ حوالوں سے یہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں متضاد حقیقتوں کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جہاں آئی کیو انسانی دماغ کی ذہانت کو ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جو سب پر ایک ہی طرح سے عمل کرتا ہے تو دوسری جانب طبعی میلان انسانی دماغ کی متنوع خصوصیات میں سے صرف ایک مخصوص خصوصیت کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی ایک فرد میں پائلیٹ بننے، ایئر ٹریفک کنٹرولر بننے، فنکار، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل یا کسی بھی پیشے کے لیے درکار خصوصیات قدرتی طور پر دوسروں سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔

دنیا بھر میں اہم شعبوں میں ملازمت فراہم کرنے سے پہلے طبعی میلان کا اندازہ لگانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے ادارے موجود ہیں جو نوجوانوں کو مختلف ٹیسٹوں سے گزارنے کے بعد ان کے طبعی میلان کے بارے میں انھیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ایسی کمپیوٹر سائٹس بھی موجود ہیں جن پر آن لائن ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کے ذریعے طبعی میلان کے بارے میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں فوج اور اس کے ذیلی اداروں میں کمشن حاصل کرنے کے لیے Aptitude tests سے گزرنا لازمی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں