سندھ کارڈ کتنا مفید اور کارگر نسخہ
راز ہائے درونِ پردہ کے ایسے ایسے انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ آنکھیں حیران رہ جائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی پر جب کبھی اُس کے کرتا دھرتاؤں کے افعال کی وجہ سے کوئی ادارہ اُن کے خلاف کوئی کارروائی کرنے لگتا ہے تو ملاحیاں سنا سنا کر اپنی مظلومیت اور معصومیت کا راگ الاپنے لگتے ہیں اور جب کوئی حربہ کارآمد نہیں رہتا تو وہ بالآخر سندھ کارڈ استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ حالیہ دنوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ سابقہ دور میں کارکردگی کے لحاظ سے اگر کوئی کارنامہ ظہور پذیر ہوا تھا تو وہ ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے اور کرپشن کی دنیا میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا ہی کارنامہ تھا۔
یہ درست ہے کہ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے لیکن اُس دور میں اسکینڈلوں، گھپلوں اور مالی بدعنوانیوں کے انگنت واقعات ہمیں ابھی بھی یاد ہیں۔ مشہور معروف حج کرپشن کیس، ای او بی آئی، او جی ڈی سی ایل، این آئی سی ایل، رینٹل پاور منصوبہ، اسٹیل مل اور پی آئی اے سمیت لاتعداد واقعات کے انکشافات نے پاکستان پیپلز پارٹی کو 2013ء کے عام انتخابات میں شکست سے دوچار کیا۔ وفاق میں اپنی حکومت کی وجہ سے وہ اُس وقت تو کسی بڑے احتساب سے بچ گئی لیکن اب جیسے جیسے آپریشن کلین اپ آگے بڑھ رہا ہے۔
راز ہائے درونِ پردہ کے ایسے ایسے انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ آنکھیں حیران رہ جائیں۔ جس محکمے کو لے لیں یا جس ادارے کی بھی تحقیق کر لیں، فائلیں گھپلوں اور کرپشن کے کارناموں سے بھر پڑی ہیں۔ مگر جب اُس کا سدِباب کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے لیے قانون حرکت میں آنے لگا اور حلقہ احتساب مزید تنگ ہونے لگا تو ساری قیادت تلملا اُٹھتی ہے اور اپنی خجالت اور آزردگی کو حکومت ِوقت کے خلاف غصے میں بدل ڈالا۔
حالیہ دنوں میں سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن کے سربراہ اور سابق صدر مملکت کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو کچھ ایسی ہی وارداتوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا نہایت سخت اور تلخ بیان سامنے آیا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور خود کو اتنا بے بس و بے اختیار نہ کرے۔ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو حکومت کے ساتھ کھلی جنگ ہو گی۔
پیپلز پارٹی کو اب یہ شکایت ہے کہ رینجرز کے ادارے نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔ حکومت کے اداروں اور محکموں پر چھاپے مارنا اُس کے صوابدیدی فرائض میں شامل نہیں ہے، لیکن لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب قومی دولت اور عوام کو لوٹے جانے کا سدّباب کرنے والا نہ کوئی ہو تو پھر یہ کام کون کرے گا۔ کیا کسی منتخب حکومت کا یہ جمہوری مینڈیٹ ہے کہ وہ خود بھی کرپشن کرے اور دوسرے کو بھی نہ روکے بلکہ اُنہیں مکمل تحفظ فراہم کرے۔
پیپلز پارٹی والے ہماری ایجنسیوں کے ساتھ تو مقابلہ نہیں کر سکتے لہذا اُن کی پاس یہی ایک ترپ کا پتہ رہ گیا ہے کہ سندھ کی محرومیت اور مظلومیت کا رونا رو کر اور سارے معاملے کو صوبائی تعصب کا رنگ دے کر اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو کسی نہ کسی طرح روکنے کی کوششیں کرے۔ میاں صاحب کو اپنے پرانے احسانات یاد دلا کر دبے لفظوں میں باز رہنے کی تلقین و تنبیہ کرے۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گزشتہ برس ضربِ عضب شروع کیے جانے کے بعد جب کراچی آپریشن شروع کیا گیا تو یہ احساس جنم لینے لگا تھا کہ اِس آپریشن کا دائرہ صرف کراچی میں امن و مان قائم کرنے تک محدود نہیں رہے گا۔ ملک و قوم کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ اِس مقصد کے لیے سب سے پہلے کرپشن کے بڑے بڑے بت مسمار کرنے کا ارادہ کیا گیا۔
اتفاق سے اِن بڑے بڑے بتوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے جا نکلا اور یوں قاسم ضیاء، سابق وزیرِ اعظم جناب یوسف رضا گیلانی سمیت صوبہ سندھ کے بہت سے وزیروں، مشیروں اور افسروں کے نام سامنے آنے لگے جنہوں نے اختیارات کا بے دریغ استعمال کر کے ریاستی وسائل اور عوامی خزانے کو لوٹ کر کھا جانے جیسے اطوار کو اپنا مطمع ِنظر اور حرزِ جاں بنا لیا۔ عام انتخابات کو عوامی احتساب کا نام دیکر کر سزا و جزا سے بچ جانے والوں کے لیے حالیہ آپریشن انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ وہ توقع بھی نہ کر رہے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف کیا جانے والا ضربِ عضب آپریشن رفتہ رفتہ اُن کے گرد بھی اپنی گرفت سخت کرتا جائے گا۔
وہ سراسیمگی اور بد حواسی کے عالم میں علاقائی اور لسانی تفریق کو ہوا دینے لگے۔ انسانوں میں تفرقے پیدا کرنے والے شاید اِس سچائی سے نا آشنا ہیں کہ تعصب کے سیلاب کے فضاؤں سے بلند ریلے بینائی سے محروم ہوا کرتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں اگر عسکریت پسند دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر مالی اور معاشی دہشت گردوں کے خلاف کیوں نہیں۔ ہماری نظر میں دونوں ہی ملک دشمن ہیں۔ بس طریقہ واردات مختلف ہے۔
ایک فریق بم دھماکے اور خود کش حملے کر کے ملک و قوم کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے تو دوسرا فریق قومی خزانے کو بے رحمی سے تاراج کر کے ملک و قوم کو غیر ملکی احتیاج اور غلامی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہوتا ہے۔ دونوں کا مقصد اِس ملک اور قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دینا ہوتا ہے۔ آج اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ خود اپنے ادارے میں بھی کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا احتساب کر رہی ہے تو پھر سول ادارے اور محکمے کیسے بچ سکتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کو یہ جان لینا چاہیے کہ وزیرِ اعظم اُن کی اِن دھمکیوں پر اِس جاری آپریشن کو اب روک بھی نہیں سکتے۔ وہ خواہ خود کو بے بس اور لاچار تصور کریں یا انتہائی مضبوط اور طاقتور لیکن یہ آپریشن اب رکنے والا نہیں۔ جو بھی اِس کی راہ میں حائل ہو گا خود اپنی ہی تباہی کا سامان پیدا کریگا۔ جذباتی تقریروں سے اپنے زخموں کی مرہم کاری تو ہو سکتی ہے مگر مرض کے علاج کی غرض سے کیا جانے والا آپریشن نہیں رک سکتا۔ رہ گیا سوال کہ یہ آپریشن صرف ایک صوبہ سندھ ہی تک کیوں محدود ہے تو یہ بھی حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی سے نمٹنا تھا، لہذا وہ سب سے پہلے کیا گیا۔ اِس کے بعد کراچی میں امن قائم کرنا اِس ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے نہایت ضروری تھا سو وہ بھی شروع کر دیا گیا اور پھر قوم کی گردن میں غلامی کا پٹہ ڈالے رکھنے والے کرپٹ عناصر سے دو دو ہاتھ کرنے کا تھا لہذا وہ بھی بالکل درست انداز میں کیا جا رہا ہے۔ پہلے پہل بڑی بڑی مچھلیوں کو جال میں اُتارا جا رہا ہے اور کرپشن کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اِس کے بعد یقینا چھوٹی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اِن چھوٹی بڑی مچھلیوں کا تعلق خواہ کسی بھی صوبے اور علاقے سے ہو ، بلاتفریق و امتیاز سب کو قانون اور احتساب کی چھلنی سے گزارا جائے گا۔ پاکستان رینجرز نے ابھی تک جو بھی کارروائی کی ہے وہ سب کی سب مکمل تحقیق اور تفتیش کے بعد ہی کی ہے۔ جس پر بھی ہاتھ ڈالا ہے نہایت ذمے داری اور احتیاط کے ساتھ ڈالا ہے۔ یہ آپریشن بالکل غیر جانبدارانہ شفاف طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔
آنے والے دنوں میں ہم اِس کا دائرہ سارے ملک میں پھیلتا دیکھیں گے اور ساری کرپٹ اور بدعنوان مافیا کے گرد گھومتا دیکھیں گے۔ اَس سارے معاملے کو صوبائی عصبیت اور لسانی تعصب کا رنگ دے کر یا علیحدگی پسند رجحانات کی تخم ریزی کر کے ہم قومی یکجہتی اور یگانگت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اپنے انھی تباہ کن رویوں کے نتائج کا شعور اور ادراک نہ کر کے اور احساسِ زیاں سے بے نیاز ہو کر ہم نہ صرف ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار بن رہے ہوتے ہیں بلکہ خود اپنی موت کا بھی سامان کر رہے ہوتے ہیں۔