بچوں کےادب پر توجہ کون دے گا

پاکستان میں بچوں کا رسالہ نکالنا جان جوکھوں کاکام ہے کیونکہ یہاں جتنےبڑے رسائل ہیں ان میں سےشاید ہی کوئی منافع میں ہو۔


بچوں کے لیے لکھنے والوں کو کچھ ملتا ہی نہیں ہے اس لیے عملی طور پر کوئی لکھاری اس سلسلے کو مستقل بنیادوں پر جاری نہیں رکھتا۔

آپ پاکستان کے تمام بڑے مصنفین، ناول نگار، افسانہ نگار وغیرہ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ ان میں سے کتنے فیصد لوگ بچوں کے لیے لکھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی فرد ایسا ملے جو بڑوں کے لیے دھڑا دھڑ افسانے، نظمیں، ناول لکھنے کے علاوہ بچوں کے لیے بھی لکھ رہا ہو، ہر بڑا ادیب اپنے سفر کا آغاز بچوں سے کرتا ہے وہ ابتداء میں بچوں کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ پھر کہانیاں لکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ جب قلم پر اس کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے تو وہ بچوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی مصروفیات بڑھ جاتی ہے اور اس لیے لکھنے کے لیے وقت نکالنا ایک خواب ہے یا پھر کسی فارغ شخص کا خیال۔

دنیا بھر میں ترقی یافتہ قومیں ہوں یا ترقی پذیر ممالک، وہ اپنے بچوں کی تعلیم، تربیت اور تفریح کے لیے سامان مہیا کرتے ہیں۔ وہ کم از کم بچوں کو تفریح و تربیت بہم پہنچانے والی چیزوں میں منافع پر سارا زور نہیں لگاتے۔ وہ بچوں کے لیے ناول لکھتے ہیں۔ ڈرامے بناتے ہیں۔ فلموں پر کام کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں بچوں کے لیے سب سے زیادہ کام مغرب میں ہورہا ہے۔ جب بھی مغرب کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ بھنوئیں اُچکاتے ہیں کہ یہ تو بہت زیادہ ترقی یافتہ ممالک ہیں، اگر مثال دینی ہے تو اپنے جیسے ملک کی پیش کی جائے۔ تو ایسے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ ہمارے پڑوس میں بھارت بھی ہے۔ جسے روز بُرا بھلا کہتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں لیکن یہاں بچوں پر مختلف ادارے کام کررہے ہیں۔ بھارتی مذہبی عقائد کی ترویج، تاریخ اور معاشرتی اقدار کارٹونز کے ذریعے اپنے بچوں تک منتقل کر رہے ہیں۔ وہ ان سے منافع نہیں کماتے بلکہ خسارے میں رہتے ہوئے بھی دل لگی سے کام کررہے ہیں۔

پاکستان میں بچوں کا رسالہ نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ منافع کمانے کی سوچ رکھنے والے بچوں کا رسالہ نہیں نکالتے، جو لوگ نکالتے ہیں وہ بند بھی فوراً کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے جتنے بڑے رسائل موجود ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی رسالہ منافع میں ہو، حکومتی سرپرستی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کو کچھ ملتا ہی نہیں ہے اس لیے عملی طور پر کوئی لکھاری اس سلسلے کو مستقل بنیادوں پر جاری نہیں رکھتا۔ بہت اچھا لکھنے والے قلمکار اچانک غائب ہوجاتے ہیں اور پھر ڈھونڈو نہیں ملتے۔ حکومتی عدم توجہی، بڑے قلمکاروں کا بچوں کے لیے لکھنے سے اجتناب برتنا اور جو رہے سہے رسائل شائع بھی ہوتے ہیں والدین کا خریدنے کے معاملے میں عدم دلچسپی لینا، ان تمام معاملات کے سوا بھی بے شمار دیگر وجوہات ہیں جس کی وجہ سے بچہ کہانی سے دور ہوگیا ہے۔

کہانی کے کچھ اصلاحی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ ان رسالوں میں شائع ہونے والی تحریروں اور کہانیوں میں پوشیدہ سچ، جھوٹ سے نفرت، شرم و حیا، محبت، ایماندار، حسد سے بچنا، چغل خوری سے پرہیز، ہمت، بہادری جیسے اوصاف بچے میں بنا کہانی کے پیدا ہونا مشکل ہے۔ صحیح کہوں تو ناممکن ہے۔ کیا آپ آج معاشرے کو نہیں دیکھتے، نوجوان کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اس کے تیور خراب کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟ کبھی اس سے پوچھیے کہ بچپن میں کہانیاں پڑھی ہیں؟ ٹھک سے جواب آئے گا نہیں، ہاتھ میں تو اب اسمارٹ فون آگیا ہے، اب کہانیاں پڑھنے اور سننے کا وقت کہاں سے آئے گا؟ کیا قصور بچوں کا ہے؟

قصور واقعے کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں نہیں معلوم، لیکن میری رائے کچھ یوں ہے کہ مانا یہ انسانیت سوز حرکت بڑوں نے بچوں کے ساتھ کی لیکن بچے کو اس گھناؤنے کام سے بچنے کا شعور کیوں نہیں آیا؟ کیوںکہ اس کے شعور کو محدود کردیا گیا ہے۔ وہ سرسری سوچتا ہے کیوںکہ اسے سرسری سوچ پر مجبور کیا گیا ہے۔ دادی اماں کی کہانی یا پھر رسائل اور کتابوں میں پڑھی گئی کہانیاں قصے ادب اور شعور بخشتے ہیں۔ عقل کو تھوڑا بلند کرتے ہیں، برائی اور نیکی کا فرق سمجھاتے ہیں اور اسی شعور اور بیداری کی ضرورت کے پیش نظر بچوں کا ادب تخلیق کیا جاتا ہے تاکہ ایک ایسی عقل و شعور پر مبنی معاشرہ تشکیل پاسکے جو اعلیٰ انسانی اقدار و اصناف پر مشتمل ہو۔

[poll id="647"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں