انگلستان میں پاکستان
اس عمل کے دوران زیادہ وزنی ہونے کے باعث وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور لڑکھڑا گئی
ISLAMABAD:
بریڈفورڈ (برطانیہ) میں پاکستان کے قونصل جنرل کی طرف سے دعوت نامہ ملا کہ یہاںپاکستانی باشندے کثیرتعداد میں رہتے ہیں، یومِ آزادی کے موقع پر آکر ان سے خطاب کریں۔چلنے سے پہلے مانچسٹر سے بھی دعوت مل چکی تھی لہٰذا 12اگست کو سفر پر روانہ ہوگیا ۔کئی ائیرلائنز کے سستے ٹکٹ مل رہے تھے مگر اپنی حُبّ الوطنی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ پی آئی اے (جیسی بھی ہے اپنی تو ہے) کے ہوتے ہوئے کسی اور پر پیسے لٹائے جائیں۔
جہاز میں سوار ہوئے تو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ چہروں پر مسکراہٹ سجائے اسمارٹ اور خوش اخلاق فضائی میزبان انتہائی شستہ زبان میں گفتگوکر رہی تھیں اور مسافروں کو ان کی نشستوں تک پہنچانے میں ان کی مدد کررہی تھیں۔ مگر یہ خوش فہمی اُس وقت دور ہوگئی جب نتھنے پھلائے ہوئے ایک پہلوان نما خاتون سامنے آکھڑی ہوئی۔اس کی جسمانی حرکتوں سے شک ہوا کہ یہ کوئی ہائی جیکرہے جو ابھی پستول لہرا کرسب کو ہینڈزاپ کرادی گی۔ مگر جب اس نے ایمرجنسی کی صورت میں آکسیجن ماسک استعمال کرنے کی ترکیب بتانا شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو ائرہوسٹس ہے۔
اس عمل کے دوران زیادہ وزنی ہونے کے باعث وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور لڑکھڑا گئی، قریبی نشست پر بیٹھی خاتون اسے سہارا نہ دیتیں تو پہلواننی چاروں شانے چت گر جاتی۔ مگر اس نے ہمّت نہ ہاری اور وہی عمل دوبارہ شروع کردیا۔ اس کا انداز اور حرکات ایسی تھیں جیسے وہ گولہ پھینکنے کے مقابلے میں حصہ لے رہی ہو، ایک ڈیڑھ منٹ کے بعد اس کا سانس پھول گیا اور وہ قمیض سے پسینہ پونچھنے لگی۔ پچھلی سیٹ پربیٹھے ہوئے کسی منچلے کی آواز آئی "ایہہ چاچی ہورا ںنوں کسے ہور کم تے لاؤایہہ کم ایناں توں اَوکھا اے" (ان چچی صاحبہ کوکوئی اور کام دینا چاہیے یہ کام ان سے مشکل ہے)۔
جہازکے اُڑتے ہی میں نے حسبِ معمول سونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا کیونکہ فوراً ہی کانوں میں رس گھولتی ہوئی آوازیں پڑنے لگیں، والدہ بیٹی سے مخاطب تھی ،"بنڈاں کی شَٹ کیتی چھوڑو فلائیاں آگچھنیاں نیں" (کھڑکیاں بند کرلیں ورنہ مکھیاں آجاتی ہیں) بیٹی والدہ سے کہہ رہی تھی "امّاں بلّو کی سائلنٹ کراؤ ایہہ سلیپاں نئیں کردا ویپاں ای ویپاں کردا اے" (امّی چھوٹے بلّو کو چپ کرائیں یہ سوتا نہیں ہے روتا ہی روتا ہے) آنکھ کھول دیکھا تو میری نشست سے پیچھے ایک کنبہ اپنی پوٹھوہاری زبان میں انگریزی کا تڑکا لگا کر آپس میں گفتگو کررہا تھا اورآس پاس بیٹھے ہوئے مسافر محظوظ ہورہے تھے ۔
1950کی دھائی میں جو لوگ پاکستان سے برطانیہ گئے تھے وہ زیادہ تر اَن پڑھ یا نیم خواندہ تھے۔ ان کی دو نسلیں وہیں پلی بڑھی ہیں۔ نئی نسل کے جو نوجوان پڑھ لکھ گئے ہیں وہ تو ولایتی انگریزی بولتے ہیں۔ مگر زیادہ تر گھرانوں میں نئی اور پرانی نسل نے ملکر ایک دلچسپ زبان ایجاد کی ہے جس میں بنڈاں، ڈوراں، سلیپاں، ویپاںواکاں، ٹاکاں، فلائیاں اور اسکائیاں کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔
میں کتاب پڑھنے میں محوتھا جب کھانے کے لیے ائرہوسٹس نے متوجہ کیا تو ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے صاحب (جو بینکرتھے)نے پہچان لیا اور عاجز کے بارے میں کلماتِ خیر کہے وہ کافی دیر تک پولیس اورامن و امان کے متعلق تبادلہء خیال کرتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک فضائی میزبان میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ" آپ۔۔۔ہیں"؟میں نے کہا ایسا ہی ہے تو کہنے لگا 'ہم شیخوپورہ میں رہتے ہیں آپ نے وہاں امن قائم کرکے لوگوں کی بڑی دعائیں لی ہیں، میری والدہ اب بھی آپ کے لیے خصوصی دعائیں کرتی ہیں 'میں نے شکریہ ادا کیا۔ crew کے ایک دو اور ممبربھی آکر ملے اور دو سال پہلے پاسپورٹ کا بحران حل کرنے پر اظہارِ تشکر کیا، پھر ان کی فرمائش پر Crew Cabin میں جاکر ان کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔کچھ دیر یہی سلسلہ چلتا رہا۔ ہیتھرو ائرپورٹ پر سامان لینے کا مرحلہ دو گھنٹوں میں طے ہوا۔
اس اذیّت ناک تاخیر کی وجہ سمجھ نہ آسکی۔ باہر نکلے تو ہمارے دیرینہ دوست منیر لون صاحب سراپا انتظار تھے۔ہماری کارائیرپورٹ سے نکلی تو دلفریب موسم دیکھ کر لطف آگیا۔ لون صاحب کے گھر (رَیڈنگ)پہنچ کر گرم پانی سے غسل کیا تو سفر کی ساری تھکاوٹ اُتر گئی۔ ہماری بھابھی اوربھتیجیاں(لون صاحب کی بیگم اور بیٹیاں)مہمان نوازی کے مشرقی جذبوں سے سرشار ہیں اورہربار ان جذبوں کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے۔دوسرے روز صبح میں اور لون صاحب شہر کے بڑے پارک میں سیر کے لیے چلے گئے۔ واکنگ ٹریک کے دونوں جانب گھنے سایہ دار درخت تھے۔
کیاریوں میں لگے پھولوں کی رنگینی، خوشگوار موسم کی رعنائی، ندی کے شفاف پانی کی دلربائی، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی نغمگی نے عجیب سحر انگیز ماحول بنا رکھا تھا۔ پون گھنٹہ کی سیر کے آخر میں نوجوانوںوالی تمام گیمیں بھی کھیلیں اور خوب لطف اٹھایا۔یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ڈیڑھ لاکھ آبادی کے شہر ریڈنگ میں پندرہ پارک ہیں۔ ہمارے ہاں بھی پارکوں اور پلے گراؤنڈزکے بغیر کوئی ہاؤسنگ کالونی بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ناشتے کے فوراً بعداے آر وائی برطانیہ کے بیوروچیف اور باخبر صحافی عامر غوری انٹرویولینے کے لیے آگئے ۔ ان سے فارغ ہوکر ہم اپنے دوستوںلون صاحب ،راجہ شہزاد، ڈاکٹر طاہراور عدیل کیانی کے ساتھ بریڈ فورڈ کے لیے روانہ ہوگئے۔
بریڈ فورڈ میں پاکستان کے متحرک قونصل جنرل خلیل احمد صاحب نے گھر پر ہی عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں انھوں نے شہر کی کچھ ممتاز شخصیات کو بھی مدعو کیا ہواتھا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ بریڈفورڈ سے اس مرتبہ دو پاکستانی برٹش پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔کئی بار شہرکے لارڈ میئر بھی پاکستانی رہے ہیں۔ شہر میں شادیوں پر ڈھول بجتے ہیں ، میلے سجتے ہیںاور کبڈی کے ٹورنامنٹ ہوتے ہیں اس لیے بریڈ فورڈ کو لوگ منی پاکستان کہتے ہیں۔ دو سال قبل بریڈفورڈکے بڑے ہال میں عید ملن پارٹی کا اجتماع تھا جس میں حسبِ معمول پاکستانی بڑی تعداد میں شریک تھے۔ مہمان مقررنے اردو میں تقریر شروع کی تو اس کی نظر اگلی قطار میں بیٹھے ہوئے چند برطانوی باشندوں پر پڑگئی۔
اس پرانھوںنے کہا کہ I think I shuld speak in English because some foreigners are also sitting here (میرا خیال ہے مجھے انگریزی میں تقریر کرنی چاہیے کیونکہ کچھ غیرملکی بھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں)۔ دیارِ غیر میں وطنِ عزیز کی جو تصویر اسکرین پر دیکھنے کو ملتی ہے وہ بُغض اور تعصّب کی گرد سے آلودہ ہوتی ہے، میں اس تصویر سے گرد صاَف کرکے اپنے ہم وطنوں کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی کہانی آئیندہ بدھ کو سناؤنگا۔
جنرل حمید گُل صاحب
برطانیہ میں ہی جنرل (ر)حمید گل صاحب کی وفات کی خبرملی۔ جنرل صاحب جذبوں اور ولولوں سے بھرپور ایسی روشن دماغ جواں فکر اور متحرک شخصیّت تھے کہ ان کے ساتھ مرحوم کا لفظ نہ جچتا ہے نہ قلم لکھنے کوتیارہے۔ اس قدر وسیع المطالعہ اور عالمی منظر نامے پراتنی گہری نظر رکھنے والا کوئی اور جرنیل نہیں دیکھا۔ اسلام اور پاکستان سے ان کی لازوال محبّت کے باعث اﷲ نے عوام کے دلوں میں ان کے لیے عزّت اور محبّت ڈال دی تھی۔
اسلام اور پاکستان کی سربلندی کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں ان کی آوازبڑی منفرد اور تواناتھی۔ ملک کے اند اور باہر پاکستان کے ظاہری اور خفیہ دشمن اس آواز کے خاموش ہوجانے پر خوش ہیں اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا وجوداس ملک کے لیے کتنا اہم اور قیمتی تھا۔ وہ قوم کو ہمیشہ پُر امیدرکھتے اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے خواب دکھاتے تھے۔ بلاشبہ اچھے خواب دکھانے والے اٹھ جائیں تو قومیں بے حس اور جمود کا شکارہوجاتی ہیں۔
ہماری فیملی کے ساتھ جنرل صاحب کے گہرے مراسم تھے ۔ ہم بھی انھیں اپنا بزرگ سمجھتے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک وہ جمہوریت کے زبردست حامی تھے، اچانک انھوں نے آئین کی معطلی کا مطالبہ کردیا،جس پر میں نے لکھا کہ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اس پران کا بڑا طویل میسج موصول ہوا اور پھر طے ہوا کہ ملاقات پر تفصیلی بحث ہوگی۔
افسوس کہ اس کا موقع نہ مل سکا۔ آئین اور جمہوریت کے متعلّق ان کے نقطہء نظر سے اختلاف کے باوجود مادرِ وطن سے ٹوٹ کر محبّت کرنے والے اور اس کے تخفّظ اور ناموس کے لیے لڑنے اور جان دینے پر تیّار رہنے والے 79سالہ جرنیل کا مقام اور مرتبہ کم نہیں کیا جاسکتا ۔ اﷲتعالٰے ان کی خطائیں معاف فرماکر انھیں جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین
نوٹ:الیکشن کمیشن کے صوبائی سربراہان کے استعفوں کا مطالبہ ان پارٹیوں نے بھی کردیا ہے جن کی ضمانت ضبط ہونا یقینی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق ان حضرات کی اوسط عمر 75سال ہے اور دفتر آکر سونے کے علاوہ ان کا دوسرا کام مزید سونا ہے،یہ اہم ذمے داری وہ گھر پر بھی نبھا سکتے ہیں۔ غریب ملک نے ان کی پچھّتر سال خدمت کی ہے اب اُن سے دست بستہ التجا ہے کہ استعفٰی دے دیں تاکہ ان کے استعفوںکی آڑ میں کوئی بھاگ نہ سکے اور ضمانتوں کی ضبطی کی صورت میں چار پیسے قومی خزانے میں آسکیں۔