اے سی ڈی سربراہ کانفرنس
پاکستان اس ادارے کا بانی رکن ہے جب کہ کل اکتیس ایشیائی ممالک اس کی ر کنیت حاصل کر چکے ہیں۔
اس ماہ کے وسط میں کویت نے اے سی ڈی سمٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم پرویز اشرف نے ایک مختصر سے وفد کے ساتھ اس سمٹ میں شرکت کی۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اگلے سال پاکستان میں اس سمٹ کی میزبانی کی تجویز کی منظوری حاصل کر آئے ہیں۔ ایشیائی تعاون ڈائیلاگ کے نام سے اس ادارے کے قیام کے لیے دس سال قبل تھائی لینڈ میں ایشیائی وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں غور کیا گیا، اب تک اس کے وزرائے خارجہ کئی مرتبہ مل چکے ہیں، ایسا ایک اجلاس اسلام آباد میں بھی 2005ء میں منعقد ہو چکا ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی اس ادارے کی کارگزاری کا جائزہ لینے کے لیے سائیڈ لائن پر ملاقاتیں جاری رہتی ہیں۔
پاکستان اس ادارے کا بانی رکن ہے جب کہ کل اکتیس ایشیائی ممالک اس کی ر کنیت حاصل کر چکے ہیں۔ اے سی ڈی کا مقصد یہ ہے کہ بر اعظم ایشیا کو ایک واحد تنظیم کی لڑی میں پرویا جائے مگر یہ خیال رکھا جا رہا ہے کہ خطے میں پہلے سے موجود اداروں کے ساتھ نہ تو اس کا کوئی تصادم ہو، نہ یہ تنظیم ان سے مسابقت کا خیال ذہن میں لائے گی، اس وقت آسیان، شنگھائی تنظیم، آر سی ڈی، جی سی سی، ایکو اور سارک اپنی اپنی جگہ متحرک ہیں لیکن ان میں سے صرف جی سی سی، آسیان اور شنگھائی تنظیم ہی فعال کردار ادا کر رہی ہیں جب کہ آر سی ڈی، ایکو، اور سارک محض بحث مباحثے کا پلیٹ فارم ہیں اور یہاں گفتگو کو عملی شکل نہیں دی جاتی۔
اس لحاظ سے انھیں ڈیبیٹنگ کلب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے مقابلے میں یورپی یونین بے حد سرگرم کردار ادا کر ہی ہے اور نیٹو کے ممالک بھی ایک لڑی میں پروئے نظر آتے ہیں۔ ایشیائی خطے کی تاریخ بہت قدیم ہے، یہ خطہ اپنے ورثے پر فخر کر سکتا ہے مگر علاقے میں لاتعداد تنازعات ہیں، بد اعتمادی کی فضا میں قربت پیدا نہیں ہو سکی، لوگوں کو باہم ملاقات میں دشواریوں کا سامنا ہے اور تجارتی حجم میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پا رہا۔
کویت کے سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم پرویز اشرف نے کلیدی خطاب کیا اور باہمی تعاون کے حصول کے لیے کئی ایک تجاویز پیش کیں۔ سمٹ میں شرکت کے لیے وہ کویت پہنچے تو امیر کویت نے بذات خود ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا، یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو پاکستان کے حصے میں آیا۔ امیر کویت نے اپنے جانشین کے ہمراہ وزیراعظم پرویز اشرف سے الگ ملاقات بھی کی جس میں پاکستانی وفد کے ارکان بھی مدعو کیے گئے۔ وزیر اعظم کی ایک اہم ملاقات تھائی وزیر اعظم سے بھی ہوئی۔ تھائی لینڈ چونکہ اس ادارے کا محرک ہے، اس لیے دونوں راہنمائوں نے خطے کی ترقی و خوشحالی اور مشترکہ مسائل کے حل پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اعظم پرویز اشرف اور تھائی وزیر اعظم محترمہ ینگلک شناواترا نے اس امر پر اتفاق کیا کہ دونوں ملکوں کی وزارتی کانفرنس اگلے برس جنوری میں پاکستان میں منعقد کی جائے تا کہ دو طرفہ امور میں حائل مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے، تھائی وزیر اعظم نے شکریہ ادا کیا کہ شہزادی ماہا چکری شرندھورن کے دورہ پاکستان میں ان کو بے حد احترام دیا گیا۔ تھائی وزیر اعظم نے اس امر پر بھی شکریہ ادا کیا کہ ساٹھ سال قبل پاکستان نے گوتم بدھ کی مقدس نشانیاں تھائی لینڈ کو تحفہ میں پیش کی تھیں۔
وزیر اعظم پرویز اشرف نے تھائی ہم منصب کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جسے شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ اس دورے کی تاریخ باہمی مشاورت سے طے کی جائے گی۔ تھائی وزیر اعظم نے اس امر پر بھی پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے او آئی سی میں تھائی لینڈ کو خوش آمدید کہا ہے۔ تھائی وزیر اعظم نے دونوں ملکوں کو درپیش غربت کے مسئلے پر بھی بات چیت کی جس پر وزیر اعظم پرویز اشرف نے بتایا کہ پاکستان اس سلسلے میں بے نظیر انکم سپورٹ کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور تھائی لینڈ بھی اس ماڈل کو کامیابی سے اپنا سکتا ہے۔
جہاں تک پاک کویت تعلقات کا معاملہ ہے تو دونوں ملک اس پر فخر کر سکتے ہیں۔ کویت پر عراقی جارحیت اور قبضے کے دوران پاکستان نے کویت کے لیے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے دونوں ملکوں کی قربت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کویت میں اس وقت ایک لاکھ بیس ہزار پاکستانی ہنر مند، ڈاکٹر، انجینئر، استاد اور مزدور کام کر رہے ہیں اور کویت کی ترقی و تعمیر میں ان کے کردار کی ہر کوئی ستائش کرتا ہے، وزیر اعظم نے امیر کویت کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جسے انھوں نے منظور کر لیا، جناب پرویز اشرف نے کویت کے لیے ویزوں کے حصول میں مشکلات کا معاملہ بھی اٹھایا جس پر امیر کویت نے وعدہ کیا کہ وہ آسانیاں بہم پہنچانے کے لیے ضروری احکامات جاری کریں گے۔ امیر کویت نے پاکستانی سفارت خانے کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے قطعہ زمین بھی عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ کویت اور پاکستان کے درمیان اس وقت ڈھائی بلین ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جس میں اضافہ کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا۔
جہاں تک سمٹ کی کاروائی کا تعلق ہے، اس کی بہت سی تفصیلات میڈیا میں آ چکی ہیں، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اس سمٹ کو خطے کے مستقبل کے لیے سنگ میل قرار دیا۔ پچھلے دس برس میں اس کی وزارتی سطح پر میٹنگیں جاری ہیں، کویت میں پہلی سمٹ منعقد ہوئی ہے جو اس تنظیم کو نئی رفعتوں سے آشنا کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ وزیر اعظم اشرف نے کہا کہ آج کی دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے اور کسی ملک کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ تن تنہا اپنے مصائب سے نبٹے یا خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو جائے، اس کے لیے باہمی تعاون لازم ہے۔
ایشائی ممالک گوناں گوں مسائل سے دو چار ہیں جن میں بد امنی، دہشت گردی، غربت اور جہالت سر فہرست ہیں۔ ان کا حل صرف اسی صورت میں تلاش کیا جا سکتا ہے جب تمام ممالک اپنے اپنے تجربے سے دوسرے ممالک کو مستفید کریں اور معلومات اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کریں۔ کوئی ملک اکیلا اپنی تقدیر بدلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ایک دوسرے پر انحصار لازمی ہے۔ حالیہ سمٹ کی روشنی میں توقع ہے کہ اب عملی اقدامات کی طرف پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔
پاکستان کے سیاسی اور حکومتی حالات میں قدرے ٹھہرائو کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ ایک ہی وقت میں صدر اور وزیر اعظم نے بیرونی دورے کیے ہیں اور ملک میں کسی طرف سے یہ شور بلند نہیں ہوا کہ یہ صاحبان اپنے عوام کو دہشت گردی یا سیلاب کی آفت میں مبتلا چھوڑ کر اللے تللے کرتے پھرتے ہیں، اب قوم میں ایک بلوغت پید ا ہو چکی ہے۔ ہر شخص مثبت انداز فکر اپنانے پر مجبور ہے اور ساری نظریں مستقبل پر مرکوز ہیں جب اگلے الیکشن کے ذریعے انتقال اقتدار کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گا۔