فرسٹ جنٹلمین

سیاسی نظام کو چلانے کے لیے فرسٹ جنٹلمین کی بات سننا اور کان لگا کر سننا حکومتِ وقت کے لئے نا گزیر ہے۔


جاہد احمد September 05, 2015
آصف علی زرداری صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں دو مرتبہ ’’فرسٹ جنٹلمین‘‘ کے اعزاز سے روبہ مشرف ہوئے۔ فوٹو :فائل

پاکستانی تاریخ کے پہلے اور واحد ''فرسٹ جنٹلمین'' ہونے کا اعزاز پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو حاصل ہے۔ فرسٹ جنٹلمین ''فرسٹ لیڈی'' کا متضاد ہے۔ فرسٹ لیڈی یا فرسٹ جنٹلمین کا غیر سرکاری خطاب پاکستان کے مقتدر وزیراعظم اور صدر کی بیگمات یا خاوند حضرات کو دیا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست اور اقتدارِعُظمیٰ کی تاریخ میں محترمہ بے نظیر بھٹو واحد خاتون شخصیت ہیں جو ایوانِ اقتدار تک رسائی حاصل کر پائیں اور وزارتِ عظمی کی کرسی پر براجمان ہوئیں۔ یوں آصف علی زرداری صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں دو مرتبہ ''فرسٹ جنٹلمین'' کے اعزاز سے روبہ مشرف ہوئے اور یہ اعزاز فی الوقت کسی دوسرے مرد کے ہاتھ نہیں لگا اور کم از کم وزارتِ عُظمیٰ کے معاملے پر مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی و سجھائی بھی نہیں پڑتا۔

اگر دیکھا جائے تو آصف علی زرداری پاکستان کے پہلے منتخب جمہوری صدر بھی ہیں جنہیں آئینی مدتِ صدارت مکمل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آصف علی زرداری صاحب کو بی بی کے دستخط کردہ میثاقِ جمہوریت کے عملی نفاذ کا بیڑا بھی اٹھانا پڑا جو یقیناً فوجی آمر کے دور میں محترمہ کی وفات اور انتخابات میں کامیابی کے بعد انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ میثاقِ جمہوریت دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین 1973 کے آئین کی بحالی، صدرِ پاکستان کو حاصل وسیع اختیارات کی پارلیمان کو ترسیل، اعلی عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار، صوبائی خودمختاری، این ایف سی ایوارڈ، بھارت اور افغانستان سے پُرامن تعلقات کے قیام، مسئلہِ کشمیر کے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل، دونوں سیاسی جماعتوں کے لئے غیر جمہوری رویوں سے اجتناب اور جمہوری قوتوں کے خلاف نبرد آزما غیر جمہوری قوتوں سے مکمل کنارہ کشی، مخالف سیاسی جماعت کو ملے عوامی مینڈیٹ کی قبولیت، جمہوریت کا فروغ، گڈ گورننس، ایک شخص کے لئے تیسری بار وزارتِ عُظمی کا عہدہ سنبھالنے پر پابندی کا خاتمہ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے مقابلے، آزاد و خودمختار الیکشن کمیشن کا قیام، پریس اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور دیگر ضروری معاملات پر پالیسی بیانیہ یا واضح طرزِ عمل وضع کرتا دستاویز ہے۔

سیاسی جماعتوں نے بیساکھیوں پر کھڑی لنگڑی لولی جمہوریت کی انگلی تھامے اپنی سکت اور اوقات سے بڑھ کر 2008 سے ابتک اسی میثاقِ جمہوریت پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے۔ کئی اہم معاملات میں کامیابی نصیب ہوئی، کئی میں جزوی طور پر کامیاب ہوئے، کئی میں ناکامی ہاتھ لگی اور کئی ایسے معاملات تھے کہ جن پر ہاتھ ڈالنے سے شدید جھٹکے بھی لگے ہیں۔ کُلی طور پر میثاقِ جمہوریت اور اس کے عملی نفاذ کی کوششوں نے پاکستانی سیاسی نظام میں نئی روح پھونکی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی باراقتدار ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو منتقل ہوا ہے۔ ابھی چند دن پہلے اسی میثاقِ جمہوریت نے اسلام آباد میں جمہوری قوتوں کو منظم و متحد کرکے غیر جموری قوتوں کا راستہ روکا تھا۔

کسی بھی اہم نوعیت کے معاملے پر فرسٹ جنٹلمین کی بات سننا اور کان لگا کر سننا حکومتِ وقت کے لئے نا گزیر ہے کیونکہ میثاقِ جمہوریت کو فعال رکھنے کی کنجی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہی دستاویز جو کل ہی جمہوری نظام کے تسلسل اور بقاء کا موجب بنا تھا تو یہی میثاقِ جمہوریت یہ بھی طے کرتا ہے کہ معاون وفاق اپنی اکائیوں سے کسی صورت امتیاز نہیں برتے گا۔ اب اس اصول کا اطلاق موجودہ صورتحال میں سندھ میں جاری کرپشن احتساب مہم پر لاگو کیا جائے تو ایک صوبہ کی ایک خاص جماعت کے خلاف تمام تر توانائیوں کا خرچ ہونا ابہام پیدا کرتا ہے۔ میثاقِ جمہوریت کرپشن کے خلاف اقدامات کی ممانعت نہیں کرتا لیکن طریقہ کاراتنا شفاف اور متوازن ہونا چاہیے کہ کسی بھی فریق کو اعتراض اٹھانے کا موقع نہ مل سکے جس کی مکمل ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

پی پی پی اور پی ایم ایل ن 90 کی دہائی کی وہ سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے ایک نہیں دو دو مرتبہ وفاق میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد کھویا ہے۔ خصوصاً پی پی پی کے اقتدار کے خاتمے اور اس جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے میں اسٹیبلشمنٹ کا جو کردار رہا اس بارے مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اصغر خان کیس اور سابق صدر غلام اسحاق خان کے دائر کردہ ریفرنس کے حوالے ہی کافی ہیں۔ ایسا تاریخی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعت کا بظاہر ایسی مخصوص ٹارگٹڈ مہم پر تحفظات کا اظہار کیا جانا سمجھ سے اتنا بالاتر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت ہے تو صرف توازن اور شفافیت کی!

حکومتِ وقت کا کسی خوش فہمی یا زعم میں رہنا بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاسی نظام کا تسلسل انہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تعاون اور بردباری سے بڑی حد تک مشروط ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سیاسی اکھاڑے کی دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف جیسی جماعت بھی موجود ہے جو نظام کے تسلسل اور ارتقاء سے زیادہ انقلابی ایجنڈے اور یک مشت تبدیلی پر یقین رکھتی ہے جو اس مقصد کے حصول کے لئے امپائر کی انگلی تھامنے سے کسی بھی موقع پر پیچھے نہیں رہے گی۔ چئیرمین تحریکِ انصاف ایک نئے سیاسی بحران کو پیدا کرنے کے لئے پر تولے تیار بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے متحرک سیاسی ماحول میں جہاں سیاسی و غیر سیاسی، جمہوری وغیر جمہوری اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی قوت، وسائل اور نظریہ رکھتے ہوں وہاں حکومت کے لئے میثاقِ جمہوریت اور فرسٹ جنٹلمین کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

[poll id="643"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں