کتنے اچھے لوگ ہیں یہ ہمارے …
یہ تو اتنے عرصے میں آپ کو لگ پتہ گیا ہو گا کہ ہمارے اندر ’’صفات ہی صفات‘‘ بھری ہوئی ہیں۔
یہ تو اتنے عرصے میں آپ کو لگ پتہ گیا ہو گا کہ ہمارے اندر ''صفات ہی صفات'' بھری ہوئی ہیں۔ ٹھیک ہے دوسرے نامی گرامی کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں اور دانش نگاروں کی طرح ہماری ''پہنچ'' سرکاری مقامات عالیہ تک نہیں ہے اور ہم اپنے کالم میں آپ کو اپنی پہنچ، رسائی اور معاملہ بندی کے قصے نہیں سنا سکتے کہ فلاں سیاسی، سماجی، بین الاقوامی یا سفارتی شخصیت نے ہم کو فون کیا، ہم سے صلاح چاہی اور ہم نے مشورہ عطا کیا۔
امریکا، کینیڈا، یورپ اور عرب ممالک میں ہمارے فین نہیں اور دنیا بھر کے چینلوں سے بھی ہمارے گہرے تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کے علاوہ ہمارے اندر ''صفات'' ہی صفات ہیں جو ناک تک بھری ہوئی ہیں لیکن ہمارے اندر ''غرور'' نہیں ہے اس لیے زیادہ چرچے نہیں کرتے، ان صفات عالیہ میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو سرسری اور صرف ظاہر کی نظروں سے نہیں دیکھتے بلکہ گہرائیوں میں اتر کر بڑے نایاب موتی نکالتے ہیں، لیکن اس صفت کا سارا کریڈٹ ہم اپنی جھولی میں نہیں ڈالیں گے کیوں کہ ہمارے اندر یہ صفت اپنے لیڈروں، افسروں، حکومتوں، منتخب نمایندوں اور ممتاز رہنماؤں کو دیکھ دیکھ کر پیدا ہوئی ہے۔
آپ چاہیں تو ہمیں خربوزہ بھی سمجھ سکتے ہیں جس نے سارا رنگ ان ہی ''خربوزوں''سے پکڑا ہے جو عرصہ ایک کم ستر سال سے ہمارے کھیت پاکستان میں اپنی بہار جانفزا دکھلا رہے ہیں نہ صرف ہم جیسے دوسرے خربوزے ان سے ''کسب رنگ'' کرتے ہیں بلکہ ان کی خوشبو سے سارا کھیت بھی مہک رہا ہے۔
کوئی شاعر چاہے تو اس مضمون کا قومی ترانہ بھی لکھ سکتا ہے کہ مہک رہا ہے سارا پاکستان، بہک رہا ہے چہک رہا ہے لہک رہا ہے، یا مہک رہا ہے خیبر پختون خوا ... اپنے لیڈران کرام اور رہنمایان عظام نیز بھانت بھانت کی حکومتوں، جمہوریتوں کے رنگ برنگ وزیران عالی مقام اور منتخب نمایندگان ایام سے کسب فیض کرتے ہوئے ہماری بصیرت اور بصارت اتنی گہری ہو چکی ہے کہ کسی بھی حکومت کی اٹھان یا وزیر مشیر امیر کا بیان سونگھ کر ہی ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ کتنے پانی میں ہیں، مثلاً سرسری طور عامی امی لوگ تو تقریباً ہر محکمے ادارے اور دفتر کو ''خسارے'' میں دیکھ سن کر پریشان ہو جاتے ہیں، ساتھ ہی یہ دیکھ کر حیران بھی ہو جاتے ہیں کہ آنے والی تین نسلوں کو گروی رکھنے کے بعد قرضے کے لیے ''ہل من مزید'' کا سلسلہ چل رہا ہے۔
سرکاری کاموں اور ''ناکاموں'' کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ سارا ملک ہی نقصان میں جارہا ہے۔ ہر محکمہ خسارے میں ہے، فاقوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں، لیکن مذکورہ ہنر مند بلکہ پیشہ ور بلکہ کوالی فائیڈ لوگ کان بند کر کے اپنی شہرہ آفاق ناک جہاں بھی گھسیڑتے ہیں وہاں فنڈ ہی فنڈ ویکنسیاں ہی ویکنسیاں اور مراعات ہی مراعات پاتے ہیں۔
چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کا کہنا ہے کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو اتنے باکمال اور لاجواب پرواز ہیں کہ آپ اسے کولتار کی سڑک پر چھوڑ دیجیے ،کالی سڑک سے بھی وہ دو چار گھنٹے گھاس کے کاٹ لیں گے، پاؤ بھر کالا پتھر دے دیجیے ایسا نچوڑیں گے کہ پاؤ پتھر سے آدھا کلو تیل باآسانی حاصل کر لیں گے اور اگر کوئی بیل یا بھینسا ہاتھ لگا تو ان سے بھی دو چار لیٹر دودھ دوھ لیں گے۔
ہم نے اپنے لیڈروں اور وزیروں، مشیروں، منتخب نمایندوں ان کے چمچوں پھر چمچوں کے چمچوں اور پھر ان کے چمچوں کو بھی دیکھا ہے کہ خسارے والے محکموں جن میں پہلے سے سابق وزیروں کے آدمی سرپلس ہوتے ہیں، یہ بڑے آرام سے اپنے سو ڈیڑھ سو لوگوں کو گھسیڑ دیں گے اور وہ محکمہ یا ادارہ اف تک نہیں کرے گا بلکہ اس پر بھی بس نہیں کرتے آخری لمحے تک ناک زمین سے لگائے سونگھتے رہتے ہیں کیوں کہ وہ ''کام'' کے لیے آئے ہوتے ہیں اور ''کام'' دکھا کر ہی جاتے ہیں، جس طرح ودیا بالن نے کہا ہے کہ انٹرٹینمنٹ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں، انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور انٹرٹینمنٹ ۔۔۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے ان ممدوحین کا بھی نظریہ ہے کہ کام دکھانے کے لیے تین چیزیں لازمی ہیں کام کام کام، کہیں آپ کا خیال ایک پرانے بزرگ کی طرف تو نہیں جارہا ہے کیوں کہ انھوں نے بھی کہا تھا کہ کام کام اور کام... لیکن وہ قطعی دوسرے معنوں میں تھا۔
آج ''کام'' کا مطلب وہ کام ہوتا ہے جو کیا نہیں جاتا بلکہ ''دکھایا'' جاتا ہے، یہاں پر ایک اور بڑی سی غلط فہمی اٹھنے کی کوشش کر رہی ہے، لگے ہاتھوں اس سے بھی نبٹ چلیں تو اچھا ہے ،کچھ لوگوں کا خیال ہے اور سراسر غلط خیال ہے کہ ہمارے یہ ممدوحین جن کا ذکر ہوا ہے کام کا وقت فالتو قسم کے گھپلوں اور اسکینڈلوں وغیرہ میں لگاتے رہتے ہیں کیوں کہ آج تک ان میں کوئی ایک بھی مائی کا لال اور ابا کا پیاراا ایسا نہ آیا ہے نہ گیا ہے جس کی جھولی میں سو چھیدوں کے باوجود آٹھ دس یا دو چار گھپلے نہ ہوں، اس سلسلے میں اکثر بادشاہ کے اس ''فادر ان لا'' کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جسے بادشاہ نے دریا کی لہریں گننے پر مامور کیا تھا اور اس نے وہاں بھی اپنے ''فن'' کا بے مثل مظاہرہ کیا تھا کیوں کہ
یہ کرنے والے بھی بے حد عجیب ہوتے ہیں
جہاں سے دور تو ''خود'' سے قریب ہوتے ہیں
لیکن یہ بالکل ہی غلط خیال ہے اپنا ''کام'' یہ برابر دکھاتے رہتے ہیں اور یہ گھپلے اور سکینڈل بنانے کے لیے انھوں نے دوسرے لوگ رکھے ہوتے ہیں جنھیں عرف عام میں چمچے اور عرف خاص میں بھائی بیٹے خسر داماد وغیرہ کہتے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ ''گھپلے اور سکینڈل''دوسرے ''ٹھیکیداروں'' سے بنواتے ہیں جو ہر پارٹی اور حکومت سے باقاعدہ پرمٹ ہولڈز اور لائسنس یافتہ ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک ''معصوم ٹھیکیدار'' کے بارے میں ابھی ابھی خبر آئی ہے جسے گذشتہ دور حکومت میں یہ کام ٹھیکے پر دیا گیا تھا، یہ معصوم مشیر صاحب اس کل گرفت میں ہیں۔
اس سارے معاملے میں ہمیں نہ تو نیب و ریب جیسی واشنگ مشین فیکٹریوں سے لینا دینا ہے نہ معصوموں سے بلکہ خبر میں ''پانچ کلو سونے'' کا جو ذکر ہے اس نے ... اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے ... ہم پانچ کلو آٹا خریدنے کے لیے بھی نہ جانے کہاں کہاں کس کس خواہش پر قینچی چلائیں گے اور یہاں پانچ کلو سونا صرف ایک خفیہ لاکر سے برآمد ہوا ہے، پانچ کلو سونا ... یہ صرف ایک وزیراعلیٰ کے صرف ایک ہی معصوم کے صرف ایک لاکر کا سلسلہ، ایسے نہ جانے کہاں کہاں کس کس کے کتنے کتنے لاکروں میں کتنا سونا بھرا ہو گا۔ جی تو چاہتا ہے کہ کہیں سے پانچ لیٹر پانی لے کر اس میں ڈوب مریں، پانی اس لیے کہ پانچ لیٹر پٹرول یا ڈیزل (خود کو جلانے کے لیے) ہمارے بس میں نہیں ہے۔
یہ تو بیچ میں ویسے ہی داڑھ تلے کنکر آگیا تھا، اصل بات ہم یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ مذکورہ حضرات کرام اور شخصیات عظام گھپلوں اور سکینڈلوں پر ''کام کا سمے'' برباد نہیں کرتے، سکینڈلوں اور گھپلوں کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں جو اگر چاہیں تو شیشے سے پتھر کو توڑ دیں اور ایک لاکھ روپے میں دس لاکھ لے مریں، صحیح اعداد و شمار کا پتہ تو شاید ''گوگل'' کو ہو لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ پاکستان میں اب تک ہونے والے گھپلوں کو ٹوٹل کیا جائے تو کم از کم پاکستان کی آبادی جتنے تو ہوں گے ہی ہوں گے۔
یوں کہئے کہ فی کس ایک گھپلہ تو آئے گا ہی، گویا اس پورے ملک کی پوری آبادی پر ان لوگوں کا احسان ہے کیونکہ یہ ''گھپلے'' ان لوگوں نے سرکاری وقت میں نہیں کیے ہیں، ایک طرح سے ''اوور ٹائم'' سمجھ لیجیے جو ان کے اصل کام کے علاوہ ہیں، اب آپ خود ہی انصاف کیجیے کہ یہ لوگ کتنے اچھے ہیں کہ اس کے لیے اوور ٹائم نہیں مانگ رہے ہیں، یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے باغ کے لیے ایک رکھوالا رکھا تھا، اس کے دم قدم سے ہمارا باغ ان باغوں سے پہلے ہی لٹ گیا جن کے رکھوالے نہیں تھے ... اور پھر بھی رکھوالے نے ہم سے پوری تنخواہ کے ساتھ ساتھ بونس بھی وصول کیا۔