چنگ چی رکشوں کی بندش شہریوں کی پریشانی
سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حکام کو ہدایت کی کہ وہ موٹر وہیکل رجسٹریشن، روٹ پرمٹ اور فٹنس کے بغیر کراچی سمیت صوبے کے حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ سمیت متعدد شہروں میں چلنے والے ان رکشوں پر پابندی عائد کرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
رانا فیض الحسن نے چنگ چی رکشوں کو غیر قانونی اور انھیں سڑکوں پر چلانے پر پابندی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ''کراچی میں چنگ چی رکشوں کا طوفان آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے، رکشوں کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، ان کی وجہ سے نہ صرف مسافروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ ٹریفک حادثات کا بھی سبب بنتے ہیں۔
موٹر وہیکل آرڈیننس مجریہ 1965 کے تحت تین پہیوں پر مشتمل چنگ چی رکشے کسی بھی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، ان کی تیاری کے لیے کوئی باقاعدہ لائسنس یافتہ ادارہ نہیں جو کسی مقررہ معیار کے مطابق رکشے تیار کرے اور کوئی بھی سرکاری ادارہ اس کے معیار کی تصدیق کرکے اسے سرٹیفکیٹ جاری کرے۔
ٹریفک پولیس اور دیگر ادارے ان غیر قانونی رکشوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے ان سے ملے ہوئے ہیں، ایک منظم مافیا کے تحت ان رکشوں کو چلایا جا رہا ہے، یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ چنگ چی رکشوں کی پارکنگ کے لیے بھی کوئی جگہ مختص نہیں اور یہ شہر بھر کی سڑکوں پر جا بجا کھڑے نظر آتے ہیں۔''
عدالتی حکم کے دن یعنی 5 اگست سے لے کر تادم تحریر ٹریفک پولیس کی جانب سے موٹرسائیکل چنگ چی اور سی این جی رکشوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ٹریفک پولیس اور صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل چنگ چی اور سی این جی چنگ چی رکشوں کے مالکان باڈیز میں رد و بدل کرکے گنجائش سے زائد مسافروں کو بٹھا رہے ہیں جس کے باعث یہ سروس انسانی زندگی انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔
غیر قانونی موٹرسائیکل اور سی این جی چنگ چی رکشوں کو محفوظ طرز کی ٹرانسپورٹ بنانے کے لیے ریگولیٹ کرنے کی پالیسی تشکیل دی جاچکی ہے، 9 تا12 سیٹوں والے رکشوں کو کسی صورت چلنے نہیں دیا جائے گا، صرف 4 سیٹوں والے رکشوں کی اجازت ہوگی، پنجاب میں بھی ان چنگ چی رکشوں پر پابندی لگ چکی ہے، چنگ چی رکشوں کی وجہ سے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک اژدھام اور حادثات معمول بن گئے ہیں۔
پنجاب میں قائم ورکشاپس سے چنگ چی رکشوں کے انفرااسٹرکچر میں تبدیلی کی جاتی ہے اور پھر یہ سندھ میں لائی جاتی ہیں، اس ضمن میں صوبائی محکمہ داخلہ کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ سندھ و پنجاب کی سرحد پر دفعہ 144 لگا کر ان غیر قانونی چنگ چی رکشوں کی آمد کو روکا جائے، چنگ چی رکشہ کے انفرا اسٹرکچر میں تبدیلی کے باعث انھیں فٹنس سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی روٹ پرمٹ جاری کیا گیا، جب تک یہ ضابطے کے مطابق انفرااسٹرکچر کو درست نہیں کر لیتے انھیں سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق شہرکراچی میں 55 ہزار سی این جی چنگ چی رکشے اور 35 ہزار موٹرسائیکل چنگ چی رکشے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات پہنچا رہے تھے۔ چنگ چی رکشوں کی بندش کے بعد مسافر بسوں اور ویگنوں کی قلت کے باعث کراچی کے شہری دفاتر اور کاروباری مراکز میں پہنچنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں گھنٹوں بس اسٹاپس پر کھڑا رہنا پڑ رہا ہے، اور وہ دستیاب بسوں اور منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح اور چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ چنگ چی موٹرسائیکل اور سی این جی رکشوں کی بدولت سفری سہولیات میسر تھیں، تاہم ان رکشوں کی بندش سے انھیں سخت مشکلات کا سامنا ہے، سندھ حکومت پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد کرائے اور بڑی بسوں کا بندوبست کرے پھر ان چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کرے۔
ادھر چنگ چی رکشوں پر پابندی کے خلاف رکشہ ڈرائیوروں اور سی این جی رکشوں کے ڈرائیوروں نے نیشنل ہائی وے اور کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ چنگ چی رکشوں پر عائد کی جانے والی پابندی فوری طور پر ختم کی جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیکڑوں افراد نہ صرف روزگار سے محروم ہوجائیں گے بلکہ ہزاروں شہری بھی اس سہولت سے محروم ہوجائیں گے، شہر میں پہلے ہی پبلک ٹرانسپورٹ آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہے اور شہری اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے چنگ چی رکشوں میں سفر کرتے ہیں جس سے ان کا وقت اور پیسہ بچتا ہے۔
مظاہرین نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ چنگ چی رکشوں پر عائد کی جانے والی پابندی پر نظر ثانی کریں۔ چنگ چی موٹرسائیکل رکشہ کے ڈرائیوروں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ہمیں قانون کے مطابق رکشے چلانے کی اجازت دی جائے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مختلف وجوہات کے باعث شہر قائد میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی ہوگئی ہے، 5 سال کے دوران بسوں اور منی بسوں کے ڈھائی سو سے زائد روٹس بند ہوچکے ہیں جب کہ اس وقت تقریباً ڈھائی تا تین ہزار پبلک ٹرانسپورٹ شہر میں چل رہی ہیں، اکثر اوقات سی این جی کی بندش پر پبلک ٹرانسپورٹ بند کردی جاتی ہے، موجودہ پبلک ٹرانسپورٹ دوکروڑ آبادی کے لیے انتہائی ناکافی ہے، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث شہر میں ماس ٹرانزٹ، کراچی سرکلر ریلوے اور 4 ہزار سی این جی بسوں کے منصوبے دس سال سے التوا کا شکار ہیں۔
چنگ چی کی بندش کی وجہ سے شہری اذیت میں مبتلا ہیں وہ آفت زدہ بسوں کی نسبت چنگ چی رکشوں میں سفر کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں انھیں چنگ چی آرام سے دستیاب تھا اور مقررہ وقت پر اپنی منزل کو پہنچتے تھے اور چوری کے واقعات بھی چنگ چی میں پیش نہیں آتے تھے۔
شہریوں کے لیے چنگ چی میٹرو بس سے کم نہیں تھا۔ چنگ چی رکشوں پر پابندی سے ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں جو ان رکشوں کے ذریعے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ اس پابندی سے عام شہری بری طرح سے متاثر ہیں جو ان رکشوں میں روز سفر کرتے تھے کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے جس سے قانون کی بھی پاسداری ہو اور عوام اور چنگ چی رکشہ والوں کی تکالیف بھی دور ہوسکیں۔