منظور وٹو اور پیپلز پارٹی کے جیالے
وہ جسے ’’جیالا‘‘ کہا جاتا تھا، 1988ء کے انتخابات کے بعد سے بتدریج ختم ہو چکا ہے۔
دُنیا بھر کے صحافیوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے جسے ابھی تک کوئی سلجھانھیں پایا۔ہوتا یہ ہے کہ چند خاص دنوں کی گہما گہمی میں میڈیا ایک مخصوص سیاسی گروہ یا لہر کو مختصر لفظوں میں بیان کرنے کی خاطر کوئی اصطلاح گھڑ لیتا ہے۔
وہ اصطلاح چل پڑتی ہے مگر زمانہ اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ جاتاہے اور صحافی اپنی ہی ایجاد کردہ اصطلاح کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔
صحافیوں کا اپنے ہی بنائے ہوئے فقروں کا باندی بن جانا مجھے بدھ کی شام سے ذرا زیادہ محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ ہوا یہ کہ مختلف ٹی وی اسکرینوں پر ٹِکر کے ذریعے اطلاع آئی کہ میاں منظور وٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنا دیا گیا ہے اور مجھے مختلف صحافیوں اور سیاسی دوستوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔ وہ سارے بڑے خلوص سے جاننا چاہ رہے تھے کہ ''جیالے'' وٹو صاحب کی نامزدگی کو ہضم کر پائیں گے یا نہیں۔
مجھے 1966ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا ایوب خان کی حکومت سے باہر آ کر لاہور ریلوے اسٹیشن پر آنا پوری طرح یاد ہے۔
اگرچہ ان دنوں میں ہائی اسکول سے بھی فارغ نہیں ہوا تھا لیکن لاہور کے مال روڈ پر واقع وائی ایم سی ہال میں ان کا لایا جانا بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ 1967ء کا وہ دن بھی کافی تفصیلات کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں جب ڈاکٹر مبشر حسن کے گلبرگ والے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ مجھے خود سیاست کرنے کی کبھی تمنا نہیں رہی۔ طالب علمی کے دنوں میں زندہ باد۔ مردہ باد ضرور کرتا رہا ہوں اور صحافیوں کی تحریکوں میں بھی اپنی بساط برابر بھر پور حصہ لیا ہے۔ ''جیالا'' کون ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کی کیا نشانیاں ہیں، یہ سب میں نے جلسوں اور جلوسوں کی رپورٹنگ کے ذریعے سیکھا تھا۔
میری دانست میں ''جیالے پن'' کا عروج ان دنوں بھرپور طریقے سے ہمارے سامنے آیا جب برسوں کی جلا وطنی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986ء کی صبح لاہور ایئر پورٹ پر اُتریں اور انسانوں کے سمندر سے گزرتی مینار پاکستان تک ایک تاریخی جلسے سے خطاب کرنے پہنچیں۔ اس جلسے کے دوسرے ہی دن محترمہ نادرہ خاکوانی کے گھر پر ان کی صحافیوں سے ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا۔ جیالوں نے سارے انتظامات تہہ و بالا کر دیے۔ بالآخر مخدوم فیصل صالح حیات کے کچھ ذاتی خدمت گار حرکت میں آئے۔ انھوں نے ڈنڈوں کے ذریعے کچھ نظم قائم کرنے کے بعد صحافیوں کو ایک ایک کر کے ڈرائنگ روم میں بچھی کرسیوں تک پہنچایا۔
محترمہ ابھی وہاں پہنچ بھی نہ پائیں تھیں کہ لان سے ''ضیاء بھی ہم کو مارتا ہے، تم بھی ہم کو مارتے ہو'' کے فلک شگاف نعرے بلند ہونا شروع ہو گئے۔ محترمہ کی لاہور آمد کے بعد 3 مئی کو ان کے ملتان سے کراچی پرواز کر جانے تک میں مسلسل ان کے کاروان کے ساتھ چلتا رہا۔ تقریباًَ ہر شہر میں جیالوں کے ہجوم مجھے اپنے نرغے میں لے کر ان کے ساتھ ضیاء کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کی داستانیں سناتے رہے۔ ان کی اکثریت کو بہت دُکھ ہو رہا تھا کہ محترمہ کی ایک طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپسی کے چند ہی گھنٹوں میں انھیں''پجارو گاڑیوں والوں'' نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔
انھیں بڑی ''گہری سازش'' کے ذریعے ''جیالوں'' سے دور کیا جا رہا ہے اور عالم اگر یہی رہا تو ''پارٹی تباہ'' ہو جائے گی۔ پتہ نہیں کیوں میرے ساتھ دل کے پھپھولے جلانے والے یہ فرض کیے بیٹھے تھے کہ میں محترمہ کو ''حقیقت'' بتا کر ان کی پارٹی کو بچانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ میں یہ اعتراف کر ہی دوں کہ میری ان دنوں اور بعد ازاں محترمہ سے جتنی ملاقاتیں بھی ہوئیں ان کے دوران میں ان سے کوئی بڑی خبر نکلوانے میں سرگرداں رہا۔ کبھی ''پارٹی بچانے'' کے لیے ایک فقرہ ادا کرنے کا تردد بھی نہیں کیا۔
پورا سچ بولنے کا موڈ بن ہی گیا ہے تو مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجیے کہ وہ جسے ''جیالا'' کہا جاتا تھا، 1988ء کے انتخابات کے بعد سے بتدریج ختم ہو چکا ہے۔ ہاںاس صنف سے ملتے جلتے لوگ البتہ آپ کو آج کل بھی کچھ وزراء کے دفتروں یا گھروں کے باہر مل سکتے ہیں۔ اپنی جان کی امان پاتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ جیالے نہیں ''دہاڑی دار'' ہیں۔ ان کے ہاتھ میں فائلیں ہوتی ہیں۔ وہ زیادہ تر کسی سرکاری افسر کی ترقی یا تبادلے کے لیے مرے جا رہے ہوتے ہیں جنھیں بڑے فخر سے ''پارٹی کا بندہ'' کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔
محترمہ یا آصف علی زرداری کے اقتدار کے دنوں میں ''پارٹی کا بندہ'' کہلائے جانے والے افسران میں سے اکثر کو میں 1975ء سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے خوب جانتا ہوں۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر محض یہ کہنا کافی ہو گا کہ سرکاری افسران کسی پارٹی کے تو کیا اپنے ربّ کے ''بندے'' بھی نہیں ہوتے۔ ان کے چہرے خود بخود چڑھتے سورج کی طرف مڑ جایا کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ماضی کے کچھ ''جیالوں'' کے جسم پر غیر ملکی برانڈڈ سوٹ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ Disposable لائٹروں سے نہیں گیس سے Refill ہونے والے قیمتی لائٹروں سے اپنے سگریٹ جلاتے ہیں۔ کسی کمرے میں داخل ہوں تو ان کی آمد سے کہیں پہلے مشہور خوشبوئوں میں سے کسی ایک کی مہک آپ کے نتھنوں میں داخل ہوا کرتی ہے۔ اس سب سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ایک غریب پرور جماعت ہے۔ دائو لگ جائے تو اس کے چند نمایاں لوگ اپنے اقتدار کی طفیل کچھ چیزیں ''مل بانٹ'' بھی لیتے ہیں۔
اﷲکرے یہ روایت قائم رہے۔ یہ دُعا اس لیے مانگ رہا ہوں کیونکہ میاں صاحب کی حکومت ہو تو لاہور کے چند بڑے سیٹھ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں بڑی کثیر تعداد میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں آپ کو آج یہ لکھ کر دے ر ہا ہوں کہ جب سونامی برپا کرتے ہوئے عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم بنیں گے تو اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل اور مہنگے والے گیسٹ ہائوس، غیر ملکوں میں مقیم ہمارے ان پاکستانی بہن بھائیوں سے بھرے نظر آیا کریں گے جو اپنے اپنے شعبے میں بڑے کامیاب سمجھے جاتے ہیں اور جنہوں نے شوکت خانم جیسے معرکۃ الارا اسپتال کے قیام میں دامے، درمے، سخنے حصہ ڈالا ہے، جنرل ضیاء کے دور میں تو مجھے اپنی جان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ مگر مشرف کے دور کی بابت بڑے اعتماد سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ اور ان کے قریبی لوگ بڑے خوش نصیب تھے۔ ہم جیسے کمی کمین صحافیوں کو کبھی پتہ ہی نہ چل پایا کہ ان کی حکومت میں ''کا م'' کیسے کرائے جاتے تھے۔ مگر جنہوں نے کرائے ابھی تک بڑی سکھی ہیں اور ہمارے آزاد اور بے باک میڈیا کو ان کے بارے میں ''ککھ'' بھی پتہ نہیں۔
میاں منظور وٹو کی بطور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر والی نامزدگی کے بارے میں صرف ایک فقرہ کافی ہو گا اور وہ یہ کہ ''سہاگن وہی جسے پیا چاہے۔'' اور آج کل جو ''پیا'' ہے اس نے ملا جلا کر 11 سال جیل میں گزارے ہیں۔ وہ ''جیالے'' جو ان دنوں آصف علی زرداری سے ملاقات کا تردد کیا کرتے تھے، ہم اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ ''پیا'' اس صنف کو خوب پہچانتا ہے۔ ویسے بھی اب وہ انتخابات لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور انھیں پتہ ہے کہ اگلا الیکشن ''جیالوں'' کے ذریعے نہیں ''برادریوں'' نے جیتنا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اور میاں منظور وٹو برادریوں کے ذریعے برپا کی جانے والی جنگوں کو خوب جانتے ہیں۔ ''پیا'' انھیں سہاگن بنائے رکھنے پر مجبور ہیں۔