خوشنما زہر۔۔۔ گھوڑے گدھے اور کتے کے بعد اب ’’سور‘‘

ہم اپنے ہاتھوں سے یہ زہر اندر اتار رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔

حالیہ کارروائیوں کے ذریعے عوام کو علم ہوگیا ہے کہ کس خوبصورت پیکنگ میں اُن کو زہر پیش کیا جا رہا ہے۔

محترمہ عائشہ ممتاز صاحبہ عرف ''دبنگ لیڈی'' ان دنوں شہ سرخیوں میں ہیں۔ وجہ ان کا ذمہ دارانہ کام ہے۔ وہ اپنے کام کو نا صرف بہترین طور پر سرانجام دے رہی ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں گھر بھی کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے مفاد پرست ٹولے کا چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کررہی ہیں جو انسانی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ ایک خاتون کے لیے اس درجہ جرات کا مظاہرہ کرنا ہرگز بھی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں دو نمبر کام کرنے والوں کی پشت پر کچھ ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں جن کی پہنچ ایوان اقتدار کی راہداریوں تک ہوتی ہے۔

عائشہ ممتاز صاحبہ اِس وقت ایک نہایت ہی مثبت شناخت قائم کرچکی ہیں۔ بطور ڈارایکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی اُن کے اقدامات کے متعرف ان کے مخالفین بھی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی بڑے ناموں کو بھی نہیں بخشا اور انتہائی خوشگوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ حکومتی عہدیداروں سے جس حد تک بھی ان کا واسطہ پڑ رہا ہے وہ بھی ان سے ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ اس کی مثال ڈی سی او راولپنڈی کے اقدامات ہیں۔ انہوں نے عائشہ ممتاز صاحبہ کے شروع کیے گئے کام کو تقویت دیتے ہوئے راولپنڈی میں چند بڑے ناموں کو ناقص صفائی کی بنیاد پر سیل کردیا۔ ان اقدامات کے بعد چند بڑے نام رکھنے والے آؤٹ لیٹس نے نہ صرف باقاعدہ لوگوں کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا بلکہ مستقبل میں ان کوتاہیوں کا خیال رکھنے کا اعادہ بھی کیا۔



ڈی سی او راولپنڈی کے اقدامات کے بعد یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ ان کے حوصلے جواں ہیں۔ کیوںکہ انہوں نے حقائق عوام کے سامنے لانے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس سے عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ کس طرح اُن کو خوبصورت پیکنگ میں زہر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک مثبت تبدیلی یہ بھی محسوس کی گئی ہے کہ ان تمام اقدامات کو سوشل میڈیا پر عام کردیا گیا۔ یعنی عوام کے سامنے تصاویر کی صورت میں ثبوت پیش کردئیے گئے ہیں کہ کسی کو یہ گلہ نہ رہے کہ ان اقدامات میں کسی بھی قسم کی جانبداری ہے۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر اور ڈی سی او راولپنڈی کے مختلف مقامات پر چھاپے اور اعلیٰ برانڈز کو سیل کرنے سے ایک خوفناک حقیقت سامنے آئی کہ زہر کو کس قدر آسانی اور خوبصورت انداز میں ہمارے جسموں میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں سے یہ زہر اپنے اندر اتار رہے ہیں جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ جب کسی بیماری کے علاج کے دوران ڈاکٹر باہر کے کھانے سے منع کرتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ بھلا بیماری کا باہر کے کھانے سے کیا تعلق؟ مگر اب اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ زہر کی فروخت تو ہر شاہراہ، ہر گلی، ہر محلے میں دھڑلے سے جاری ہے۔

ابھی گذشتہ روز ہی یہ خوفناک خبر سامنے آئی کہ راولپنڈی سے کئی من سور کا گوشت لاہور پہنچایا گیا تھا اور خوش قسمتی سے فوری طور پر کاروائی عمل میں آئی اور وہ پکڑا گیا۔ استغفر اللہ ۔۔۔۔ بطور قوم ہم کس درجہ تنزلی کا شکار ہیں۔ گدھوں کا گوشت تو ہماری خوراک کا اس تواتر سے حصہ بن گیا کہ گدھوں کی سی صفات ہم میں آگئیں۔ لیکن اب تو سوچ کے ابکائیاں آتی ہیں کہ نہ جانے کس کس حرام جانور کا گوشت ہمیں کھلایا جا رہا ہے۔ چند ہزار جرمانہ یقیناً بڑے ناموں کے ایک دن کی کمائی ہے۔ اس مہم کا حقیقی فائدہ اسی صورت ہوگا کہ مستقل بنیادوں پر معیار بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور ان بڑے ناموں کے علاوہ گلی محلوں میں بکھرے زہر بیچتے ٹھیلوں، چھوٹے ریستورانوں اور بے نام دکانوں کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔ محض پنجاب فوڈ اتھارٹی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں اس طرح کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہر صوبے کو اپنی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔




بات چاہے گدھے کے گوشت کی ہو، گھوڑے کے گوشت کی، کتے کے گوشت کی یا سور کے گوشت کی، ہمیں یہ حقیقت اُسی وقت معلوم ہورہی ہے جب اِن ظالموں کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن بقیہ ماندہ صوبوں میں تو ایسا کچھ نہیں ہورہا تو یعنی اِن صوبوں میں اب بھی لوگوں کو زہر کھلایا جارہا ہے۔ اِس لیے یہ معاملہ انفرادی سطح پر ہونے والی کارروائیوں سے ختم نہیں ہوگا۔ بلکہ تمام ہی صوبوں کو حرکت میں آنا ہوگا اور مشترکہ طور پر زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی ہوگی کیونکہ جو لوگ بھی یہ گندا کاروبار کررہے ہیں یقینی طور پر اِن کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر آج پنجاب میں کارروائی کر بھی لی گئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بقیہ ماندہ ملک میں تو یہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوںگے۔

اِس لیے وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ فوری طور پر حرام گوشت بیچنے والوں کے نیٹ ورک کو توڑا جائے بس اِسی صورت وطن عزیز سے گندے کھیل کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح اب عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام کام اداروں پر چھوڑنے کے بجائے خود بھی ایسے عناصر کی نشاندہی کریں جو عوام میں زہر بانٹ رہے ہیں۔ کیوںکہ صحت مند اور توانا پاکستان کی تعمیر کے لیے عوام کا کردار یقینا سب سے اہم ہے۔

[poll id="639"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story