ایم کیو ایم کے تحفظات
ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے گئے
1990ء کے اواخر میں نواز شریف کی حکومت بنی تو Good Governance کے نام پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے ملک بھر میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جو کہ دراصل دہشت گردوں، پتھاریداروں، بینک ڈکیتوں، لینڈ گریبرز اور منشیات فروشوں کے خلاف تھا، لیکن حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود اُس آپریشن کا رُخ ایم کیو ایم کی طرف موڑ دیا گیا جس میں حکومتی مشینری کا بلا دریغ استعمال کیا گیا اور ایم کیو ایم کو ایک منظم سازش کے تحت 2 دھڑوں میں تقسیم کرنے کا عمل حکومتی سرپرستی میں شروع کیا گیا۔
ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے گئے یہاں تک کے ایم کیو ایم کے دفاتر پر مخالفین کے قبضے تک کرا دیے گئے اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان و ہمدردوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔
مہاجروں کی بستیوں پر شب خون مارا گیا اور تمام جمع پونجی لوٹ لی گئی غرض شہر کراچی کو مقتل بنا دیا گیا تھا، لیکن ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی اور میاں نواز شریف حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ 1997ء میں جب دوبارہ میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انھوں نے ایم کیو ایم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پچھلی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔
2013ء میں ایک بار پھر میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو ایک بار پھر ماضی کی کہانی دہرائی جا رہی ہے اور ایک بار پھر دہشت گردی کی آڑ میں ایم کیو ایم کے خلاف بھر پور ریاستی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے مرکز 90 پر اب تک 2 مرتبہ چھاپا مارا جا چکا ہے اور بے گناہ کارکنان پر جھوٹے مقدمات قائم کر کے پابند سلاسل کیا جا ر ہا ہے اس کے علاوہ سیکڑوں کارکنان کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ایم کیو ایم نے متعدد بار حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن حکومت نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے تحفظات پر کان نہیں دھرے اور ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ ایک بار پھر زور و شور سے جاری ہے۔ ایم کیو ایم پر سیاسی، سماجی و اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
اگر ہم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت کا جائزہ لیں جب ایم کیو ایم حکومتی اتحاد کا حصہ تھی تو اس دوران کراچی کا امن و امان اور ترقی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی ساری دنیا معترف ہے۔ لہٰذا کراچی سمیت پورے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ عمل میں لانا چاہیے صرف کراچی کی رٹ لگانے سے یہ آپریشن متنازع شکل اختیار کر تا جا رہا ہے کہ یہ آپریشن ایم کیو ایم کو مٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
شہر کراچی کے عوام کو بھی حکومت نے ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہوا ہے اور ان کا بھی ہر سطح پر استحصال کیا جا رہا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، شناختی کارڈ میں رکاوٹ غرض ہر سطح پر پورے ملک کو 72% ریونیو ادا کرنے والے شہر کراچی کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے یہاں تک کے صفائی کا نظام بھی انتہائی ناقص ہے یہ سب صرف ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کی پاداش میں کراچی شہر کے عوام کو اذیت سے دوچار کیا جا رہا ہے کیا یہی جمہوریت ہے؟ آج جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کراچی کی رونقیں بحال کر دی گئی ہیں کراچی امن کا گہوارہ بن گیا ہے!
لہٰذا ایم کیو ایم کے تحفظات کو حل کرنے کے لیے نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے تا کہ انتظامی سطح پر کراچی کے مسائل فوری طور پر حل ہو سکیں اور بلدیاتی نظام کا قیام عمل میں لا کر شہری نمایندوں کو انتظامی اُمور چلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں کیونکہ پاکستان بھر میں نئے صوبوں کے حوالے سے بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے۔ صوبہ ہزارہ ہو، سرائیکی صوبہ ہو، بہاول پور جنوبی پنجاب صوبہ ہو یا سندھ میں نئے صوبوں کا مسئلہ زیر بحث ہو، یہ سب پاکستان کے آئین کا حصہ ہیں جو لوگ اس کے حامی نہیں ہیں وہ عناصر برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے آ لہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ایسے عناصر کو چاہیے کہ پہلے پاکستان کے آئین کو ختم کردیں ورنہ جو حضرات صوبے کے حوالے سے تحریک چلا رہے ہیں ان کے مؤقف کو دلائل کی روشنی میں سنیں اور ان کے مسائل کے مستقل حل کے لیے اقدامات کریں تا کہ عوا م میں جو احساس محرومی جنم لے رہا ہے اس کے سدباب کے لیے اقدامات کریں ورنہ ایسے مفاد پرست عناصر کو کوئی حق نہیں کہ وہ نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت کریں جب تک انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا اُس وقت تک نہ امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر انتظامی معاملات چلانے کے لیے شہری یا دیہی سطح پر وہاں کے مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے لیکن 68 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جا سکا بلکہ تعصب و لسانیت کی بنیاد پر شہر کراچی پر قبضہ کر نے کے لیے انتظامی معاملات چلانے کے لیے غیر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جاری ہے، جس کا خمیازہ مشرقی پاکستان کو کھو کر ہم بھگت چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرمی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
جمہوریت کا راگ الاپنے والے نام نہاد عناصر کو میدان عمل میں آ کر مضبوط و مستحکم پاکستان کے لیے نئے صوبوں کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اگر نئے صوبوں کی مخالفت کی گئی تو یہ بات آئینے کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ وہ پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے اگر ایسا عمل کیا گیا تو عوام ایسے عناصر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیں گے۔ ملک میں دیگر صوبوں سمیت سندھ میں نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ پنجاب کے بعد پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے۔قرارداد پاکستان 1940ء میں نئے صوبوں کے قیام کا ذکر موجود ہے جو آئین و قانون کے عین مطابق ہے اس کی نفی کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ عوام کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام عمل میں لا کر ملک کو مزید مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے اور عوام میں بڑھتا ہوا احساس محرومی ختم کیا جا سکتا ہے جو کہ خوشحال پاکستان کا ضامن ہے ۔