سیلاب
دنیا کے کسی نا کسی ملک میں سیلاب آتے ہی رہے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضایع ہوتی رہتی ہیں
KARACHI:
دنیا کے کسی نا کسی ملک میں سیلاب آتے ہی رہے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضایع ہوتی رہتی ہیں، مویشی مرجاتے ہیں اور کھیت کھلیان اور گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ زمین گول ہے، اس لیے پوری دنیا میں ایک سا موسم نہیں ہوتا۔ دنیا کا گولہ آدھا آدھا شمال اور جنوب میں بٹا ہوا ہے۔ اس لیے دونوں آدھوں میں موسم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔آج کل شمال میں کینیڈا میں گرمی کا چل چلاؤ ہے اور جنوب میں آسٹریلیا میں سردی کا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں سردیوں میں درخت بالکل گنجے ہو جاتے ہیں۔
ان کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ان میں کبھی پھول پتے بھی ہوتے ہونگے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو، جو آخرت (دوبارہ زندہ کیے جانے پر) یقین نہیں رکھتے، یہی مثال دی ہے کہ جب زمین سوکھ جاتی ہے، تو ہم بارش برساکر اسے زندہ کرتے ہیں، ان ملکوں میں درخت پھر سے ہرے بھرے اور خوبصورت ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے جیسے ملکوں میں سرو یا سردیوں میں درختوں سے صرف پت جھڑ ہوتی ہے۔
اسی لحاظ سے بارشوں کے موسم بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی بارشیں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ پانی ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے یا کھیتوں اور گھروں میں گھس جاتا ہے، جس سے کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور لوگ نقل مکانی کرکے در بہ در ہو جاتے ہیں اور معاشی طور پر کسمپرسی کی حالت کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایک فصل کے نقصان کا اثر 10 سال تک چلتاہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں محکمہ موسمیات پہلے سے ہی لوگوں کو خبردار کرتا رہتا ہے، تاکہ وہ حفاظتی اقدام کریں۔ ان کی پیشگوئیاں اکثر صحیح ہوتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ماہرین بھی ہوتے ہیں اور موسموں کے مطالعے کے لیے ضروری انفرا اسٹرکچر infrastructure ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ وہ انتظامات نہیں ہوتے، اس لیے ہمارے ماہرین کی اکثر پیشگوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موسموں کے تغیر اور تبدل کے مطالعہ کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے۔
ایک دوست نے از راہ تفنن بڑی مزے کی بات بتائی کہ ہندوستان، دریاؤں کے پانی کے متعلق معلومات انڈس واٹر کمیشن کو Fax کے ذریعے بھیجتا ہے، جو آگے پاکستان بھیجتا ہے اور وہ Fax ہمارے پاس پہنچتے پہنچتے اتنی بھیگ جاتی ہے کہ پڑھنے کے قابل نہیں رہتی اور اتنے میں پانی ہمارے سر سے گذر جاتا ہے۔
بڑے بڑے زمیندار تو پھر بھی کہیں نا کہیں سے گذارہ کر سکتے ہیں، لیکن چھوٹے کاشتکاروں کے نقصانات کے ازالے کے لیے کوئی بھی انتظام نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلانات تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ان کو بروقت عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا یا اگر کوئی امداد دی بھی جاتی ہے تو اس کا بڑا حصہ پٹواری کی نذر ہو جاتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 1964 میں بہت بڑی طوفانی بارشیں ہوئی تھیں، جس سے لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔
ایک پٹواری سے ملاقات ہوئی، تو امداد کے نا پہنچنے کی وجہ سے بہت پریشان نظر آرہے تھے۔ میں اس پٹواری کی عوام دوستی دیکھ کر اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن چند ساعتوں میں میرا وہ تاثر ہوا ہوگیا، جب اس نے بتایا کہ سرکاری امداد میں کچھ ان صاحبان کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ سرکار کے علاوہ آج کل بہت ساری N.G.Os کی بھی دکانیں کھل جاتی ہیں، جن میں سے کتنا حصہ حقداروں تک پہنچتا ہے، اس کی بھی داستانیں ہوتی ہیں۔ بہرحال جب امداد دیر سے یا ناکافی ہوتی ہے تو وہ لوگ سود پر قرضے لے کر اپنا گذارہ کرتے ہیں اور پھر وہ قرضہ اور سود ان کے لیے جان لیوا بن جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب بان کی مون نے پچھلے سال ایک فورم پر بتایا کہ ماحولیات میں جلدی جلدی تبدیلیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں موسموں میں جلدی جلدی تبدیلیاں آنے کا امکان غالب ہے، جن کی وجہ سے سیلاب اور بہت سارے حادثات اور تباہیاں ہونے کا قوی امکان ہے۔اس سلسلے میں دسمبر 2015 میں پیرس میں اقوام متحدہ کی طرف سے موسمیات میں تبدیلیوں کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں بھی مرکزی حکومت کے زیر سایہ موسمیات کی تبدیلیوں کا ایک محکمہ ہے، جس کا قد 2013 میں گھٹا کر ڈویژن کے برابر کردیا گیا تھا، لیکن کچھ مہینے پہلے اس کا قد بڑھا کر باقاعدہ محکمہ بنایا گیا اور مشاہد اللہ خان اس کے وزیر بنے۔ شومئی قسمت سے چند دن پہلے وہ محکمہ خان صاحب کے وزارت سے ہٹنے کے بعد یتیم ہو گیا ہے، جب کہ خان صاحب اقوام متحدہ والی کانفرنس کے سلسلے میں بہت تیاریاں کر رہے تھے۔
پتہ نہیں کب اور کون خان صاحب کی جگہ لیتا ہے اور قرعہ کس کے نام نکلتا ہے ۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ قرعہ اندازی جلد از جلد ہو، تاکہ دسمبر میں ہونے والی اقوام متحدہ والی کانفرنس میں ہماری بھرپور نمایندگی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر دنیا بھر کے ممالک کے درمیان گزشتہ 20 سالوں سے گفت وشنید ہوتی رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کو موسمیاتی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے اقدام کرنے کے لیے اب دیر ناگزیر ہے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ اس کانفرنس میں ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں پانی دریاؤں کے ذریعے ہمالیہ کے سلسلے میں جھیلوں سے آتا ہے، جو ہندستان کے علاقے میں آتی ہیں۔ویسے تو ہمیں ان سے اکثر شکایت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے حصے کا پانی ہڑپ کر جاتے ہیں ، لیکن جب وہاں پانی زیادہ ہوجاتا ہے تو وہ اس کا رخ ہماری جانب کردیتے ہیں اور ہمارے ہاں سیلاب آجاتے ہیں، جس سے ہمارے ہاں بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عام طور پر پورے ملک کے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے کھیتوں میں پہنچایا جاتا ہے اور پینے کے لیے بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سب دریاؤں کا پانی آخر میں دریائے سندھ میں ہی آکر جمع ہوتا ہے، جو اسے لے جاکر سمندر تک پہنچاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے سندھ کے ذریعے بہت سارا پانی سمندر میں ڈال کر ضایع کیا جاتا ہے۔ دراصل ان لوگوں نے سمندر دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف سنی سنائی باتوں کی وجہ سے یہ خیال رکھتے ہیں۔حقیقت یہ کہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ اگر اس میں دریا کا میٹھا پانی ناچھوڑا جائے تو ، تو کھارا پانی اوپر کو آتا ہے اور زمینوں کو ناقابل کاشت بنا دیتا ہے۔دنیا بھر میں جہاں دریاؤں کا پانی سمندر میں پڑتا ہے، اس کو Delta کہا جاتا ہے، جس کے کناروں پر دریا کا پانی بہتا ہے اور اس پانی سے Mangrove forests اگتے ہیں، جو سمندر کے پانی کو روکتے ہیں۔ اس لیے دریائے سندھ کا پانی سمندر میں چھوڑنا از حد ضروری ہے۔
جب ہمالیہ کے سلسلے میں بارشیں کم ہوتی ہیں تو ہمارے دریاؤں میں بھی پانی کم آتا ہے، جس سے خشک سالی ہوتی ہے۔ فصلیں بھی متاثر ہوتی ہیں اور پینے کے پانی کی فراہمی بھی کمی واقعہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے تھے۔ان میں بھی پانی جمع کرنے کی سکت کم ہوگئی ہے اور ہوتی جارہی ہے، کیونکہ اوپر سے آنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی بھی لاتا ہے، جو زراعت کے لیے تو بہت فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن اس کا ایک بڑا حصہ ڈیموں کے تہہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مٹی ڈیموں کے نیچے سے کھود کر نکالنا ناممکن ہے۔
اس طرح ڈیموں کی زندگی بھی 50 سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔اس لیے کوئی بڑا ڈیم جلد از جلد بنانا چاہیے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ہمارے تین صوبے کالاباغ ڈیم کے حامی نہیں ہیں۔ ویسے ہم کالاباغ کے لفظ سے پہلے اتنے آشنا نہیں تھے، جب تک نواب آف کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر نہیں بنے تھے(ان کے لیے جسٹس ایم آر کیانی نے کہا تھا کہ نواب صاحب کالا باغ کے بجائے سبز باغ دکھائیں تو اچھا ہوگا)۔ چلو مان لیا کہ ہم کالاباغ نہیں بناتے، کیا ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی نہیں بناسکتے؟ آخر وہ کشمیر کا مسئلہ تو نہیں ہے؟ ویسے میرے ایک بھانجے نے ایک جنرل اسٹور کھولا، اس پر تختی لگائی کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک ادھار بند رہے گا۔
دنیا کے کسی نا کسی ملک میں سیلاب آتے ہی رہے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضایع ہوتی رہتی ہیں، مویشی مرجاتے ہیں اور کھیت کھلیان اور گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ زمین گول ہے، اس لیے پوری دنیا میں ایک سا موسم نہیں ہوتا۔ دنیا کا گولہ آدھا آدھا شمال اور جنوب میں بٹا ہوا ہے۔ اس لیے دونوں آدھوں میں موسم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔آج کل شمال میں کینیڈا میں گرمی کا چل چلاؤ ہے اور جنوب میں آسٹریلیا میں سردی کا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں سردیوں میں درخت بالکل گنجے ہو جاتے ہیں۔
ان کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ان میں کبھی پھول پتے بھی ہوتے ہونگے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو، جو آخرت (دوبارہ زندہ کیے جانے پر) یقین نہیں رکھتے، یہی مثال دی ہے کہ جب زمین سوکھ جاتی ہے، تو ہم بارش برساکر اسے زندہ کرتے ہیں، ان ملکوں میں درخت پھر سے ہرے بھرے اور خوبصورت ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے جیسے ملکوں میں سرو یا سردیوں میں درختوں سے صرف پت جھڑ ہوتی ہے۔
اسی لحاظ سے بارشوں کے موسم بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی بارشیں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ پانی ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے یا کھیتوں اور گھروں میں گھس جاتا ہے، جس سے کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور لوگ نقل مکانی کرکے در بہ در ہو جاتے ہیں اور معاشی طور پر کسمپرسی کی حالت کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایک فصل کے نقصان کا اثر 10 سال تک چلتاہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں محکمہ موسمیات پہلے سے ہی لوگوں کو خبردار کرتا رہتا ہے، تاکہ وہ حفاظتی اقدام کریں۔ ان کی پیشگوئیاں اکثر صحیح ہوتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ماہرین بھی ہوتے ہیں اور موسموں کے مطالعے کے لیے ضروری انفرا اسٹرکچر infrastructure ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ وہ انتظامات نہیں ہوتے، اس لیے ہمارے ماہرین کی اکثر پیشگوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موسموں کے تغیر اور تبدل کے مطالعہ کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے۔
ایک دوست نے از راہ تفنن بڑی مزے کی بات بتائی کہ ہندوستان، دریاؤں کے پانی کے متعلق معلومات انڈس واٹر کمیشن کو Fax کے ذریعے بھیجتا ہے، جو آگے پاکستان بھیجتا ہے اور وہ Fax ہمارے پاس پہنچتے پہنچتے اتنی بھیگ جاتی ہے کہ پڑھنے کے قابل نہیں رہتی اور اتنے میں پانی ہمارے سر سے گذر جاتا ہے۔
بڑے بڑے زمیندار تو پھر بھی کہیں نا کہیں سے گذارہ کر سکتے ہیں، لیکن چھوٹے کاشتکاروں کے نقصانات کے ازالے کے لیے کوئی بھی انتظام نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلانات تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ان کو بروقت عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا یا اگر کوئی امداد دی بھی جاتی ہے تو اس کا بڑا حصہ پٹواری کی نذر ہو جاتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 1964 میں بہت بڑی طوفانی بارشیں ہوئی تھیں، جس سے لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔
ایک پٹواری سے ملاقات ہوئی، تو امداد کے نا پہنچنے کی وجہ سے بہت پریشان نظر آرہے تھے۔ میں اس پٹواری کی عوام دوستی دیکھ کر اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن چند ساعتوں میں میرا وہ تاثر ہوا ہوگیا، جب اس نے بتایا کہ سرکاری امداد میں کچھ ان صاحبان کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ سرکار کے علاوہ آج کل بہت ساری N.G.Os کی بھی دکانیں کھل جاتی ہیں، جن میں سے کتنا حصہ حقداروں تک پہنچتا ہے، اس کی بھی داستانیں ہوتی ہیں۔ بہرحال جب امداد دیر سے یا ناکافی ہوتی ہے تو وہ لوگ سود پر قرضے لے کر اپنا گذارہ کرتے ہیں اور پھر وہ قرضہ اور سود ان کے لیے جان لیوا بن جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب بان کی مون نے پچھلے سال ایک فورم پر بتایا کہ ماحولیات میں جلدی جلدی تبدیلیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں موسموں میں جلدی جلدی تبدیلیاں آنے کا امکان غالب ہے، جن کی وجہ سے سیلاب اور بہت سارے حادثات اور تباہیاں ہونے کا قوی امکان ہے۔اس سلسلے میں دسمبر 2015 میں پیرس میں اقوام متحدہ کی طرف سے موسمیات میں تبدیلیوں کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں بھی مرکزی حکومت کے زیر سایہ موسمیات کی تبدیلیوں کا ایک محکمہ ہے، جس کا قد 2013 میں گھٹا کر ڈویژن کے برابر کردیا گیا تھا، لیکن کچھ مہینے پہلے اس کا قد بڑھا کر باقاعدہ محکمہ بنایا گیا اور مشاہد اللہ خان اس کے وزیر بنے۔ شومئی قسمت سے چند دن پہلے وہ محکمہ خان صاحب کے وزارت سے ہٹنے کے بعد یتیم ہو گیا ہے، جب کہ خان صاحب اقوام متحدہ والی کانفرنس کے سلسلے میں بہت تیاریاں کر رہے تھے۔
پتہ نہیں کب اور کون خان صاحب کی جگہ لیتا ہے اور قرعہ کس کے نام نکلتا ہے ۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ قرعہ اندازی جلد از جلد ہو، تاکہ دسمبر میں ہونے والی اقوام متحدہ والی کانفرنس میں ہماری بھرپور نمایندگی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر دنیا بھر کے ممالک کے درمیان گزشتہ 20 سالوں سے گفت وشنید ہوتی رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کو موسمیاتی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے اقدام کرنے کے لیے اب دیر ناگزیر ہے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ اس کانفرنس میں ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں پانی دریاؤں کے ذریعے ہمالیہ کے سلسلے میں جھیلوں سے آتا ہے، جو ہندستان کے علاقے میں آتی ہیں۔ویسے تو ہمیں ان سے اکثر شکایت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے حصے کا پانی ہڑپ کر جاتے ہیں ، لیکن جب وہاں پانی زیادہ ہوجاتا ہے تو وہ اس کا رخ ہماری جانب کردیتے ہیں اور ہمارے ہاں سیلاب آجاتے ہیں، جس سے ہمارے ہاں بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عام طور پر پورے ملک کے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے کھیتوں میں پہنچایا جاتا ہے اور پینے کے لیے بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سب دریاؤں کا پانی آخر میں دریائے سندھ میں ہی آکر جمع ہوتا ہے، جو اسے لے جاکر سمندر تک پہنچاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے سندھ کے ذریعے بہت سارا پانی سمندر میں ڈال کر ضایع کیا جاتا ہے۔ دراصل ان لوگوں نے سمندر دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف سنی سنائی باتوں کی وجہ سے یہ خیال رکھتے ہیں۔حقیقت یہ کہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ اگر اس میں دریا کا میٹھا پانی ناچھوڑا جائے تو ، تو کھارا پانی اوپر کو آتا ہے اور زمینوں کو ناقابل کاشت بنا دیتا ہے۔دنیا بھر میں جہاں دریاؤں کا پانی سمندر میں پڑتا ہے، اس کو Delta کہا جاتا ہے، جس کے کناروں پر دریا کا پانی بہتا ہے اور اس پانی سے Mangrove forests اگتے ہیں، جو سمندر کے پانی کو روکتے ہیں۔ اس لیے دریائے سندھ کا پانی سمندر میں چھوڑنا از حد ضروری ہے۔
جب ہمالیہ کے سلسلے میں بارشیں کم ہوتی ہیں تو ہمارے دریاؤں میں بھی پانی کم آتا ہے، جس سے خشک سالی ہوتی ہے۔ فصلیں بھی متاثر ہوتی ہیں اور پینے کے پانی کی فراہمی بھی کمی واقعہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے تھے۔ان میں بھی پانی جمع کرنے کی سکت کم ہوگئی ہے اور ہوتی جارہی ہے، کیونکہ اوپر سے آنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی بھی لاتا ہے، جو زراعت کے لیے تو بہت فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن اس کا ایک بڑا حصہ ڈیموں کے تہہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مٹی ڈیموں کے نیچے سے کھود کر نکالنا ناممکن ہے۔
اس طرح ڈیموں کی زندگی بھی 50 سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔اس لیے کوئی بڑا ڈیم جلد از جلد بنانا چاہیے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ہمارے تین صوبے کالاباغ ڈیم کے حامی نہیں ہیں۔ ویسے ہم کالاباغ کے لفظ سے پہلے اتنے آشنا نہیں تھے، جب تک نواب آف کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر نہیں بنے تھے(ان کے لیے جسٹس ایم آر کیانی نے کہا تھا کہ نواب صاحب کالا باغ کے بجائے سبز باغ دکھائیں تو اچھا ہوگا)۔ چلو مان لیا کہ ہم کالاباغ نہیں بناتے، کیا ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی نہیں بناسکتے؟ آخر وہ کشمیر کا مسئلہ تو نہیں ہے؟ ویسے میرے ایک بھانجے نے ایک جنرل اسٹور کھولا، اس پر تختی لگائی کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک ادھار بند رہے گا۔