سندھ میں پیپلزپارٹی کی مہم
شہری علاقوں کی نمایندہ جماعت کو اس نظام سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی نے نئے بلدیاتی نظام کی حمایت میں حیدرآباد میں زبردست جلسہ کیا، اس جلسے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، قائم علی شاہ اور دوسرے رہنمائوں نے خطاب کیا۔
جلسے کے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سندھ تقسیم نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے جیالے کارکن سندھ کے مفادات کا تحفظ کریں گے ۔ ان رہنمائوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بندوق کے زور پر کسی کو رائے مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ ملک اور سندھ میں چار سال سے زیادہ عرصے سے برسر اقتدار پیپلزپارٹی نے ایک ایسے وقت یہ جلسہ منعقد کیا جب قوم پرست دائیں بازو کی جماعتیں گزشتہ کئی ماہ سے بلدیاتی نظام کے خلاف ہڑتالیں کرر ہی ہیں اور ہر ہفتے احتجاج کے نام پر سندھ کے چھوٹے شہروں میں شٹر ڈائون ہڑتال ہوئی تھی، کچھ مظاہرین پولیس سے جھڑپوں میں ہلاک ہوگئے۔
پیپلزپارٹی کے وزرا اور اراکین اسمبلی کے گھروں پر چوڑیاں بھیجی جاتی ہیں اور سیاہ پرچم لگائے جاتے ہیں اور پھر وزرا کے گھروں پر دھماکے کرکے ایسی فضا پیدا کی جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ پورا سندھ پیپلزپارٹی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اگر چہ پیپلزپارٹی کے وزرا بلدیاتی قانون پر قوم پرست جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں مگر قوم پرست رہنما ان مذاکرات کے بارے میں کوئی مثبت رائے دینے کے بجائے سندھ کی تقسیم کی جذباتی نعرے سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس Sindh Peoples Local Government Ordinance 2012 گزشتہ ماہ جاری ہوا پھر سندھ اسمبلی کے اراکین کی اکثریت نے اس قانون کی منظوری دی۔ اس قانون کے ناقدین کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے نفاذ سے سندھ میں دہرا نظام نافذ ہو گیا ہے۔
شہری علاقوں کی نمایندہ جماعت کو اس نظام سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ ایک بڑے رہنما نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ مئیر کے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں آزادی صحافت کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ایک سینئر صحافی نے اردو کے ایک بڑے اخبار میں تحریر کیا کہ کراچی کے میئر کو پولیس کے نظم و نسق اور لامحدود مالیاتی اختیارات حاصل ہوئے ہیں۔ کچھ رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کمشنری نظام سندھ کے لیے زیادہ بہتر ہے، بلدیاتی نظام کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ اب اگر اس بلدیاتی نظام پر اعتراضات کی تصدیق کے لیے اس آرڈیننس کی شقوں کا جائزہ لیا جائے تو دوسری صورتحال نظر آتی ہے ۔
یہ آرڈیننس 9 ابواب پر مشتمل ہے، اس کا پہلا باب آرڈیننس کی تعریف اور اصطلاحات کی وضاحت تک محدود ہے، دوسرا باب لوکل ایریا اور لوکل کونسلز کے بارے میں ہے، تیسرا باب میٹروپولیٹن کارپوریشن، چوتھا باب میٹرو پولیٹن و ڈسٹرکٹ کونسل، پانچواں باب تعلقہ اور ٹائون میونسپل ایڈمنسٹریشن، چھٹا تعلقہ اور ٹائون کونسلز اور ساتواں باب یونین ایڈمنسٹریشن، آٹھواں باب حکومت اور بلدیاتی ادارے پر مشتمل ہے۔ اس قانون کے تحت سندھ میں 6 میونسپل کارپوریشن کراچی، حیدرآباد، میر پورخاص، خیر پور، سکھر، لاڑکانہ قائم کی گئی ہیں۔
اگر اس آرڈیننس کے تیسرے باب کی شق 16 کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کی یکساں ذمے داریاں ہیں۔ اس طرح شق 17 کے تحت میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے یکساں اختیارات ہیں۔ اس طرح شق 18 میں میئر اور چیئرمین کے اختیارات کی وضاحت کردی گئی ہے۔ ایک عام قاری بھی آرڈیننس کی ان دفعات کا جائزہ لے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ تمام میونسپل کارپوریشنوں کے میئر اور تمام ڈسٹرکٹ کونسلوں کے چیئرمین یکساں اختیارات کے حامل ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ محض مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے بعض قوم پرست رہنما صرف کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کے اختیارات کا ذکرتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے اس حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں کہ یہ اختیارات تو پورے سندھ کے منتخب میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئر مین کو حاصل ہوں گے۔ اس طرح ایک سینئر صحافی نے اس بات پر واویلا کیا کہ وزیر اعلیٰ میئر کے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دے سکے گا بلکہ وہ بلدیاتی کمیشن کی رائے کا محتاج ہوگا۔ بلدیاتی آرڈیننس کے باب حکومت کونسل تعلقات کی شق 145 کے تحت اس کمیشن کا چیئرمین وزیر بلدیات ہوگا۔
سندھ اسمبلی کے وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک فرد کو نامزد کریں گے۔ حکومت دو تجربے کار ٹیکنوکریٹس کو کمیشن کے ارکان کے طور پر نامزد کرے گی۔ سیکریٹری بلدیات کمیشن کے سیکریٹری ہوں گے، اس کمیشن میں صوبائی حکومت کے نامزد ارکان بھی شامل ہوں گے۔ کسی میئر یا چیئرمین کا کوئی فیصلہ غیر قانونی ہوا تو یہ کمیشن وزیراعلیٰ کو مناسب مشور ہ دے گا، ماہرین کی مشاورت سے بہتر فیصلے ہوسکتے ہیں۔ آرٹیکل 143 کے تحت وزیراعلیٰ ذاتی طور پر میئر اور چیئرمین کو ہدایات جاری کرے گا جن پر فوری عملدرآمد ہوگا۔
اس طرح صوبے میں انتظامی معاملات کی نگرانی کے لیے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر موجود ہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں پولیس کا محکمہ فرائض انجام دے گا۔ اس بلدیاتی قانون کے تحت تمام بلدیاتی اداروں کا آڈٹ ہوگا۔ آڈیٹر جنرل اور ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ کسی بھی ادارے کے آڈٹ کے احکامات جاری کرسکیں گے۔ میئر اور چیئرمین کی درخواست پر خصوصی آڈٹ بھی ہوسکے گا۔ اس طرح وزیراعلیٰ بلدیاتی اداروں کے مالیاتی معاملات کے لیے فنانس کمیشن قائم کرسکے گا۔ اس کمیشن کا سربراہ متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے مشاورت کے بعد وزیراعلیٰ کو مشورہ دے گا، اس کمیشن کا سربراہ وزیر خرانہ ہوگا۔ بلدیاتی آرڈیننس کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظام حکومت سندھ کی نگرانی میں کام کرے گا اور بلدیاتی ادارے صوبائی اسمبلی کے ماتحت ہوں گے مگر چونکہ بلدیاتی ادارے یونین کونسل اور تعلقہ کونسل کی سطح پر قائم کیے جائیں گے، اس بنا پر عوام کے بنیادی مسائل نچلی سطح پر حل ہوں گے۔
بلدیاتی اداروں، خواتین، اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں کی خصوصی طور پر نمایندگی دی گئی ہے، اس بنا پر پسماندہ طبقات اپنے نمایندوں کے ذریعے ترقی کے عمل سے منسلک ہوں گے۔ نچلی سطح پر منتخب اداروں کے قیام سے جمہوری رویے نچلی سطح سے پروان چڑھ سکیں گے، اس طرح نچلی سطح سے قیادت جمہوری عمل کے ذریعے ابھرے گی۔ اس نظام کی مخالفت کرنے والے جدید جمہوری نظام کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں، وہ گزشتہ صدی کے تصورات کی بنا پر محض صوبائی اور قومی اسمبلی کو ہی منتخب ایوان سمجھتے ہیں۔ ملک میں گزشتہ دو سال کے دوران آنے والے سیلابوں کے دوران یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں کو منتخب اراکین چلاتے رہتے تو امدادی کاموں میں آسانی ہوتی، منتخب بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کی بنا پر ریلیف ورک نہیں ہوسکا تھا۔
سندھ کے قوم پرست اگر سمجھتے ہیں کہ صوبے میں کسی قسم کا بلدیاتی نظام نہیں ہونا چاہیے تو انھیں اپنی پالیسی واضح کرنی چاہیے تاکہ عوام فیصلہ کرسکیں کہ منتخب بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوری نظام کا قیام ممکن ہے؟ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی کو اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ 1973 کے آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کا قیام ضروری ہے۔ اس آرڈیننس میں میئر اور چیئرپرسن کے خلاف عدم اعتماد کا طریقہ کار انتہائی مشکل ہے، اس شق کی تبدیلی پر غور ہوسکے گا، ایسا نظام پورے ملک کے لیے ضروری ہے۔ بہرحال پیپلزپارٹی نے بلدیاتی نظام کے بارے میں مہم شروع کرکے سندھ میں غیر یقینی کی فضا پیدا کرنے والوں کے عزائم کو ناکام بنادیا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خلیج کم ہورہی ہے۔ اس نظام کی مخالفت کرنے والوں کو حقائق مسخ کرنے کے بجائے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔