’’شانتیشانتیشانتی‘‘
یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں ایک گہرے سماجی انتشار کی عکاس متضاد کیفیات کا اظہار ملتا ہے
ڈاکٹر روش ندیم کی نظم ''شانتی...شانتی...شانتی'' ایک ایسے سماج میں لکھی گئی ہے جو گزشتہ چند دہائیوں سے بھوک و افلاس، ظلم و تشدد، دہشت گردی بربریت اور جبر و استحصال کا شکار ہے۔ جہاں ہر اس گھناؤنے عمل کا ارتکاب ہو رہا ہے جو سماج کو 'تہذیب' سے پرے کہیں عہد وحوش میں دھکیل دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں ایک گہرے سماجی انتشار کی عکاس متضاد کیفیات کا اظہار ملتا ہے۔ شاعر کا ایسا اندرونی خلفشار کہ جو نظم میں الم ناک اور دہشت انگیز خارجی حقائق کو براہِ راست تو منعکس نہیں کرتا، مگر نظم میں موجود شدت ِجذبات سے لبریز متضاد کیفیات سماج کی شکست و ریخت ہی کا لازمی نتیجہ دکھائی دیتی ہیں۔ نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر کو سکون کی تلاش ہے۔ اس سکون کے حصول کی خاطر شاعر ان کیفیات میں سے گزرتا ہے کہ جہاں ہر مثبت اور تخلیقی عمل منفی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ شاعر جو کبھی مرکز میں تھا، لا مرکز ہو کر دوبارہ مرکز میں آنا چاہتا ہے۔
'شانتی' کا استعارا بظاہر تو سکون ہی کی علامت ہے، مگر اس کا حصول مثبت اور تخلیقی اقدار کی تباہی سے جڑا ہوا ہے۔ نظم کا مجموعی فکری رجحان لاتشکیلی ہے، سکون جس کا محرک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سکون جو کہ شور کا تضاد ہے، بذات خود ایک لاتشکیلی 'قدر' ہے۔ اس کی عمارت تخریب و انہدام پر استوار ہوتی ہے۔ 'شانتی' کی خاطر تخریب و انہدام ہی اس نظم کا مرکزی خیال ہے۔
نظم مختصر ہے، مگر بہت گہری معنویت کی حامل ہے۔ مجھے اس نظم میں چار مختلف کیفیات دکھائی دی ہیں، جن میں کبھی تو مثبت اقدار منفی اقدار بن جاتی ہیں ، انھی پر نظم کے مرکزی خیال کی تشکیل کی گئی ہے، کبھی اپنے ہی عمل سے مثبت اور تخلیقی اقدار کی شکست و ریخت شاعر کے لاشعور سے 'رنج' اور 'درد' جیسی کیفیات کا بیان بن جاتے ہیں اور نظم اپنے مرکزی خیال سے تضاد میں آجاتی ہے۔ انھی 'درد' اور 'رنج' کی کیفیات میں شاعر کی وہی 'مرکزیت 'ازسرِ نو تشکیل کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کا انہدام نظم کے کلی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ نظم کے پہلے چار مصرعوں میں ایک ہی کیفیت خیال کی وحدت کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ مصرعے ملاحظہ کریں:
پٹخ دیا ہے قلم بھی، سفید کاغذ بھی/ انڈیل دی ہے سیاہی ادھوری نظموں پر/ جلا دی اپنے ہی ہاتھوں سے ہر غزل اپنی/ گرا دیا ہے بیاضوں کو کوڑے دانوں میں۔
ان چاروں مصرعوں میں شاعر کی بے چینی اور اضطراب ایک مخصوص صورتحال کے ردِ عمل کی صورت میں نمایاں ہے۔ شاعر ان نظموں میں فعال اس لیے ہے کہ وہ سب کچھ ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ان تمام 'تخلیقات' کو جن کی تخلیق کا لمحہ اگرچہ تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن تخلیق کے بعد کے لمحات ضرور تسکین بخشتے ہیں۔
بالکل اس ماں کی طرح جو بچے کی پیدائش کے بعد حالتِ سکون میں آ جاتی ہے۔ یہاں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں سکون کے لیے 'تخلیقی عمل ' سے گزرنے کی تڑپ اور بعد ازاں پُر سکون کیفیت کے برعکس ان تخلیقات کو منہدم کرنے کی خواہش غالب ہے۔ نظم کے تیسرے مصرعے ''جلا دی اپنے ہی ہاتھوں سے ہر غزل اپنی'' میں دہری معنویت ہے۔ یہاں تخلیقات اور ان سے جڑے ہوئے شاعر کی لامرکزیت اور انہدام خود شاعر کے اپنے ہاتھوں سے ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال مغرب کے برعکس ہے۔ مغربی مابعد جدیدیت میں ایسا کوئی 'میں' موجود ہی نہیں کہ جو خود کو منہدم کر سکے، خود کو 'میں' کہنے سے پہلے ہی اس کا انہدام ہو چکا ہے۔ ہمارے تناظر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک 'میں' کو تو ختم کر دیا جائے، مگر اس کی جگہ دوسرے 'میں' کی احتیاج باقی رہے۔
دوسرے مصرعے میں ''ادھوری نظموں'' کا ترکیبی استعارا بہت معنی خیز ہے۔ کیا کچھ نظمیں جو 'تخلیقی عمل' کا حصہ بن چکی تھیں، یعنی ذہن پر نقش ہو گئی تھیں مگر ان کی تکمیل نہیں ہوئی تھی، ان کی جانب اشارہ ہے یا پھر تخلیق کے بعد شاعر نے نظموں کو وسیع تناظر میں دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ نظمیں ان کی حقیقی کیفیات کی عکاس نہیں ہیں، روش ندیم بنیادی طور پر ترقی پسند سوچ کے حامل شاعر ہیں۔ فن برائے فن کا قضیہ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس نکتے کا تعلق ان کے فکری رجحان سے ہو سکتا ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعے وہ جو شعور بیدار کرنا چاہتے تھے وہ نہ کر پائے، اس لیے ان پر یہ کیفیت طاری ہو گئی ۔ غور کریں تو نظم کے عنوان میں بھی ان کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے مواد موجود ہے۔
ادھوری اس لیے بھی کہ وہ شاعر کو اس سکون و طمانیت سے ہمکنار نہ کر سکیں کہ جن کی خاطر ان پر سیاہی انڈیل دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ ہر صورت نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ شاعر کا سکون ان کی تخلیقات سے نہیں بلکہ کسی اور مقصد سے جڑا ہوا ہے اور اسی مقصد کے حصول کی خواہش ہی ان کی فنی تخلیقات کا محرک بنی ہے۔ نظم میں مقصدیت کا یہ غالب پہلو جدید شعریات کے فن برائے فن کے فلسفے کو مسترد کر کے انھیں زندگی کی معنویت اور مقصدیت سے جوڑ دیتا ہے۔ فن بذاتِ خود کوئی مقصدیت نہیں رکھتا، اس کی قدر و اہمیت انسان کے حوالے سے ہے۔
انسان پہلے اور فن بعد میں آتا ہے۔ اس نظم میں یہ خیال انتہائی بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ فن کو انسان پر اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ انسان دوست شاعر اپنی فنی تخلیقات کو حقیقی زندگی کی معنویت اور مقصدیت پر قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اگر انسان کسی مہلک سماجی صورتحال میں جکڑے ہوئے ہیں تو فن کو اس صورتحال سے جڑ کر ہی بامعنی بننا ہے۔
پہلے چار مصرعوں کے بعد پانچواں اور چھٹا مصرعہ ایک مختلف کیفیت اور خیال کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ مصرعے ملاحظہ کریں ''سو خواب کا ہے تکلف، نہ آس کا جھنجھٹ/ نہ حسرتوں کا الم ہے، نہ آرزو کا ملال۔ حقیقی زندگی میں ''خواب، آس، حسرت، آرزو'' کو مثبت رجحان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بالخصوص 'خواب' اور آرزو' کی موجودگی میں زندگی آگے بڑھتی ہے، ارتقا پاتی ہے، اطمینان کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔
'خواب' اور 'آرزو' کسی بھی مثالی آدرش کے حصول کی لازمی شرط ہوتے ہیں۔ یہاں ان کو رخصت کرنے سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ یہ چاروں عوامل کہ جن سے شاعر نے نجات پا لی ہے وہ ان کی فنی تخلیقات سے جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ان عوامل کے ختم ہو جانے سے ان کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی ہے۔ اب وہ شاعر کے لیے محض منفی اقدار بن کر رہ گئے ہیں۔ نظم کا ساتواں مصرعہ ملاحظہ کریں، جو خصوصی توجہ کا متقاضی ہے: نہ رنج کی ہے شکایت، نہ درد کا شکوہ۔
اس مصرعے کو پڑھنے کے بعد کئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں، جن کا تعلق نظم کو اس کی کلیت میں سمجھنے سے ہے۔ کیا یہ مصرعہ نظم کے پہلے چھ مصرعوں میں موجود ہم آہنگ کلیت میں دراڑ ڈال رہا ہے، اس میں ایک فتق، ایک شگاف، ایک تضاد کو ظاہر کر رہا ہے یا نظم کے خیال کی وحدت کے تسلسل کو قائم رکھتا ہے؟ اگر نظم میں خیال کے تسلسل کو قائم رکھنا تھا تو اس مصرعے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس مصرعے کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ مصرعہ نظم میں بے ساختہ طور پر در آیا ہے۔ غور کریں کہ شاعر کو اپنے ہی انہدامی عمل کا 'رنج' اور 'درد' تو ہے، صرف ان کی شکایت نہیں کرنی۔ لہذا یہ مصرعہ پہلے تمام مصرعوں سے ایک مختلف و متضاد کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر 'رنج' اور 'درد 'مرکز میں ہوں، اور تخلیقات کے انہدام کے بعد شاعر کی غالب کیفیت کا روپ اختیار کر لیں تو اس درد انگیز کیفیت میں کس سکون کی امید کی جا رہی ہے! اس مصرعے کے بعد 'شانتی' کی امید کرنا ایک متضاد کیفیت ہے۔
'درد' اور 'رنج' کی دیواریں بدستور قائم ہیں آخری مصرعے کچھ یوں ہیں: ہواؤ! آؤ کہ اب گر گئے ہیں سارے کواڑ/ ہواؤ! آؤ کہ اب ڈھے گئی ہیں دیواریں۔ اگر 'درد' اپنی جگہ پر موجود ہے اور 'رنج' بھی ادھر ہی ہے تو پھر کوئی دیوار بھی مسمار نہیں ہوئی ہے، کوئی 'کواڑ' بھی نہیں گرا ! حقیقت میں یہ نظم خیال کی وحدت کی بجائے جذبے اور احساس کی شدت پر کھڑی ہے۔ احساس اور جذبے خود ایک ایسی سماجی صورتحال میں تخلیق ہوئے ہیں کہ جہاں نہ 'خواب' دیکھا جا سکتا ہے، نہ سماج سے کوئی 'آرزو' اور 'آس' وابستہ کی جا سکتی ہے۔