دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں
’’بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے۔ شہزادہ اعظم جاہ اور شہزادی در شہوار کی شادی علی برادران کے توسط سے ہوئی تھی
قرۃ العین حیدر کی پکچر گیلری میں یوں تو کئی نادر تصاویر ہیں ، لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ ''دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں'' کا تعارف قارئین سے کروایا جائے۔حیدرآباد دکن شہر اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ نے اپنی چہیتی بیگم بھاگ متی کے نام پر بسایا تھا۔ جسے بعد میں ''حیدر محل'' کا خطاب دیا گیا اور حیدر آباد شہر 1591 میں بسایا گیا۔
کہتے ہیں کہ پہلے یہ شہر بھاگ نگرکہلاتا تھا۔ حیدرآباد دکن کے ''چار مینار'' اس شہر کی پہچان ہیں پوری دنیا کی بارہ بہترین چورنگیوں میں کراچی کے معروف علاقے بہادر آباد کی چارمینار چورنگی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو اپنی نفاست اور خوبصورتی کی بنا پر ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔
قرۃ العین حیدر کے بیشتر رپورتاژ عموماً اپیل نہیں کرتے، لیکن مذکورہ رپورتاژ اپنے تاثراتی تاریخی اور جذباتی بہاؤ کی بنا پر مجھے بہت پسند ہے۔ محترمہ نے اس شہر میں جس طرح وقت گزارا اس کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن ہم تو صرف خاص خاص حصوں میں سے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں۔
''بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے۔ شہزادہ اعظم جاہ اور شہزادی در شہوار کی شادی علی برادران کے توسط سے ہوئی تھی۔خلافت کے خاتمے کے بعد معزول سلطان ترکی فرانس میں رہتے تھے اور وہیں پہ یہ شادی ہوئی تھی۔ سلطان کے جب برے دن آئے تو عثمان علی خاں نے ان کی دستگیری فرمائی، چنانچہ تادم زیست ان کو معقول وظیفہ ملتا رہا۔ اس احسان کے بدلے میں سلطان عبدالمجید آخری فرمانروائے ترکی نے اپنی لخت جگرکو نالائق ولی عہد سلطنت آصفیہ کے حوالے کردیا۔
بھتیجی نیلوفرکی شادی چھوٹے بھائی معظم جاہ سے کردی ، نظام کے بڑے بیٹے (اعظم جاہ) سے ناخوش رہے، اپنے پوتے مکرم جاہ کو ولی عہد بنایا۔'' عزیز احمد پاکستان آنے سے پہلے ترکی شہزادی در شہوار کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے۔ نوابوں اور محلاتی سازشوں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ''ایسی بلندی ایسی پستی'' انھی غلام گردشوں میں گونجتی سچائیوں کی کہانی ہے، جہاں آنکھیں کھلی لیکن زبان اورکان بند رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے۔
ایک جگہ مصنفہ کہتی ہیں ''مغل خود نہایت غیرمعمولی روشن خیال اورذی علم فرماں روا تھے۔ مگر وہ بڑی مچھلی تھے جو چھوٹی مچھلیوں کو نگل گئے۔ چاند بی بی کے قلعہ احمد نگر میں انگریزوں نے پنڈت نہرو اور مولانا آزاد اور دوسرے کانگریسی رہنماؤں کو نظربند کیا تھا۔ اس سے نوے سال قبل وہ اورنگ زیب کی اولاد بہادر شاہ کو رنگون بھیج چکے تھے، کیونکہ وہ شارک مچھلی نکلے۔''
''تیس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آکر آپ اچانک ایک ایسی سرزمین پر اترے جہاں چاروں طرف لوگ باگ قطب شاہی اردو بول رہے ہوں تو کچھ تاریخی وقت میں گھپلا سا معلوم ہوتا ہے۔''
''آہ وہ جولان گاہ عالمگیر یعنی وہ حصار اتنا وسیع، دلی اور آگرہ کے قلعے اس کے ایک کونے میں سما جائیں۔ اندر عمارتوں کی دیواروں میں لگے سفالی پائپ جو برشین وھیل کے ذریعے گرم و سرد پانی سارے قلعے کو سپلائی کرتے تھے۔ شاہی محل، دربار ہال، دادا ہال، رانی محل، موتی محل، خزانہ، لنگر خانہ، مساجد، حمام، مدارس، دیوان عام، دیوان خاص، تارا متی کی مسجد اور محلات، پریم متی، بالامتی، کچی پڈی، ناچتی ہوں گی۔
اس رین اندھیری میں مت بھول پڑوں تجھ سوں
ٹک پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سناتی جا
قطب شاہ نے ایک محل کے پانچ حصے کیے تھے۔ نقاشوں، خطاطوں، شاعروں، ادیبوں اور موسیقاروں کے لیے۔ محمد قلی قطب شاہ، بانی شہر حیدر آباد، اپنے دور حکومت میں کسی کو سزائے موت نہ دی۔ چار مینار بنوایا گیا۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ یہ تعزیہ نما عمارت اس کے کارناموں کے بجائے سگریٹ کے ایک برانڈ کی وجہ سے مشہور ہوگی تو وہ دکھی ہوتا۔
اس نے حیدر آباد بساتے وقت دعا مانگی تھی کہ ''مرا شہر لوگاں سوں معمور کر'' اس کا شہر تو اب تک صاف ستھرا اور نسبتاً کم گنجان ہے مگر وہ دعا پونے چار سو سال بعد باقی ملک کے لیے ایسی قبول ہوئی کہ شمالی ہند کی ٹرینوں کی چھتیں بھی لوگاں سے معمور ہوگئیں'' انگریزوں نے اپنا تسلط جمانے اور خود کو درست ثابت کرنے کے لیے مسلمان بادشاہوں اور نوابوں کو ناکارہ، عیاش اور نااہل ثابت کرنے پر خوب کام کیا۔ واجد علی شاہ، ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالمگیر، ابوالحسن تانا شاہ اور نواب سراج الدولہ وغیرہ کے بارے میں ایسی کتابیں اپنے پالتو خطاب یافتہ بے ضمیر لوگوں سے لکھوائیں کہ ہم نے بھی آنکھیں بند کر کے ان پر یقین کرلیا۔ اس سلسلے میں مصنفہ لکھتی ہیں۔
''ہر آخری مفتوح حکمران فاتحین کے پروپیگنڈے کا شکار ہوتا ہے۔ مغل پروپگینڈے نے ابوالحسن تانا شاہ کو بے ہودہ، ناکارہ، عیاش اور ظالم ظاہر کیا۔ برٹش پروپیگنڈے نے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور واجد علی شاہ کو۔''
موصوفہ نے تاریخی حوالوں سے ان سب کو غلط ثابت کیا ہے۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''اہل حیدر آباد اپنے محبوب بادشاہ ابوالحسن کے آٹھ ماہ تک محصور اور جرأت و شجاعت کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اس کی شریفانہ عادات و تصوف سے لگاؤ پر اس کو ایک بلند ہستی سے تشبیہہ دینے لگے تھے۔''
قاضی عبدالغفار جو اردو کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی فاطمہ کی شادی دکن میں ہوئی تھی۔ انھوں نے مصنفہ کو بتایا کہ اہل حیدر آباد کسی بھی ناپسندیدہ چیز کو اب تک عالمگیری کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ فاتح دکن تھے۔ اسی لیے اورنگ زیب کے خلاف ردعمل دکن میں عام ہے۔ آگے وہ اہل حیدر آباد کے بارے میں لکھتی ہیں۔
''محض نوابوں کی عیاشیاں ہی تو حیدرآبادی تہذیب نہیں تھی۔ اعلیٰ حضرت کی سرپرستی میں کتنی ہی ترخیاں (ترقیاں) ہوئیں۔ حضور نظام نے اردو اور تعلیم نسواں کی طرف کتنی توجہ دی۔ دوسری بات یہاں ہندو مسلم منافرت نہیں تھی، وہی مخلوط تہذیب جس کی بنیاد دکنی سلطنت کے بادشاہوں نے رکھی تھی۔ بہمنی دور سے برآمدے میں ایک صاحب نے رنجیدہ آواز میں مجھ سے کہا۔
''حیدر آباد کی 80 فی صد پبلک عمارات حضور نظام کی بنوائی ہوئی ہیں۔''
ایک اور جگہ کہتی ہیں۔ ''جناب عبداللہ خاں قلعہ دار نے محاصرے کے دوران قلعے کا پھاٹک کھول دیا۔ مغل لشکر در آیا۔ تانا شاہ کوگرفتار کرلیا گیا،اس کی بیگمات مغلوں کے ہاتھوں پڑنے کے بجائے سب اس حوض میں کود کود کر جاناں دے دیے۔''
تانا شاہ قلعہ دولت آباد میں چودہ سال قید رہا۔ وہیں انتقال ہوا۔جب عالمگیری فوج اسے گرفتار کرکے لے جا رہی تھی تو اسے راستے میں بہت پیاس لگی تھی۔ یہیں پر ایک غریب آدمی نے مٹی کے پیالے میں پانی دیا۔ اس نے اپنی آخری انگوٹھی اتار کر کوزے میں ڈال دی۔ یہ تھا والیٔ دکھن ابوالحسن تانا شاہ۔ بانی شہر حیدر آباد دکھن قلی قطب شاہ نے سچ ہی کہا تھا:
دکھن سا نہیں ٹھار سنسار میں
بنج فاضلاں کا ہے اس ٹھار میں
کہتے ہیں کہ پہلے یہ شہر بھاگ نگرکہلاتا تھا۔ حیدرآباد دکن کے ''چار مینار'' اس شہر کی پہچان ہیں پوری دنیا کی بارہ بہترین چورنگیوں میں کراچی کے معروف علاقے بہادر آباد کی چارمینار چورنگی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو اپنی نفاست اور خوبصورتی کی بنا پر ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔
قرۃ العین حیدر کے بیشتر رپورتاژ عموماً اپیل نہیں کرتے، لیکن مذکورہ رپورتاژ اپنے تاثراتی تاریخی اور جذباتی بہاؤ کی بنا پر مجھے بہت پسند ہے۔ محترمہ نے اس شہر میں جس طرح وقت گزارا اس کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن ہم تو صرف خاص خاص حصوں میں سے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں۔
''بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے۔ شہزادہ اعظم جاہ اور شہزادی در شہوار کی شادی علی برادران کے توسط سے ہوئی تھی۔خلافت کے خاتمے کے بعد معزول سلطان ترکی فرانس میں رہتے تھے اور وہیں پہ یہ شادی ہوئی تھی۔ سلطان کے جب برے دن آئے تو عثمان علی خاں نے ان کی دستگیری فرمائی، چنانچہ تادم زیست ان کو معقول وظیفہ ملتا رہا۔ اس احسان کے بدلے میں سلطان عبدالمجید آخری فرمانروائے ترکی نے اپنی لخت جگرکو نالائق ولی عہد سلطنت آصفیہ کے حوالے کردیا۔
بھتیجی نیلوفرکی شادی چھوٹے بھائی معظم جاہ سے کردی ، نظام کے بڑے بیٹے (اعظم جاہ) سے ناخوش رہے، اپنے پوتے مکرم جاہ کو ولی عہد بنایا۔'' عزیز احمد پاکستان آنے سے پہلے ترکی شہزادی در شہوار کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے۔ نوابوں اور محلاتی سازشوں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ''ایسی بلندی ایسی پستی'' انھی غلام گردشوں میں گونجتی سچائیوں کی کہانی ہے، جہاں آنکھیں کھلی لیکن زبان اورکان بند رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے۔
ایک جگہ مصنفہ کہتی ہیں ''مغل خود نہایت غیرمعمولی روشن خیال اورذی علم فرماں روا تھے۔ مگر وہ بڑی مچھلی تھے جو چھوٹی مچھلیوں کو نگل گئے۔ چاند بی بی کے قلعہ احمد نگر میں انگریزوں نے پنڈت نہرو اور مولانا آزاد اور دوسرے کانگریسی رہنماؤں کو نظربند کیا تھا۔ اس سے نوے سال قبل وہ اورنگ زیب کی اولاد بہادر شاہ کو رنگون بھیج چکے تھے، کیونکہ وہ شارک مچھلی نکلے۔''
''تیس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آکر آپ اچانک ایک ایسی سرزمین پر اترے جہاں چاروں طرف لوگ باگ قطب شاہی اردو بول رہے ہوں تو کچھ تاریخی وقت میں گھپلا سا معلوم ہوتا ہے۔''
''آہ وہ جولان گاہ عالمگیر یعنی وہ حصار اتنا وسیع، دلی اور آگرہ کے قلعے اس کے ایک کونے میں سما جائیں۔ اندر عمارتوں کی دیواروں میں لگے سفالی پائپ جو برشین وھیل کے ذریعے گرم و سرد پانی سارے قلعے کو سپلائی کرتے تھے۔ شاہی محل، دربار ہال، دادا ہال، رانی محل، موتی محل، خزانہ، لنگر خانہ، مساجد، حمام، مدارس، دیوان عام، دیوان خاص، تارا متی کی مسجد اور محلات، پریم متی، بالامتی، کچی پڈی، ناچتی ہوں گی۔
اس رین اندھیری میں مت بھول پڑوں تجھ سوں
ٹک پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سناتی جا
قطب شاہ نے ایک محل کے پانچ حصے کیے تھے۔ نقاشوں، خطاطوں، شاعروں، ادیبوں اور موسیقاروں کے لیے۔ محمد قلی قطب شاہ، بانی شہر حیدر آباد، اپنے دور حکومت میں کسی کو سزائے موت نہ دی۔ چار مینار بنوایا گیا۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ یہ تعزیہ نما عمارت اس کے کارناموں کے بجائے سگریٹ کے ایک برانڈ کی وجہ سے مشہور ہوگی تو وہ دکھی ہوتا۔
اس نے حیدر آباد بساتے وقت دعا مانگی تھی کہ ''مرا شہر لوگاں سوں معمور کر'' اس کا شہر تو اب تک صاف ستھرا اور نسبتاً کم گنجان ہے مگر وہ دعا پونے چار سو سال بعد باقی ملک کے لیے ایسی قبول ہوئی کہ شمالی ہند کی ٹرینوں کی چھتیں بھی لوگاں سے معمور ہوگئیں'' انگریزوں نے اپنا تسلط جمانے اور خود کو درست ثابت کرنے کے لیے مسلمان بادشاہوں اور نوابوں کو ناکارہ، عیاش اور نااہل ثابت کرنے پر خوب کام کیا۔ واجد علی شاہ، ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالمگیر، ابوالحسن تانا شاہ اور نواب سراج الدولہ وغیرہ کے بارے میں ایسی کتابیں اپنے پالتو خطاب یافتہ بے ضمیر لوگوں سے لکھوائیں کہ ہم نے بھی آنکھیں بند کر کے ان پر یقین کرلیا۔ اس سلسلے میں مصنفہ لکھتی ہیں۔
''ہر آخری مفتوح حکمران فاتحین کے پروپیگنڈے کا شکار ہوتا ہے۔ مغل پروپگینڈے نے ابوالحسن تانا شاہ کو بے ہودہ، ناکارہ، عیاش اور ظالم ظاہر کیا۔ برٹش پروپیگنڈے نے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور واجد علی شاہ کو۔''
موصوفہ نے تاریخی حوالوں سے ان سب کو غلط ثابت کیا ہے۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''اہل حیدر آباد اپنے محبوب بادشاہ ابوالحسن کے آٹھ ماہ تک محصور اور جرأت و شجاعت کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اس کی شریفانہ عادات و تصوف سے لگاؤ پر اس کو ایک بلند ہستی سے تشبیہہ دینے لگے تھے۔''
قاضی عبدالغفار جو اردو کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی فاطمہ کی شادی دکن میں ہوئی تھی۔ انھوں نے مصنفہ کو بتایا کہ اہل حیدر آباد کسی بھی ناپسندیدہ چیز کو اب تک عالمگیری کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ فاتح دکن تھے۔ اسی لیے اورنگ زیب کے خلاف ردعمل دکن میں عام ہے۔ آگے وہ اہل حیدر آباد کے بارے میں لکھتی ہیں۔
''محض نوابوں کی عیاشیاں ہی تو حیدرآبادی تہذیب نہیں تھی۔ اعلیٰ حضرت کی سرپرستی میں کتنی ہی ترخیاں (ترقیاں) ہوئیں۔ حضور نظام نے اردو اور تعلیم نسواں کی طرف کتنی توجہ دی۔ دوسری بات یہاں ہندو مسلم منافرت نہیں تھی، وہی مخلوط تہذیب جس کی بنیاد دکنی سلطنت کے بادشاہوں نے رکھی تھی۔ بہمنی دور سے برآمدے میں ایک صاحب نے رنجیدہ آواز میں مجھ سے کہا۔
''حیدر آباد کی 80 فی صد پبلک عمارات حضور نظام کی بنوائی ہوئی ہیں۔''
ایک اور جگہ کہتی ہیں۔ ''جناب عبداللہ خاں قلعہ دار نے محاصرے کے دوران قلعے کا پھاٹک کھول دیا۔ مغل لشکر در آیا۔ تانا شاہ کوگرفتار کرلیا گیا،اس کی بیگمات مغلوں کے ہاتھوں پڑنے کے بجائے سب اس حوض میں کود کود کر جاناں دے دیے۔''
تانا شاہ قلعہ دولت آباد میں چودہ سال قید رہا۔ وہیں انتقال ہوا۔جب عالمگیری فوج اسے گرفتار کرکے لے جا رہی تھی تو اسے راستے میں بہت پیاس لگی تھی۔ یہیں پر ایک غریب آدمی نے مٹی کے پیالے میں پانی دیا۔ اس نے اپنی آخری انگوٹھی اتار کر کوزے میں ڈال دی۔ یہ تھا والیٔ دکھن ابوالحسن تانا شاہ۔ بانی شہر حیدر آباد دکھن قلی قطب شاہ نے سچ ہی کہا تھا:
دکھن سا نہیں ٹھار سنسار میں
بنج فاضلاں کا ہے اس ٹھار میں