وطن کی سرزمین پر جو آسماں ہے خیمہ زن
فضائیہ والوں نے مجھے کورنگی‘ کامرہ‘ میانوالی‘ پشاور‘ سرگودھا اور رسال پور کے خوب دورے کروائے
پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان صاحب کی طرف سے دعوت ملی کہ اس بار فضائیہ کے قومی دن اور چھ ستمبر کے حوالے سے وہ بھی جنگ ستمبر کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔
جس کا انعقاد 29 اگست کو نور خاں آڈیٹوریم میں ہو گا اور جس میں فضائیہ کے سابق افسران' غازیوں اور شہداء کے وارثین کے ساتھ ساتھ علم و ادب اور فنون کی دنیا سے بھی چند منتخب لوگوں کو مدعو کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی وہ روائتی جملہ بھی کہ ایئر چیف صاحب کی ذاتی خواہش ہے کہ آپ اس میں ضرور شرکت فرمائیں جب میں نے چشم ما روشن دلی ما شاد کہا تو بتایا گیا کہ لاہور بیس کے لوگ آپ سے رابطہ کر کے آپ کی یہاں کے لیے روانگی اور واپسی پر آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے انتظامات کر دیں گے باقی کام ہمارا ہے۔
فون رکھنے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں پاک فضائیہ سے متعلق یادوں کی فلم سی چلنے لگی اور بے شمار واقعات اور کردار ذہن کی اسکرین پر جلنے بجھنے لگے۔ جنگ ستمبر کے دنوں میں ٹی وی ابھی نیا نیا تھا اور اس کی پہنچ وسائل اور نشریات کا دورانیہ تینوں محدود تھے سو جنگ کے بارے میں بیشتر اطلاعات ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ہی ملتی تھیں جنگ سے پہلے سوائے اصغر خان صاحب کے کم از کم میرے کان فضائیہ سے متعلق کسی نام سے واضح طور پر آشنا نہیں تھے مگر ان سترہ دنوں کے اندر اندر یہ دائرہ معلومات پھیلتا چلا گیا اور قوم نور خان' سرفراز رفیقی' محمد یونس' ایم ایم عالم' سجاد حیدر' ارشد سمیع خان' منیر الدین احمد اور سہیل چوہدری کے ناموں اور کارناموں سے بھی آگاہ ہوتی چلی گئی۔
میرا پاک فضائیہ سے ذاتی اور براہ راست رابطہ 1985 کے لگ بھگ ہوا جب ایئر فورس والوں نے مجھ سے ایک ایسی فیچر فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے لیے کہا جس کی کہانی کے پس منظر اور پیش منظر فضائیہ سے متعلق ہوں۔ ایم ایم عالم صاحب سے میری پہلی اور واحد ملاقات بھی انھی دنوں میں ہوئی تب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور کے آفیسرز میسں میں مقیم تھے۔
فضائیہ والوں نے مجھے کورنگی' کامرہ' میانوالی' پشاور' سرگودھا اور رسال پور کے خوب دورے کروائے، کنور آفتاب احمد مرحوم اس کے ڈائریکٹر اور مرحوم خلیل احمد میوزک ڈائریکٹر مقرر ہوئے لیکن بعض مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا اور ہوتا ہی چلا گیا۔ اب مجھے اس وقت کے ایئر چیف انور شمیم ان کی شاعرہ بیگم (جن کا نام غالباً طاہرہ تھا اور جو آگے چل کر اسلام آباد کی مشہور ادیب دوست خاتون بیگم سرفراز اقبال کی سمدھن بنیں) اور رابطہ افسر گروپ کیپٹن راغب کے علاوہ اس پراجیکٹ سے متعلق کوئی اور نام یاد نہیں آ رہا۔
اس واقعے کے کوئی بیس برس بعد یہ رابطہ ایک ٹی وی سیریل کے حوالے سے دوبارہ بحال ہوا جس کا نام ''وسعتیں'' رکھا گیا تھا مگر متعلقہ چینل کے مہربانوں نے نہ صرف اس کا نام بدل کر ''شیر دل'' کر دیا بلکہ اس کی پروڈکشن میں بھی ایسی غیر ذمے داری کا ثبوت دیا کہ یہ میرا واحد سیریل ہے جس کا نام خود مجھے لوگوں کو بتانا پڑتا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کی معرفت مجھے ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ ساجد حبیب اور ایئر کموڈور ریٹائرڈ خالد فاروق چشتی کی صورت میں دو بہت اچھے اور پیارے دوست مل گئے جن سے ملاقات اسی سیریل کے دوران ہوئی کہ دونوں فضائیہ کی طرف سے اس کام کی نگرانی پر مامور تھے۔
اسکواڈرن لیڈر سجیل احمد نے لاہور سے مجھے سی 130 پر سوار بھی کروایا اور واپسی پر ریسیو کر کے بہت ذمے داری سے گھر بھی پہنچایا جب کہ اسلام آباد میں یہ کام اسکواڈرن لیڈر نرگس نے سر انجام دیا جو وہاں ماہر نفسیات کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ڈاکٹریٹ بھی کر رہی ہیں ۔ ہمارا گیسٹ ہاؤس ایئر ہیڈ کوارٹر کے اندر ایک انتہائی پر فضا ماحول میں تھا جس کے بہت خوبصورت لان میں پہلے فلم ساز دوست علی مرتضی اور پھر بہت عزیز ہم عصر ڈرامہ نگار حسینہ معین سے طویل تبادلہ خیال کا موقع ملا۔
اب آئیے اس تقریب کی طرف جس کے لیے ہمیں یہاں مدعو کیا گیا تھا ،نور خان آڈیٹوریم لوگوں اور روشنیوں سے بھرا ہوا تھا انور مقصود بھی آ چکے تھے لیکن مستنصر حسین تارڑ علالت اور ایکٹر جاوید شیخ کسی نا معلوم وجہ سے غیر حاضر تھے یوں اس مجلس میں اہل فن کی حاضری 3/5 رہی معلوم ہوا کہ پروگرام کی ریکارڈنگایک نجی ٹی وی چینل کر رہا ہے جن کے نمایندوں عرفان اصغر' ایوب خاور اور بھانو سے تھوڑی دیر میں ملاقات بھی ہو گئی۔
لیکن ذاتی طور پر میرے لیے یہ منظر اس لیے تکلیف دہ تھا کہ کیا اب پی ٹی وی کی اتنی بڑی کارپوریشن اس طرح کے کسی بڑے قومی فنکشن تک کو کور کرنے کے بھی قابل نہیں رہی؟ آخر یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ پاکستان کا ہر گھر بجلی کے بل کے حوالے سے ماہانہ مجموعی طور پر دو سے تین ارب کا ٹیکس کس لیے ادا کر رہا ہے؟ کیا حکومت کو اس بات کا علم نہیں کہ چھ چھ مہینے تک آرٹسٹوں اور مختلف پروگراموں کے شرکاء کو نام نہاد معاوضے کے چیک بھی نہیں ملتے ( اتنے تربیت یافتہ عملے اور بہترین اسٹوڈیوز کے ہوتے ہوئے سارے منافع بخش کام باہر سے کروائے جاتے ہیں اور ریکارڈنگ بھی بھاری کرایوں والی جگہوں پر ہوتی ہیں) پروگرام میں چند منتخب اور نامور شہداء کے بارے میں Citation کے انداز میں خصوصی پروگرام دکھائے گئے۔
ان کے ورثاء سے بات چیت کی گئی پرانے جنگی ترانے آج کے سنگرز کی آوازوں میں پیش کیے گئے جن میں سے گوہر ممتاز' آئمہ اور احمد جہاں زیب کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں، پی اے ایف کے تین خصوصی طورپر تیار کیے گئے نغمے بھی سنوائے اور دکھائے گئے جن میں راحت فتح علی خان والا نغمہ فضائیہ ہی کے ایک شاعر کا لکھا ہوا تھا جسے ایک خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن ذاتی طور پر مجھے پاک فضائیہ میں شامل خواتین کے حوالے سے بنایا گیا نغمہ اس لیے پسند نہیں آیا کہ اس کی گلوکارہ کا لباس اور والہانہ رقص کے انداز کسی آئٹم سانگ سے ملتے جلتے تھے جو نغمے کے موضوع' مزاج اور مقصد کے بالکل برعکس تھا، اس کی میرے علاوہ کچھ اور لوگوں نے بھی نشاندہی کی، سو امید کرنی چاہیے کہ 7 ستمبر کو یوم فضائیہ کے موقع پر جب یہ پروگرام آن ایئر ہو گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی۔
مجموعی طور پر پروگرام دلچسپ بھی تھا اور ایمان افروز بھی، وائس چیف آف ایئر اسٹاف ایئر مارشل سعید صاحب (جو ماضی قریب کی مشہور اور مترنم شاعرہ منور سلطانہ لکھنوی کے صاحبزادے ہیں) اور ایئر چیف سہیل امان صاحب نے بہت نپی تلی' عمدہ اور خوب صورت گفتگو کی،65ء کی جنگ کے ایک نامور غازی سجاد حیدر صاحب نے ثقل سماعت اور کمپیئر عمران عباس نے اسکرپٹ کی غلطیوں کی وجہ سے کچھ مسکراہٹوں کا سامان بھی فراہم کر دیا اور یوں یہ پروقار اور خوب صورت تقریب تین گھنٹوں میں اپنے اختتام کو پہنچی جس میں اسٹیج سے مخاطب ہونے والوں میں غیر وردی پوش صرف ہم تین یعنی حسینہ معین 'انور مقصود اور میں تھے۔
جن احباب کو C-130 میں سفر کرنے کا تجربہ ہے وہ یہ تو مانتے ہیں کہ یہ جہاز اپنی گوناگوں خوبیوں مضبوطی اور افادیت کے اعتبار سے بلاشبہ ایک قیمتی قومی سرمایہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جہاز بنیادی طور پر زندہ انسانوں کے بجائے گولہ بارود ڈھونے کے لیے بنایا گیا ہے، احباب نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل کو بھی اس جہاز پر یہ کہہ کر بلوایا گیا کہ آپ کے لیے ایک خصوصی جہاز بھجوایا جا رہا ہے انھوں نے اپنی تقریر کی ابتدا ہی اس بات سے کی اور اپنے کالج کے زمانے کے دوست اور موجودہ ایئر چیف سہیل امان صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ اس مہمان نوازی اور خصوصی انتظام کا بہت بہت شکریہ لیکن مناسب ہو گا اگر آپ واپسی پر میرے لیے کسی بس یا ٹرک کا بندوبست کرا دیں۔
میں نے بھی اس کی بے آرامی کا تذکرہ اپنے ہم سفر فضائیہ کے کچھ بہت سینئر افسران اور لاہور کے بیس کمانڈر حامد فراز صاحب سے کیا مگر ان سب کی دوستانہ مسکراہٹوں میں ایک ہی جواب دمک رہا تھا کہ ہماری تو ساری زندگیاں ایسی ہی بے آرامی میں کٹی ہیں مگر ہمارا دھیان کبھی اس طرف گیا ہی نہیں کہ ہم تو جہاز میں قدم ہی اس جذبے کے ساتھ رکھتے تھے کہ واپسی ہو یا نہ ہو وطن کے پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھنا ہے۔ ان کے اسی جذبے کو سلام پیش کرنے کے لیے میں نے ایک گیت لکھا جس کا پہلا بند کچھ اس طرح سے ہے۔
وطن کی سرزمین پر جو آسمان ہے خیمہ زن
ہیں اس کے طول و عرض پر
رکھے ہوئے کڑی نظر
فضائیہ کے شیر دل' غضب ہے جن کا بانکپن