سینئر سیٹیزن اچھے فیصلے کے منتظر
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا ہے،
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا ہے، نئے چیف جسٹس اپنے عہدے پر 23روز تک رہنے کے بعد 9ستمبر کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ محترم جسٹس صاحب کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوگی کہ قومی بچت کا ادارہ ماضی میں سینئر سیٹیزنز (ضعیف العمر حضرات) بیواؤں کو ایک لاکھ پر تقریباً بارہ سو روپے دے رہا تھا اب ان حضرات کو ایک لاکھ کی سرمایہ کاری پرصرف 880 روپے دیے جاتے ہیں۔
یہ بے یارومددگار اور غمزدہ ریٹائرڈ حضرات آپ سے التجا کرتے ہیں کہ ایسے سخت و مشکل حالات میں قومی بچت میں عمر رسیدہ حضرات اور بیوہ خواتین کے لیے اسکیموں میں منافعے کی شرح کم از کم ماہانہ گیارہ سو (1100) روپے کر دی جائے، محترم چیف جسٹس، سینئر سیٹیزن سے سروے میں سو میں سے 99 حضرات نے کہا ہے کہ دیگر بینکوں کی طرح قومی بچت بھی شرعی اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ عمر بھر ایمانداری سے اس ملک کی خدمت کرنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں آکر ہم سود کھانے پر مجبور ہوں۔
میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک بزرگ نے کہا کہ ہم تو اسلامی بینکوں میں پیسہ جمع کرانا چاہتے ہیں مگر میں 14ویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہوا ہوں 14لاکھ اگر میں اسلامی بینک میں جمع کراؤں تو وہ ایک لاکھ پر 350 روپے یا زیادہ سے زیادہ 450روپے دیتے ہیں اتنی قلیل رقم میں گھر کیسے چلا سکتا ہوں میرے ساتھ تو ابھی غیر شادی شدہ بچیوں کا ساتھ ہے لہٰذا بحالت مجبوری میں سود کھانے پر مجبور ہوں ۔
وزیراعظم نواز شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار ان بینکوں سے معلوم کریںکہ یہ اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر اتنا کم منافع کیسے دے رہے ہیں، لہٰذا محترم جسٹس جواد ایس خواجہ سے گزارش ہے کہ وہ قومی بچت کے ادارے کو پابند کریں کہ وہ سینئر سیٹیزن کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کا لازمی طور پر اجرا کرے کیونکہ یہ اسلامی ملک ہے۔
14اپریل 1943 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے سرحد اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ حضرات نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو ایک پیغام دوں میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں ہم نے قرآن میں عظیم ترین پیغام اپنی رہنمائی اور روشن خیالی کے لیے حاصل کرلیا ہے۔
''کتاب پاکستان کا مطلب کیا سے ماخوذ'' ماضی میں نواز شریف نے اپنی حکومت میں سود کے خاتمے سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی اب ان سے درخواست ہے کہ وہ اس اپیل کو واپس لے کر سود جیسی لعنت کے خاتمے کا اعلان کریں تاکہ یہ عزت دار، نیک، ماضی میں ملک کی خاطر سختیاں جھیلنے والے، غمزدہ، مفلوک الحال قومی سلامتی کے منصب پر فائز رہنے والے یہ سینئر سیٹیزن بھی عزت و آبرو سے شرعی منافع قومی بچت سے وصول کریں مانا کہ ماضی میں بزرگوں کو پندرہ سو پھر بارہ سو روپے بھی ملتا رہا اب یہ کم ہو کر صرف 880 روپے رہ گیا ہے اس زمرے میں پرائیویٹ بینک ڈفلی بجا رہے ہیں۔
شرعی منافعے کے نام پر اتنا کم پرافٹ دے رہے ہیں کہ صرف صنعت کار اور امیر حضرات ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ہر وقت ان کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے ہوتے ہیں نکال لیے تو کسی ضرورت کے تحت کاروبار میں لگا دیے اور اگر نہ نکالے تو 450 یا 350 روپے تو ہر ماہ جمع ہورہے ہیں پھر کیا فکر ہے اب آئیے غریب کی طرف جو غریب 60سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوا اگر وہ آفیسر گریڈ میں نہیں ہے تو بہت زیادہ وہ بھی کوئی اچھا ادارہ ہوا تو 15لاکھ سے زیادہ نہیں ملتے اس غریب کی تنخواہ ریٹائرڈ ہونے کے وقت اگر 18000 روپے تھی تو محترم جسٹس آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ اگر اسلامی بینک میں سود سے بچنے کے لیے پیسہ ڈالتا ہے تو اسے 18لاکھ پر ہر ماہ 350 روپے سے 6300 اور 450 روپے مہینے سے 8100 روپے منافع اسلامی ملے گا اب آپ بتائیں کہ وہ سود سے بچ کر اس منافعے پر کیسے گزارہ کرسکتا ہے۔
اب یہ بات دوسری ہے کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے کتنے بچوں کی شادیاں کرنی ہیں یہ مسائل الگ ہیں اگر قومی بچت اسلامی شرعی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرکے ہر ماہ سینئر سیٹیزن کو 1150کبھی 1146کبھی 1140 کیونکہ سود میں رقم فکسڈ ہوتی ہے جب کہ شرعی سرٹیفکیٹ میں یہ رقم آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے اگر کسی سینئر سیٹیزن کو کم از کم ماہانہ شرعی سرٹیفکیٹ کے حساب سے 1140روپے بھی ملیں تو 15لاکھ پر اُسے 17100 روپے ماہانہ ملیں گے اب اس عمر میں وہ نوکری کرنے سے بچ گیا۔
المیہ یہ ہے کہ اب کالم نویس عوامی مشکلات پر قلم کم ہی اُٹھاتے ہیں جب قرآن کا درس، شرعی عدالتیں، قائد اعظم محمد علی جناح کے مذہبی اقوال یہ تمام چیزیں موجود ہیں تو ریٹائر لوگوں کو ساری عمر نیکی پر سفر کرنے کے بعد سود کی پیپ پلانے کی کیا ضرورت ہے۔ راقم مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ان میں کلرک، جونیئر آفیسر، سینئر آفیسر، حتیٰ کہ 20ویں گریڈ کے اعلیٰ آفیسر یہ سب ''سینئر سیٹیزن'' تھے سب کی ایک ہی آواز تھی کہ قومی بچت میں عمر رسیدہ اور بیوہ خواتین کے لیے اچھے شرعی منافع کے اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا جائے۔
میں ایک ایسے انکم ٹیکس کے ریٹائر کمشنر کو بھی جانتا ہوں (جواب اس دنیا میں نہیں) میں ایک دن اُن کے گھر میں بیٹھا تھا میں نے ان کی دیواروں کو دیکھ کر کہا محترم گھر پر سفیدی تو کرالیں۔ مسکرائے پھر کہا کہ بھئی کیا کریں پیسے نہیں تنخواہ میں گھر چلتا ہے اور جب وہ بحیثیت کمشنر انکم ٹیکس ریٹائر ہوئے تو جو پیسہ ان کو ملا وہ انھوں نے قومی بچت میں رکھ دیا وہ بیچارے بھی کیا کرتے (مرتا کیا نہ کرتا) ہمارے چند حکومتی ارکان اور سیاست دان آرٹیکل وغیرہ سب پڑھتے ہیں ان کے اختیارات بھی ہیں مگر یہ عوامی سطح پر اس مملکت خداداد میں انصاف کے ترازو کو ریزہ ریزہ کر چکے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف اپنی ہستی کو تولتے ہیں کہ اُس کا معاشی وزن کم نہ ہو جائے بہت غور طلب مسئلہ پر اس ناتواں نے قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے ہم نے مشورہ دلائل کے ساتھ تو دے دیا جس میں تمام شرعی تقاضے پورے کیے ہیں کہ کوہلو کے بیل کی طرح خدمت کرنے والے نیک لوگ جو ساری عمر اس ملک سے محبت کے ناتے زندگی گزار گئے مگر جب وہ عمر کے آخری حصے میں آئے تو انھیں ''سود کی ٹرین'' میں بٹھا دیا گیا جس کی کوئی مذہبی منزل نہیں سارا دن چینلز پر مختلف مولوی حضرات بیٹھے ہوتے ہیں مگر وہ بھی اس پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں۔
آخر میں مَیں محترم جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے مودبانہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر جلد از جلد خود نوٹس لیں کیونکہ ہم جیسے صحافی تو صرف ان بزرگ افراد کی وکالت کرسکتے ہیں جو قومی بچت میں سود سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ اب آگے ارباب اختیار جانیں۔اگر وہ سینئر سٹیزن کو سود کھانے سے بچا لیں تو مہربانی ہو گی۔
یہ بے یارومددگار اور غمزدہ ریٹائرڈ حضرات آپ سے التجا کرتے ہیں کہ ایسے سخت و مشکل حالات میں قومی بچت میں عمر رسیدہ حضرات اور بیوہ خواتین کے لیے اسکیموں میں منافعے کی شرح کم از کم ماہانہ گیارہ سو (1100) روپے کر دی جائے، محترم چیف جسٹس، سینئر سیٹیزن سے سروے میں سو میں سے 99 حضرات نے کہا ہے کہ دیگر بینکوں کی طرح قومی بچت بھی شرعی اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ عمر بھر ایمانداری سے اس ملک کی خدمت کرنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں آکر ہم سود کھانے پر مجبور ہوں۔
میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک بزرگ نے کہا کہ ہم تو اسلامی بینکوں میں پیسہ جمع کرانا چاہتے ہیں مگر میں 14ویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہوا ہوں 14لاکھ اگر میں اسلامی بینک میں جمع کراؤں تو وہ ایک لاکھ پر 350 روپے یا زیادہ سے زیادہ 450روپے دیتے ہیں اتنی قلیل رقم میں گھر کیسے چلا سکتا ہوں میرے ساتھ تو ابھی غیر شادی شدہ بچیوں کا ساتھ ہے لہٰذا بحالت مجبوری میں سود کھانے پر مجبور ہوں ۔
وزیراعظم نواز شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار ان بینکوں سے معلوم کریںکہ یہ اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر اتنا کم منافع کیسے دے رہے ہیں، لہٰذا محترم جسٹس جواد ایس خواجہ سے گزارش ہے کہ وہ قومی بچت کے ادارے کو پابند کریں کہ وہ سینئر سیٹیزن کے لیے اسلامی سرٹیفکیٹ کا لازمی طور پر اجرا کرے کیونکہ یہ اسلامی ملک ہے۔
14اپریل 1943 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے سرحد اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ حضرات نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو ایک پیغام دوں میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں ہم نے قرآن میں عظیم ترین پیغام اپنی رہنمائی اور روشن خیالی کے لیے حاصل کرلیا ہے۔
''کتاب پاکستان کا مطلب کیا سے ماخوذ'' ماضی میں نواز شریف نے اپنی حکومت میں سود کے خاتمے سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی اب ان سے درخواست ہے کہ وہ اس اپیل کو واپس لے کر سود جیسی لعنت کے خاتمے کا اعلان کریں تاکہ یہ عزت دار، نیک، ماضی میں ملک کی خاطر سختیاں جھیلنے والے، غمزدہ، مفلوک الحال قومی سلامتی کے منصب پر فائز رہنے والے یہ سینئر سیٹیزن بھی عزت و آبرو سے شرعی منافع قومی بچت سے وصول کریں مانا کہ ماضی میں بزرگوں کو پندرہ سو پھر بارہ سو روپے بھی ملتا رہا اب یہ کم ہو کر صرف 880 روپے رہ گیا ہے اس زمرے میں پرائیویٹ بینک ڈفلی بجا رہے ہیں۔
شرعی منافعے کے نام پر اتنا کم پرافٹ دے رہے ہیں کہ صرف صنعت کار اور امیر حضرات ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ہر وقت ان کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے ہوتے ہیں نکال لیے تو کسی ضرورت کے تحت کاروبار میں لگا دیے اور اگر نہ نکالے تو 450 یا 350 روپے تو ہر ماہ جمع ہورہے ہیں پھر کیا فکر ہے اب آئیے غریب کی طرف جو غریب 60سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوا اگر وہ آفیسر گریڈ میں نہیں ہے تو بہت زیادہ وہ بھی کوئی اچھا ادارہ ہوا تو 15لاکھ سے زیادہ نہیں ملتے اس غریب کی تنخواہ ریٹائرڈ ہونے کے وقت اگر 18000 روپے تھی تو محترم جسٹس آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ اگر اسلامی بینک میں سود سے بچنے کے لیے پیسہ ڈالتا ہے تو اسے 18لاکھ پر ہر ماہ 350 روپے سے 6300 اور 450 روپے مہینے سے 8100 روپے منافع اسلامی ملے گا اب آپ بتائیں کہ وہ سود سے بچ کر اس منافعے پر کیسے گزارہ کرسکتا ہے۔
اب یہ بات دوسری ہے کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے کتنے بچوں کی شادیاں کرنی ہیں یہ مسائل الگ ہیں اگر قومی بچت اسلامی شرعی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرکے ہر ماہ سینئر سیٹیزن کو 1150کبھی 1146کبھی 1140 کیونکہ سود میں رقم فکسڈ ہوتی ہے جب کہ شرعی سرٹیفکیٹ میں یہ رقم آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے اگر کسی سینئر سیٹیزن کو کم از کم ماہانہ شرعی سرٹیفکیٹ کے حساب سے 1140روپے بھی ملیں تو 15لاکھ پر اُسے 17100 روپے ماہانہ ملیں گے اب اس عمر میں وہ نوکری کرنے سے بچ گیا۔
المیہ یہ ہے کہ اب کالم نویس عوامی مشکلات پر قلم کم ہی اُٹھاتے ہیں جب قرآن کا درس، شرعی عدالتیں، قائد اعظم محمد علی جناح کے مذہبی اقوال یہ تمام چیزیں موجود ہیں تو ریٹائر لوگوں کو ساری عمر نیکی پر سفر کرنے کے بعد سود کی پیپ پلانے کی کیا ضرورت ہے۔ راقم مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ان میں کلرک، جونیئر آفیسر، سینئر آفیسر، حتیٰ کہ 20ویں گریڈ کے اعلیٰ آفیسر یہ سب ''سینئر سیٹیزن'' تھے سب کی ایک ہی آواز تھی کہ قومی بچت میں عمر رسیدہ اور بیوہ خواتین کے لیے اچھے شرعی منافع کے اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا جائے۔
میں ایک ایسے انکم ٹیکس کے ریٹائر کمشنر کو بھی جانتا ہوں (جواب اس دنیا میں نہیں) میں ایک دن اُن کے گھر میں بیٹھا تھا میں نے ان کی دیواروں کو دیکھ کر کہا محترم گھر پر سفیدی تو کرالیں۔ مسکرائے پھر کہا کہ بھئی کیا کریں پیسے نہیں تنخواہ میں گھر چلتا ہے اور جب وہ بحیثیت کمشنر انکم ٹیکس ریٹائر ہوئے تو جو پیسہ ان کو ملا وہ انھوں نے قومی بچت میں رکھ دیا وہ بیچارے بھی کیا کرتے (مرتا کیا نہ کرتا) ہمارے چند حکومتی ارکان اور سیاست دان آرٹیکل وغیرہ سب پڑھتے ہیں ان کے اختیارات بھی ہیں مگر یہ عوامی سطح پر اس مملکت خداداد میں انصاف کے ترازو کو ریزہ ریزہ کر چکے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف اپنی ہستی کو تولتے ہیں کہ اُس کا معاشی وزن کم نہ ہو جائے بہت غور طلب مسئلہ پر اس ناتواں نے قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے ہم نے مشورہ دلائل کے ساتھ تو دے دیا جس میں تمام شرعی تقاضے پورے کیے ہیں کہ کوہلو کے بیل کی طرح خدمت کرنے والے نیک لوگ جو ساری عمر اس ملک سے محبت کے ناتے زندگی گزار گئے مگر جب وہ عمر کے آخری حصے میں آئے تو انھیں ''سود کی ٹرین'' میں بٹھا دیا گیا جس کی کوئی مذہبی منزل نہیں سارا دن چینلز پر مختلف مولوی حضرات بیٹھے ہوتے ہیں مگر وہ بھی اس پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں۔
آخر میں مَیں محترم جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے مودبانہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر جلد از جلد خود نوٹس لیں کیونکہ ہم جیسے صحافی تو صرف ان بزرگ افراد کی وکالت کرسکتے ہیں جو قومی بچت میں سود سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ اب آگے ارباب اختیار جانیں۔اگر وہ سینئر سٹیزن کو سود کھانے سے بچا لیں تو مہربانی ہو گی۔