کہاں کہاں سے گزرے
آمنہ عفت اگرچہ نہ اسکول گئی تھیں نہ کالج، بہترین نثر نگار تھیں،
آمنہ عفت اگرچہ نہ اسکول گئی تھیں نہ کالج، بہترین نثر نگار تھیں، زبردست مقرر تھیں اور تھوڑی بہت شاعری بھی کرتی تھیں۔ سولہ سال کی تھیں کہ اپنے سے آٹھ سال بڑے ناظر حسن سے ان کی شادی ہو گئی۔ ان کا گھرانہ بریلی میں تھا بارات مظفر گڑھ سے آئی۔ عفت بائیس گھنٹے کا سفر طے کر کے مظفر گڑھ پہنچیں۔ ساری شام شادی کے سلسلے کی رسمیں ہوتی رہیں۔ سسرال میں رشتے داروں اور دوست احباب کا ہجوم تھا، منہ دکھائی ہو رہی تھی۔ ہر شخص کی زبان پر دلہن کی تعریف تھی۔
رات ہوئی، دلہن کو اس کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ اب وہ گھڑی آئی جس کا انھیں انتظار تھا یعنی اپنے جیون ساتھی سے ملنے کا۔ کمرے میں ناظر حسن داخل ہوئے۔ آمنہ عفت نے گھونگھٹ کی اوٹ سے انھیں دیکھا۔ ایک خوش شکل اور جامہ زیب نوجوان۔ ان کا دل جیسے دھڑکتے دھڑکتے تھم گیا۔
خوشی کی ایک لہر سارے بدن میں دوڑ گئی لیکن چند ہی لمحوں میں ساری خوشیاں، سارے ارمان، مستقبل کے سارے خواب چکنا چور ہو کر بکھر گئے۔ ناظر حسن کہہ رہے تھے ''میں نے اپنی ماں کے کہنے سے شادی کی ہے، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم صرف دنیا کو دکھانے کے لیے میاں بیوی ہوں گے اور بس۔ خبردار یہ بات اس کمرے سے باہر نہ نکلے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔''
آمنہ عفت سناٹے میں آ گئیں، یوں لگا جیسے جسم اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
حمرا خلیق کی آپ بیتی ''کہاں کہاں سے گزرے'' آمنہ عفت کے اس صبر آزما واقعے سے شروع ہوتی ہے۔ عفت حمرا کی چھوٹی خالہ تھیں۔ جب حمرا پیدا ہوئیں تو ان کی ماں اس قدر بیمار تھیں کہ بچی کی پرورش ان کے لیے ممکن نہ تھی۔ حمرا کو عفت کے سپرد کر دیا گیا۔ ان کی اپنی گود خالی تھی، یہ بچی اب ان کی ساری توجہ کا مرکز بن گئی۔
حمرا خلیق ادیب ہیں، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس ہیں۔ ان کے متعدد ڈرامے ٹیلی ویژن سے نشر ہو چکے، کتابیں اور ترجمے شایع ہو چکے ہیں۔ اب ان کی داستان حیات خود نوشت آپ بیتی شایع ہوئی ہے۔
''کہاں کہاں سے گزرے'' تلخ اور شیریں یادوں کا مجموعہ ہے۔ اپنی خالہ جو ان کی امی، ناظر حسن جو ان کے ابی تھے ان کی یادوں کا مرکز ہیں، اس میں ان کے حقیقی ماں باپ، رشتے داروں اور دوستوں کا تذکرہ ہے، ان کے ہمدرد اور غم گسار نظر آتے ہیں۔ ایک تصویر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ یہ خلیق ابراہیم کی ہے۔ خلیق ان کے شوہر تھے جن کے ساتھ گزارے ہوئے بیالیس سال ان کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ رفاقت کے یہ لمحے ناقابل فراموش ہیں۔
حمرا لکھتی ہیں ''ان کی زندگی میں غضب کا نظم و ضبط تھا۔ ان کے مزاج میں جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ کا کوئی دخل نہ تھا۔ خوشی کا موقع ہو یا غم کا کسی کی تعریف کرنا ہو یا اختلاف رائے۔ اس کا اظہار انھوں نے کبھی جذباتی طریقے سے نہیں کیا اور یہی نہیں کہ جذبات کا اظہار نہ ہو بلکہ بعض مرتبہ تو اس حد تک بے نیازی کا ثبوت دیتے تھے کہ سامنے والا جزبز ہو کر رہ جاتا تھا۔ ہاں البتہ بعض باتیں ضرور تھیں جن پر وہ غصے سے آپے سے باہر ہو جاتے تھے۔ ایک آتش فشاں کی طرح لاوا ابلتا لیکن چند لمحوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا۔ اگر یہ چند لمحے آپ نے برداشت کر لیے تو جیت آپ کی۔''
خلیق ابراہیم دستاویزی فلم سازی کی دنیا کی معروف شخصیت تھے۔ ان کی بنائی ہوئی فلموں پر جس کے اسکرپٹ وہ خود لکھتے تھے پاکستان ہی میں نہیں غیر ممالک سے بھی ایوارڈ مل چکے تھے۔ ان کی یادوں کو سمیٹے ہوئے حمرا لکھتی ہیں ''ہم دونوں کی زندگی شادی کے بعد ایسے ہی گزرنے لگی جیسے عام طور پر میاں بیوی کی ہوتی ہے۔ عام سی، بغیر کسی جذباتی اتار چڑھاؤ کے ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں دو مسافر جو خاموشی سے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ دونوں نہایت بردباری سے اپنے اپنے فرض نباہ رہے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنا فرض پورا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔''
خلیق ابراہیم کے انتقال کے بعد حمرا کو تنہائی کا شدید احساس ہوا حالانکہ ان کے بچوں اور چاہنے والے دوستوں کا خلوص، اپنائیت اور محبت کا ایک گھیرا ان کے گرد موجود تھا۔ اس افسردہ ماحول میں انھوں نے خلیق کی یادوں کو اپنی زندگی کے لیے سہارا بنا لیا اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کے حسن، سکون اور محبت کو یاد کر کے خوش رہنا سیکھ لیا۔ یہ صفت انھوں نے اپنی منہ بولی ماں آمنہ عفت سے سیکھی تھی جنھیں اپنی زندگی کے اس دور میں جسے ''جوانی کی راتیں' مرادوں کے دن'' کہا جاتا ہے ایک ایسا شدید دھکا لگا تھا جس کے اثر سے وہ عمر بھر آزاد نہ ہو سکیں۔ عفت کے شوہر ناظر حسن حیثیت والے آدمی تھے۔
نوجوانی ہی میں وہ نہ صرف ایک بڑے وکیل تھے بلکہ سیاسی اور سماجی کاموں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتے تھے۔ اپنی ناپسندیدہ حرکتوں کے باوجود انھوں نے آمنہ عفت کو روپے پیسے کی کوئی تکلیف نہیں دی، ان کے لکھنے پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی بلکہ انھیں اپنی سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک کر لیا۔ پھر یہ وقت بھی آیا کہ وہ مظفر نگر کی میونسپلٹی کی ممبر منتخب ہوئی اور اپنی بہترین کارکردگی اور صلاحیتوں کی بدولت میئر کے عہدے تک پہنچیں۔
جب تقسیم ہند نے حالات بدل دیے اور مسلم لیگ سے اپنی وابستگی کے باعث ناظر حسن کو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں زندگی کا ایک نیا اور تکلیف دہ دور شروع ہوا۔ حمرا خلیق نے اس دور کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ناظر حسن کے نوابزادہ لیاقت علی خاں سے قریبی تعلقات تھے۔
لیاقت علی اب پاکستان کے وزیر اعظم تھے لیکن وہ اپنے مظفر نگر کے ناظر حسن کو بھول چکے تھے۔ حمرا خلیق نے اپنے ابی اور امی کے ساتھ لاہور میں نئی زندگی کی ابتدا کی، پھر رحیم یار خاں میں۔ یہاں ان کا داخلہ ساتویں کلاس میں ہو گیا۔ ناظر حسن کو لائل پور میں نوکری مل گئی تو یہ چھوٹا سا خاندان وہاں منتقل ہو گیا۔
وقت اور حالات بدلے تو ناظر حسن میں بھی تبدیلی آئی۔ حمرا خلیق لکھتی ہیں ''میں سوچتی یہ شخص کتنا بدل گیا ہے۔ یہ تو وہ ابی ہی نہیں رہے۔ زمانے کے سرد و گرم نے انھیں ایک دوسرے انسان کے روپ میں ڈھال دیا تھا۔ اب اس گھر کے فیصلے امی ابی سر جوڑ کر کرتے تھے۔
میں حیران بھی ہوتی تھی اور خوش بھی۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال بھی آتا تھا کہ کاش جو یگانگت اور اپنائیت کا تعلق ان دونوں کے درمیان اس عمر میں پیدا ہوا ہے یہ 1920ء ہی میں قائم ہو جاتا۔ محبت کا جذبہ جو اب وہ ایک دوسرے کے لیے محسوس کرتے ہیں ابی نے اس وقت کیوں محسوس نہیں کیا۔ جب ایک سولہ سالہ نئی دلہن کو اس کی ضرورت تھی۔ جس نے اپنی زندگی کے 32 سال روبوٹ کی طرح گزار دیے اور اس شخص کی تپسیا کرتی رہی۔ جس نے اس کے جذبات اور خواہشات کو کبھی نہ سمجھا۔ جس نے ان کی روح کو کچل کر رکھ دیا۔ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ ابی، امی کی زندگی کے ساتھی اس وقت بنے جب وہ اپنی پوری جوانی ابی کی بے حسی اور لاتعلقی کی بھینٹ چڑھا کر ادھیڑ عمر کی ہو چکی تھیں۔''
آمنہ عفت اور ناظر حسن حمرا کے لیے حقیقی والدین سے بڑھ کر تھے وہ ان سے اور یہ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ان ہی کی سرپرستی میں حمرا نے تعلیم کی منزلیں طے کیں، اسکولوں میں پڑھا، پرائیویٹ امتحان بھی دیا، میٹرک پاس کیا، پھر بی اے کیا اور بی ایڈ کر کے درس و تدریس کو اپنی روزی کا ذریعہ بنایا۔ ان کی جدوجہد تقلید کے لائق ہے۔ اپنی تعلیمی زندگی کے دوران حمرا نے بہت کچھ ایوارڈ اور انعامات حاصل کیے۔
انھیں مباحثوں میں تقریریں کرنے اور ڈراموں میں حصہ لینے کا بڑا شوق تھا۔ اس شوق کو منظر عام پر لانے میں ان کے اساتذہ کا بھی ہاتھ رہا اور ان کی ہمت افزائی نے انھیں کامیابیاں عطا کیں۔ وہ اپنے کالج کی اردو ڈبیٹنگ سوسائٹی کی سکریٹری بھی رہیں۔ حمرا کو اپنی لائل پور کے کالج کی پرنسپل مس جین ہل بہت یاد آتی ہیں جنھیں ان کی صلاحیتوں کا خوب اندازہ تھا اور جس نے ان میں اعتماد پیدا کیا۔ وہ لکھتی ہیں ''کالج کے ان خوبصورت اور یادگار چار سالوں کے علاوہ لائل پور میں گزرا زمانہ میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے ہے۔ جس نے مجھے جینا سکھایا، خود اعتمادی بخشی اور شاید دنیا کا سامنا کرنے کی ہمت دی۔''
دنیا کا سامنا کرنے کی اس ہمت کی بہت سی مثالیں حمرا خلیق کی اس آپ بیتی میں ملتی ہیں۔ مظفر نگر سے کراچی تک کا طویل سفر آسانی سے نہیں کٹا، راہ میں بڑے پیچ و خم آئے۔
حمرا نے یہ سفر کس طرح طے کیا اس کا اندازہ ان کے پیش لفظ سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''اس کتاب میں، میں نے جو کچھ بھی لکھنے کی کوشش کی ہے شاید یہ وہ لاوا ہے جو بچپن سے میرے اندر پک رہا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لیے بے قرار تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ لاوا اندر ہی اندر توڑ پھوڑ کر مجھے ریزہ ریزہ کر دیتا میری سمجھ میں یہی ترکیب آئی کہ میں اسے الفاظ کا روپ دے دوں۔ سو میں نے ایسا ہی کیا۔''