جیب تراشی اور بیچارہ پاکستان
پشاور کے ناظم ارباب عاصم خان نے ابھی حلف اٹھایا ہی تھا کہ کسی ستم ظریف نے ان کی جیب کاٹ لی
پشاور کے ناظم ارباب عاصم خان نے ابھی حلف اٹھایا ہی تھا کہ کسی ستم ظریف نے ان کی جیب کاٹ لی۔ ابھی ہم دل ہی دل میں ارباب صاحب کے ساتھ اظہار ہمدردی ہی کر رہے تھے کہ اچانک اخبار میں چھپی ان کی تصویر پر نظر پڑی۔ ہم جیب تراش کی ہمت کو سراہے بغیر نہ رہ سکے کہ کیسا بے خوف بلکہ بد حواس جیب کترا ہو گا کہ جس نے ارباب صاحب کی جیب بھی کاٹ لی۔ ارباب صاحب کی ہیئت کزائی کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر جیب تراش موقع پر پکڑا جاتا تو موصوف اس پر بندوق نہیں بلکہ راکٹ لانچر تان لیتے۔
ویسے سیاستدانوں کے ساتھ اس طرح کی حرکتیں اکثر ہوتی ہی رہتی ہیں۔ سنہ 2012 میں اپنے شیخ رشید صاحب مد ظلہ کی جیب گجرانوالہ میں کاٹ لی گئی جس میں مبینہ طور پر مبلغ 12ہزار روپے تھے۔ شیخ صاحب ویسے تو اچھے خاصے امیر آدمی بتائے جاتے ہیں مگر نجانے کیوں ہمیں وہ ہمیشہ غریب ہی لگے ہیں۔ چنانچہ ہمارا گمان یہی ہے کہ اگر کم بخت جیب کترا 12ہزار کا وہ زرکثیر یوں باآسانی نہ لے اڑتا تو آج شیخ صاحب کی سیاسی جماعت اس قدر برے حالوں میں نہ ہوتی۔
ہمارے ایک عزیز قاضی ضرغام الحق دیپالپور کی سرکردہ سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کو تو جیب کٹوانے کی باقاعدہ لت پڑی ہوئی ہے ۔ ہر شادی بیاہ کی تقریب میں آپ کی جیب کم از کم ایک یادو مرتبہ ضرور کٹی ہے۔ اب تو خاندان والے شادی کا ایلبم دیکھتے ہوئے تصاویر کے اوقات کا تعین کچھ اس طرح بھی کرتے ہیں کہ فلاں تصویر بارات کی آمد سے پہلے کی ہے۔ فلاں نکاح کے وقت کی ہے اور فلاں تصویر قاضی صاحب کی جیب کٹنے کے فوراً بعد کی ہے۔ قاضی صاحب نے زندگی میں بہت ترقی کی اور کافی خوشحال واقع ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس خوشحالی میں ضلع اوکاڑہ کے جیب تراشوں کی دعاؤں کا بڑا عمل دخل ہے!
نجانے ارباب عاصم خان کی ترقی میں پشاور کے جیب کتروں کا ہاتھ کس حد تک ہے۔ تاہم ان کے گمنام سے سیاسی سفر کا تاحال سب سے اہم سنگ میل یہی ہے کہ حلف اٹھاتے ہی موصوف نے جیب کٹوائی اور پھر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیا۔ بعض اچھے برے واقعات تقریبات حلف برداری کو بھی یاد گار بنا دیتے ہیں۔
مثلاً باراک اوبامہ سنہ 2009 میں حلف اٹھاتے وقت حلف کی عبارت غلط پڑھ گئے جس کے سبب اگلے روز ان سے دوبارہ حلف اٹھوانا پڑا۔ بیچارے اوباما صاحب کے ساتھ اس قماش کی حرکت اکثر ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ موصوف اپنی اہلیہ کو آج تک فقط دو مرتبہ کھانا کھلانے کسی ہوٹل میں لے جا چکے ہیں۔ ایک مرتبہ 2006 میں اور ایک بار 2014 میں۔ دونوں مرتبہ ہوٹل انتظامیہ نے صدرکا کریڈٹ کارڈ قبول کرنے سے معذرت کر لی اور وجہ کارڈ سے متعلق واجبات کی عدم ادائیگی بتائی گئی۔ دونوں مرتبہ قسمت کی ماری مشعل اوباما کو ہی بل ادا کرنا پڑا۔ اب تو صدرمحترم اکثر بیوی کو دھمکی بھی دیا کرتے ہیں کہ اپنا رویہ ٹھیک کرو ورنہ پھر سے کھانے پر لے چلوں گا، ہیں جی؟
تقریبات حلف برداری میں جیبیں کٹنے، بھگدڑ مچنے اور دنگا فساد ہونے کے حوالے سے بھارت بھی کافی شہرت کا حامل ہے۔ مودی حکومت کی حلف برداری کے دوران ویسے تو باقاعدہ بھونچال آنا چاہیے تھا مگر تقریب میں بس اِکا دُکا، چھوٹے موٹے واقعات ہی رونما ہوئے۔ البتہ حلف اٹھانے کے ٹھیک 5دن بعد ایک وزیر گوپی ناتھ ٹریفک حادثہ میں انتقال کر گیا۔
لیجیے کرکٹر وہاب ریاض بھی اچانک یاد آگئے۔ آپکی جیب تو نہیں کٹی البتہ شادی والے دن آپ کے خلاف ایف آئی آر ضرور کٹ گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ فاسٹ باولر نے اپنی شادی کے فنکشن میں ون ڈش کی خلاف ورزی کی جس کے سبب پولیس آن دھمکی اور بیچارے قومی ہیرو کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
مقام افسوس ہے کہ آج کا کالم جیب تراشی کی نذر ہو کر رہ گیا ہے اور ہم چاہتے ہوئے بھی آج زرداری نواز جھگڑے پر بات نہیں کر سکے۔ ویسے سچ پوچھیں تو جیب کٹوانے کے معاملے میں بیچارہ پاکستان دنیا بھر کے مظلومین میں پہلے نمبر پر ہے۔ ہر دوسرا سیاستدان، افسر اور دکاندار کسی نہ کسی صورت اس کی جیب کاٹتا ہے اور پھر سرعام دندناتا پھرتا ہے۔ اب پہلی بار اگر چند جیب تراشوں اور ان کے گماشتوں کو پکڑا جانے لگا ہے تو سب بیک زبان شور مچانے لگے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ 40سال پیچھے سے شروع کیا جا رہا ہے جس کی لپیٹ میں وہ جیب تراش بھی آئیں گے جو پچھلے چند مہینوں سے نیکی اور پاکبازی کا درس دیتے نظر آتے ہیں!
ویسے سیاستدانوں کے ساتھ اس طرح کی حرکتیں اکثر ہوتی ہی رہتی ہیں۔ سنہ 2012 میں اپنے شیخ رشید صاحب مد ظلہ کی جیب گجرانوالہ میں کاٹ لی گئی جس میں مبینہ طور پر مبلغ 12ہزار روپے تھے۔ شیخ صاحب ویسے تو اچھے خاصے امیر آدمی بتائے جاتے ہیں مگر نجانے کیوں ہمیں وہ ہمیشہ غریب ہی لگے ہیں۔ چنانچہ ہمارا گمان یہی ہے کہ اگر کم بخت جیب کترا 12ہزار کا وہ زرکثیر یوں باآسانی نہ لے اڑتا تو آج شیخ صاحب کی سیاسی جماعت اس قدر برے حالوں میں نہ ہوتی۔
ہمارے ایک عزیز قاضی ضرغام الحق دیپالپور کی سرکردہ سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کو تو جیب کٹوانے کی باقاعدہ لت پڑی ہوئی ہے ۔ ہر شادی بیاہ کی تقریب میں آپ کی جیب کم از کم ایک یادو مرتبہ ضرور کٹی ہے۔ اب تو خاندان والے شادی کا ایلبم دیکھتے ہوئے تصاویر کے اوقات کا تعین کچھ اس طرح بھی کرتے ہیں کہ فلاں تصویر بارات کی آمد سے پہلے کی ہے۔ فلاں نکاح کے وقت کی ہے اور فلاں تصویر قاضی صاحب کی جیب کٹنے کے فوراً بعد کی ہے۔ قاضی صاحب نے زندگی میں بہت ترقی کی اور کافی خوشحال واقع ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس خوشحالی میں ضلع اوکاڑہ کے جیب تراشوں کی دعاؤں کا بڑا عمل دخل ہے!
نجانے ارباب عاصم خان کی ترقی میں پشاور کے جیب کتروں کا ہاتھ کس حد تک ہے۔ تاہم ان کے گمنام سے سیاسی سفر کا تاحال سب سے اہم سنگ میل یہی ہے کہ حلف اٹھاتے ہی موصوف نے جیب کٹوائی اور پھر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیا۔ بعض اچھے برے واقعات تقریبات حلف برداری کو بھی یاد گار بنا دیتے ہیں۔
مثلاً باراک اوبامہ سنہ 2009 میں حلف اٹھاتے وقت حلف کی عبارت غلط پڑھ گئے جس کے سبب اگلے روز ان سے دوبارہ حلف اٹھوانا پڑا۔ بیچارے اوباما صاحب کے ساتھ اس قماش کی حرکت اکثر ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ موصوف اپنی اہلیہ کو آج تک فقط دو مرتبہ کھانا کھلانے کسی ہوٹل میں لے جا چکے ہیں۔ ایک مرتبہ 2006 میں اور ایک بار 2014 میں۔ دونوں مرتبہ ہوٹل انتظامیہ نے صدرکا کریڈٹ کارڈ قبول کرنے سے معذرت کر لی اور وجہ کارڈ سے متعلق واجبات کی عدم ادائیگی بتائی گئی۔ دونوں مرتبہ قسمت کی ماری مشعل اوباما کو ہی بل ادا کرنا پڑا۔ اب تو صدرمحترم اکثر بیوی کو دھمکی بھی دیا کرتے ہیں کہ اپنا رویہ ٹھیک کرو ورنہ پھر سے کھانے پر لے چلوں گا، ہیں جی؟
تقریبات حلف برداری میں جیبیں کٹنے، بھگدڑ مچنے اور دنگا فساد ہونے کے حوالے سے بھارت بھی کافی شہرت کا حامل ہے۔ مودی حکومت کی حلف برداری کے دوران ویسے تو باقاعدہ بھونچال آنا چاہیے تھا مگر تقریب میں بس اِکا دُکا، چھوٹے موٹے واقعات ہی رونما ہوئے۔ البتہ حلف اٹھانے کے ٹھیک 5دن بعد ایک وزیر گوپی ناتھ ٹریفک حادثہ میں انتقال کر گیا۔
لیجیے کرکٹر وہاب ریاض بھی اچانک یاد آگئے۔ آپکی جیب تو نہیں کٹی البتہ شادی والے دن آپ کے خلاف ایف آئی آر ضرور کٹ گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ فاسٹ باولر نے اپنی شادی کے فنکشن میں ون ڈش کی خلاف ورزی کی جس کے سبب پولیس آن دھمکی اور بیچارے قومی ہیرو کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
مقام افسوس ہے کہ آج کا کالم جیب تراشی کی نذر ہو کر رہ گیا ہے اور ہم چاہتے ہوئے بھی آج زرداری نواز جھگڑے پر بات نہیں کر سکے۔ ویسے سچ پوچھیں تو جیب کٹوانے کے معاملے میں بیچارہ پاکستان دنیا بھر کے مظلومین میں پہلے نمبر پر ہے۔ ہر دوسرا سیاستدان، افسر اور دکاندار کسی نہ کسی صورت اس کی جیب کاٹتا ہے اور پھر سرعام دندناتا پھرتا ہے۔ اب پہلی بار اگر چند جیب تراشوں اور ان کے گماشتوں کو پکڑا جانے لگا ہے تو سب بیک زبان شور مچانے لگے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ 40سال پیچھے سے شروع کیا جا رہا ہے جس کی لپیٹ میں وہ جیب تراش بھی آئیں گے جو پچھلے چند مہینوں سے نیکی اور پاکبازی کا درس دیتے نظر آتے ہیں!