جاگ اٹھا ہے سارا وطن
اقوام متحدہ کی حال ہی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 19 کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے
اقوام متحدہ کی حال ہی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 19 کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے جب کہ اندازہ یہ ہے کہ 2050 تک یہ تعداد 30 کروڑ سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔
آبادی میں یہ تیز رفتار اضافہ اس لیے باعث تشویش ہے کہ وطن عزیز کو موجودہ حالات میں بھی اپنی آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل درپیش ہیں، خوراک، رہائش، پانی اور توانائی کی قلت جیسے سنگین مسائل سرفہرست ہیں۔ تمام مسائل کی جڑ باقاعدہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور جہاں منصوبے موجود ہیں وہاں ان پر عملدرآمد بھی نہیں ہو رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ چین کی بھاری آبادی بھی اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی مگر اس ملک کی مخلص اور دیانتدار قیادت نے اپنی آبادی کو اثاثے میں تبدیل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔
آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافے کے نتیجے میں نہ صرف بے پناہ معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں بلکہ بہت سے پیچیدہ اور تباہ کن معاشرتی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں جن میں آئے دن کے گھریلو جھگڑے، ناچاقیاں، خودکشیاں، قتل و غارت گری، چوری چکاری، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور کچی آبادیوں میں برق رفتار جیسے مسائل شامل ہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بے چینی اور بے اطمینانی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں بے امنی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
آبادی میں اضافے کے باعث بے روزگاری کا مسئلہ جو پہلے ہی کچھ کم گمبھیر نہیں تھا۔ روز بروز پیچیدہ اور سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہمارا نوجوان طبقہ ہو رہا ہے جو نہ صرف مایوسی کا شکار ہو رہا ہے بلکہ بددل ہوکر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہا ہے جو ہمارے معاشرے کے لیے سم قاتل سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے میڈیا پر روز مرہ ایسی بری بری خبریں آتی رہتی ہیں جو باعث تشویش ہی نہیں باعث شرم و ندامت بھی ہوتی ہیں۔ سماج دشمن عناصر ہمارے بے روزگار نوجوانوں کی فوج ظفر موج کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اس طرح کی صورتحال محض عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی ایک سنگین ترین چیلنج سے کم نہیں ہے۔
ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے جیسے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ دیہات کے لوگ تلاش معاش کی خاطر بڑی تیزی کے ساتھ شہروں کا رخ کر رہے ہیں جن میں شہر قائد کراچی سرفہرست ہے۔ نقل مکانی کے اس سیلابی ریلے نے کراچی کے مسائل گرفتہ شہر کے حالات کو مزید پیچیدہ اور گمبھیر بناکر رکھ دیا ہے جہاں کا انفرااسٹرکچر آبادی کے مزید بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت اور گنجائش نہیں رکھتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دیہات سے شہروں کو آبادی کی منتقلی کے رجحان کی جانب فوری توجہ دے اور مقامی طور پر روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے فوری اور موثر حکمت عملی وضع کرے۔ اس کے لیے دیہی علاقوں میں نئی نئی صنعتوں، خصوصاً زراعت پر مبنی صنعتوں (Agro based Industries) کا فروغ سب سے اہم اور ضروری اقدام ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک جانب دیہی عوام کی زندگیوں میں خوشی اور خوش حالی آئے گی وہیں دوسری جانب شہروں پر بڑھتی ہوئی آبادی کے اضافی بوجھ میں بھی کمی واقع ہوگی۔
آبادی کے اعتبار سے بھی کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کسی زمانے میں اس شہر کی سڑکیں روزانہ پابندی کے ساتھ صفائی کے بعد پانی سے دھوئی جایا کرتی تھیں۔ اس کیفیت کا آنکھوں دیکھا حال ہم نے کراچی کے سینئر شہریوں کی زبانی کئی مرتبہ سنا ہے جن میں اس شہر کے پہلے مسلم رئیس بلدیہ حکیم محمد احسن (مرحوم) بھی شامل ہیں جنھیں ہمیں انتہائی قریب سے دیکھنے اور جاننے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔
حکیم احسن کا شمار ان چند گنی چنی ہستیوں میں ہوتا ہے جنھیں اگر آبروئے پاکستان یا پاکستان کی شناخت کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہم نے موصوف کو وطن عزیز کے حالات کی وجہ سے نہایت اداس اور فکرمند دیکھا تھا۔ حکیم صاحب پایہ کے حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی محب وطن اور اعلیٰ اوصاف کے مالک بزرگ سیاست داں بھی تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سفارت کاری کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔
چنانچہ جب صومالیہ میں پاکستان کے سب سے پہلے سفیر کی تقرری کا مرحلہ پیش آیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نظر انتخاب حکیم محمد احسن پر ہی پڑی۔ بعد میں ریڈیو پاکستان کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران یہ عقدہ بھی کھلا کہ موصوف کو صومالیائی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اس کا ذاتی مشاہدہ ہمیں اس وقت میسر آیا جب پاکستان کے سامعین کے لیے سواحیلی زبان میں نشر ہونے والے پروگرام میں ایک خصوصی پیغام نشر کیا گیا۔ وہ اس قدر روانی سے یہ زبان بول رہے تھے گویا وہ اہل زبان ہی ہوں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس زبان پر انھیں اتنا زبردست عبور حاصل ہوگا۔
حکیم محمد احسن کے زمانے کا کراچی برصغیر کا پیرس ہوا کرتا تھا جہاں سڑکوں کی دھلائی نہایت پابندی کے ساتھ روزانہ ہوا کرتی تھی۔ آج اس شہر کی حالت زار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں طرح طرح کے حشرات الارض اور جراثیم نہایت آسانی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں اور پروان چڑھ رہے ہیں۔ عام آبادیاں تو کجا اب تو اس شہر کے پوش علاقوں میں بھی جا بجا گٹر ابلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کا غلیظ اور تعفن بھرا پانی ہر گزرنے والے شخص کا ناطقہ بند کر رہا ہے۔
بلاشبہ اس شہر میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا کہ جس نے اس شہر کی ہیئت تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا مگر جب سے بلدیاتی نظام کی بساط لپٹی ہے اس کے بعد سے آج تک اس کی حالت ایک شہر ناپرساں جیسی ہے جس کا کوئی والی وارث دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔
البتہ بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ارباب اختیار نے سیاسی مصلحت کے تحت اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے 150 ملین روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے جو آیندہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی ایک سیاسی حکمت عملی اور گہری چال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی ارباب اختیار کیا اتنے طویل عرصے سے غفلت کی نیند سو رہے تھے ؟
کراچی میں آتشزدگی کے مختلف واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فائربریگیڈ کا محکمہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ نہ اس کی گاڑیوں کی حالت تسلی بخش ہے اور نہ ہی اس محکمے کے عملے کی کارکردگی بین الاقوامی معیار کی ہے۔ نتیجتاً آتشزدگی کے سانحات رونما ہونے کی صورت میں بے چارے عوام کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ابھی گزشتہ چند روز قبل انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹکٹس پاکستان، کراچی چیپٹر کے زیر اہتمام 2015 Disaster Risk Reduction, Earth Quacks and Disaster Management کے موضوع کے تحت ہونے والے مباحثے میں کراچی سے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ چشم کشا ہیں۔ ان حقائق کی رو سے خدانخواستہ کسی شدید زلزلے سے متاثر ہونے کی صورت میں کراچی میں حفاظتی اور بحالیاتی سہولتیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ زلزلوں کے حوالے سے یہ شہر ایک خطرناک پٹی پر آباد ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق لاس اینجلس اور کراچی میں آبادی اور ارضیاتی نوعیت کے لحاظ سے بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ مگر قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے انتظامات کے لحاظ سے لاس اینجلس اور کراچی کا کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ کراچی میں حفاظتی انتظامات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کا انفرااسٹرکچر زلزلے کے شدید جھٹکوں کی تاب لانے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ کراچی شہر کا حال تو اس موٹر گاڑی جیسا ہے جس پر درج ذیل شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
صرف کراچی شہر ہی نہیں مندرجہ بالا شعر ہمارے پورے ملک پر ہی صادق آتا ہے جو مملکت خداداد کہلانے کے حوالے سے اللہ ہی کے سہارے سے چل رہا ہے۔ وطن عزیز کی حکومتوں کے جو لچھن اب تک رہے ہیں اس کا احوال ہمارا آزاد میڈیا ہمیں صبح سے شام تک سناتا اور دکھاتا رہتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ احتساب کی تازہ ترین لہر نے ہمارے پیارے وطن میں امید کی ایک نئی کرن روشن کردی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے سارا وطن جاگ اٹھا ہے۔
آبادی میں یہ تیز رفتار اضافہ اس لیے باعث تشویش ہے کہ وطن عزیز کو موجودہ حالات میں بھی اپنی آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل درپیش ہیں، خوراک، رہائش، پانی اور توانائی کی قلت جیسے سنگین مسائل سرفہرست ہیں۔ تمام مسائل کی جڑ باقاعدہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور جہاں منصوبے موجود ہیں وہاں ان پر عملدرآمد بھی نہیں ہو رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ چین کی بھاری آبادی بھی اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی مگر اس ملک کی مخلص اور دیانتدار قیادت نے اپنی آبادی کو اثاثے میں تبدیل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔
آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافے کے نتیجے میں نہ صرف بے پناہ معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں بلکہ بہت سے پیچیدہ اور تباہ کن معاشرتی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں جن میں آئے دن کے گھریلو جھگڑے، ناچاقیاں، خودکشیاں، قتل و غارت گری، چوری چکاری، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور کچی آبادیوں میں برق رفتار جیسے مسائل شامل ہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بے چینی اور بے اطمینانی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں بے امنی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
آبادی میں اضافے کے باعث بے روزگاری کا مسئلہ جو پہلے ہی کچھ کم گمبھیر نہیں تھا۔ روز بروز پیچیدہ اور سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہمارا نوجوان طبقہ ہو رہا ہے جو نہ صرف مایوسی کا شکار ہو رہا ہے بلکہ بددل ہوکر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہا ہے جو ہمارے معاشرے کے لیے سم قاتل سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے میڈیا پر روز مرہ ایسی بری بری خبریں آتی رہتی ہیں جو باعث تشویش ہی نہیں باعث شرم و ندامت بھی ہوتی ہیں۔ سماج دشمن عناصر ہمارے بے روزگار نوجوانوں کی فوج ظفر موج کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اس طرح کی صورتحال محض عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی ایک سنگین ترین چیلنج سے کم نہیں ہے۔
ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے جیسے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ دیہات کے لوگ تلاش معاش کی خاطر بڑی تیزی کے ساتھ شہروں کا رخ کر رہے ہیں جن میں شہر قائد کراچی سرفہرست ہے۔ نقل مکانی کے اس سیلابی ریلے نے کراچی کے مسائل گرفتہ شہر کے حالات کو مزید پیچیدہ اور گمبھیر بناکر رکھ دیا ہے جہاں کا انفرااسٹرکچر آبادی کے مزید بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت اور گنجائش نہیں رکھتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دیہات سے شہروں کو آبادی کی منتقلی کے رجحان کی جانب فوری توجہ دے اور مقامی طور پر روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے فوری اور موثر حکمت عملی وضع کرے۔ اس کے لیے دیہی علاقوں میں نئی نئی صنعتوں، خصوصاً زراعت پر مبنی صنعتوں (Agro based Industries) کا فروغ سب سے اہم اور ضروری اقدام ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک جانب دیہی عوام کی زندگیوں میں خوشی اور خوش حالی آئے گی وہیں دوسری جانب شہروں پر بڑھتی ہوئی آبادی کے اضافی بوجھ میں بھی کمی واقع ہوگی۔
آبادی کے اعتبار سے بھی کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کسی زمانے میں اس شہر کی سڑکیں روزانہ پابندی کے ساتھ صفائی کے بعد پانی سے دھوئی جایا کرتی تھیں۔ اس کیفیت کا آنکھوں دیکھا حال ہم نے کراچی کے سینئر شہریوں کی زبانی کئی مرتبہ سنا ہے جن میں اس شہر کے پہلے مسلم رئیس بلدیہ حکیم محمد احسن (مرحوم) بھی شامل ہیں جنھیں ہمیں انتہائی قریب سے دیکھنے اور جاننے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔
حکیم احسن کا شمار ان چند گنی چنی ہستیوں میں ہوتا ہے جنھیں اگر آبروئے پاکستان یا پاکستان کی شناخت کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہم نے موصوف کو وطن عزیز کے حالات کی وجہ سے نہایت اداس اور فکرمند دیکھا تھا۔ حکیم صاحب پایہ کے حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی محب وطن اور اعلیٰ اوصاف کے مالک بزرگ سیاست داں بھی تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سفارت کاری کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔
چنانچہ جب صومالیہ میں پاکستان کے سب سے پہلے سفیر کی تقرری کا مرحلہ پیش آیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نظر انتخاب حکیم محمد احسن پر ہی پڑی۔ بعد میں ریڈیو پاکستان کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران یہ عقدہ بھی کھلا کہ موصوف کو صومالیائی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اس کا ذاتی مشاہدہ ہمیں اس وقت میسر آیا جب پاکستان کے سامعین کے لیے سواحیلی زبان میں نشر ہونے والے پروگرام میں ایک خصوصی پیغام نشر کیا گیا۔ وہ اس قدر روانی سے یہ زبان بول رہے تھے گویا وہ اہل زبان ہی ہوں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس زبان پر انھیں اتنا زبردست عبور حاصل ہوگا۔
حکیم محمد احسن کے زمانے کا کراچی برصغیر کا پیرس ہوا کرتا تھا جہاں سڑکوں کی دھلائی نہایت پابندی کے ساتھ روزانہ ہوا کرتی تھی۔ آج اس شہر کی حالت زار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں طرح طرح کے حشرات الارض اور جراثیم نہایت آسانی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں اور پروان چڑھ رہے ہیں۔ عام آبادیاں تو کجا اب تو اس شہر کے پوش علاقوں میں بھی جا بجا گٹر ابلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کا غلیظ اور تعفن بھرا پانی ہر گزرنے والے شخص کا ناطقہ بند کر رہا ہے۔
بلاشبہ اس شہر میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا کہ جس نے اس شہر کی ہیئت تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا مگر جب سے بلدیاتی نظام کی بساط لپٹی ہے اس کے بعد سے آج تک اس کی حالت ایک شہر ناپرساں جیسی ہے جس کا کوئی والی وارث دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔
البتہ بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ارباب اختیار نے سیاسی مصلحت کے تحت اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے 150 ملین روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے جو آیندہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی ایک سیاسی حکمت عملی اور گہری چال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی ارباب اختیار کیا اتنے طویل عرصے سے غفلت کی نیند سو رہے تھے ؟
کراچی میں آتشزدگی کے مختلف واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فائربریگیڈ کا محکمہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ نہ اس کی گاڑیوں کی حالت تسلی بخش ہے اور نہ ہی اس محکمے کے عملے کی کارکردگی بین الاقوامی معیار کی ہے۔ نتیجتاً آتشزدگی کے سانحات رونما ہونے کی صورت میں بے چارے عوام کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ابھی گزشتہ چند روز قبل انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹکٹس پاکستان، کراچی چیپٹر کے زیر اہتمام 2015 Disaster Risk Reduction, Earth Quacks and Disaster Management کے موضوع کے تحت ہونے والے مباحثے میں کراچی سے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ چشم کشا ہیں۔ ان حقائق کی رو سے خدانخواستہ کسی شدید زلزلے سے متاثر ہونے کی صورت میں کراچی میں حفاظتی اور بحالیاتی سہولتیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ زلزلوں کے حوالے سے یہ شہر ایک خطرناک پٹی پر آباد ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق لاس اینجلس اور کراچی میں آبادی اور ارضیاتی نوعیت کے لحاظ سے بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ مگر قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے انتظامات کے لحاظ سے لاس اینجلس اور کراچی کا کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ کراچی میں حفاظتی انتظامات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کا انفرااسٹرکچر زلزلے کے شدید جھٹکوں کی تاب لانے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ کراچی شہر کا حال تو اس موٹر گاڑی جیسا ہے جس پر درج ذیل شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
کمال ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
صرف کراچی شہر ہی نہیں مندرجہ بالا شعر ہمارے پورے ملک پر ہی صادق آتا ہے جو مملکت خداداد کہلانے کے حوالے سے اللہ ہی کے سہارے سے چل رہا ہے۔ وطن عزیز کی حکومتوں کے جو لچھن اب تک رہے ہیں اس کا احوال ہمارا آزاد میڈیا ہمیں صبح سے شام تک سناتا اور دکھاتا رہتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ احتساب کی تازہ ترین لہر نے ہمارے پیارے وطن میں امید کی ایک نئی کرن روشن کردی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے سارا وطن جاگ اٹھا ہے۔