جنگِ ستمبر کا پیغام اور نواز شریف کا عزم

یہ دراصل 65ء کی جنگِ ستمبر کے ولولوں اور قومی یک جہتی کا دوسرا جنم ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid September 04, 2015
[email protected]

پچاس برس قبل پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے دانت کھٹے کرنے کا آج ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری افواج، ہمارے عوام اور ہمارے حکمران، پاکستان کے ہر خطّے میں، خصوصاً فاٹا اور کراچی میں، بھارت کی ہر شکل میں مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

65ء کی جنگ ستمبر کا ایک پیغام آج یہ بھی ہے کہ کراچی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں، دہشت گردی اور ہر قسم کے مافیاز کو جڑ سے اکھاڑ کر دشمن کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ستمبر 65ء کو بھی دشمن کی چالوں سے با خبر تھے اور آج ستمبر 2015ء میں بھی دشمنانِ پاکستان کی وارداتوں سے بے خبر نہیں۔ ضربِ عضب آپریشن کو جنگِ ستمبر کا تسلسل کہنا بے جا نہ ہو گا۔

فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے مختلف حصوں میں ہماری فورسز جس طرح بروے عمل ہیں اور قربانیوں اور کامیابیوں کی جو مثالیں قائم کر رہی ہیں، یہ اس امر کا اظہار ہے کہ شریف نام کی ہماری دونوں معزز و مقتدر شخصیات ہم آہنگ بھی ہیں اور ایک ہی صفحے پر بھی۔ بعض سیاسی عناصر اس ہم آہنگی کو غبار آلود کرنا چاہتے ہیں لیکن کامیابی ان کا مقدر نہیں بن پا رہی۔ حال ہی میں امریکی نیشنل سیکیورٹی کی ایڈوائزر سوزن رائس نے بھی پاکستان آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن لیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور بھارتی عزائم کے خلاف کیسے تیور رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارت اور دہشت گردی ایک ہی سکے کے دو رخ اختیار کر چکے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں رینجرز اور پولیس کی بجا طور پر تعریف کی ہے کہ ان کی شب و روز کی محنتوں اور قربانیوں سے کراچی اور اس کے مضافات میں خوف، دہشت گردی اور بدامنی کی فضا میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم نے کراچی میں تعینات رینجرز اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کو مبارکباد بھی دی ہے۔

بھارت برہنہ طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں جس طرح مداخلت کرتے ہوئے پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی قابلِ مذمت کوششیں کر رہا ہے، اس پس منظر میں میاں صاحب کا مستحکم لہجے اور مصمم ارادے کے ساتھ یہ بیان دینا کہ کراچی میں آپریشن کسی قیمت پر بند نہیں ہو گا، اس امر کا مظہر ہے کہ وہ سندھ کے مخصوص سیاسی حالات کے باوصف پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو ہر صورت میں محفوظ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کو رواں لمحوں میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے ان کی دیرینہ اور بجا خواہش کے باوجود میاں صاحب بھارتی شیطانیوں اور شرارتوں سے کامل آگاہی حاصل کر چکے ہیں۔ اب تو بھارتی مداخلتوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت بھی تسلیم کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر جناب خورشید شاہ کا یہ کہنا کہ رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے میں ''را'' ملوث ہے۔

یہ اتفاق ہے کہ کراچی میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے رینجرز اور پولیس کو شاباش دینے سے صرف دو تین دن قبل پاکستان کے ایک معتبر ادارے نے یہ سروے شایع کیا تھا کہ کراچی میں رینجرز کے آپریشنوں کی وجہ سے جرائم اور بدامنی میں خاصی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ ''گیلپ پاکستان'' کی طرف سے کراچی میں رینجرز آپریشن کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے نتائج کا اعلان واضح کرتا ہے کہ پاکستان کے اکہتر فیصد شہریوں کا یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں اور آپریشنوں کی وجہ سے جرائم کا گراف خاصی حد تک نیچے گرا ہے۔

یہ اسٹڈی ''گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن'' کی طرف سے جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان بھر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 1727 خواتین و حضرات سے کراچی میں رینجرز آپریشن کے بارے میں تین سوالات پوچھے گئے تھے۔ اس سروے کے پیشِ منظر میں بھی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کراچی رینجرز آپریشن اور پولیس کو دی جانے والی تحسین سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ شر انگیز اور مفسد قوتیں خواہ کچھ بھی کہتی رہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مصمم اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ کراچی کو امن و سکون اور جرائم سے پاک شہر بنانے کا عہد کر چکے ہیں۔

سپہ سالارِ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف غیر متزلزل عزم بھی وزیر اعظم کا سرمایہ ہے۔ اگست 2015ء کے آخری ہفتے جنرل راحیل شریف کا یہ بیان کہ کراچی میں دہشت گردوں اور کرپٹ مافیاز کا گٹھ جوڑ توڑا جائے، اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کراچی کو امن کا مرکز بنانے کے لیے پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت یک زبان، یک جہت اور یک سُو ہو چکی ہے۔

اب کوئی سیاسی اور وقتی مفاد مذکورہ قیادت کے اندازِ فکر و عمل میں رخنہ ڈال سکتا ہے نہ اس سے انحراف کرنا ممکن ہے۔ یک جہتیٔ عمل کا یہ اظہار دشمنانِ پاکستان، خواہ وہ جہاں بھی ہیں، پر بھی عیاں ہو چکا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کے اقدامات کا ہم نظر آ رہا ہے۔ یہ دراصل 65ء کی جنگِ ستمبر کے ولولوں اور قومی یک جہتی کا دوسرا جنم ہے۔

مارچ 2015ء کے دوسرے ہفتے کی ایک شب جب رینجرز نے کراچی کے ایک مخصوص مقام پر چھاپہ مارا تو اسے سند ھ کی سیاست کا ایک اہم واقعہ قرار دیا گیا۔ یہ چھاپہ نہایت حساسیت کا بھی حامل تھالیکن کراچی کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہو گئے تھے کہ سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نزدیک یہ اقدام نہایت ناگزیر ہو گیا تھا۔ رینجرز کے چھاپوں کو مگر عوام کی طرف سے تائید ملی ہے کہ کراچی ایسے عظیم شہر کو بدامنی، دہشت گردی، خونریزی، اغوا کاری اور بھتہ خوری ایسی لعنتوں سے نجات دلانے کے لیے ایسا قدم اٹھانا ضروری ہو گیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی رینجرز کے ہم قدم نظر آ رہے ہیں۔ کراچی میں رینجرز نے جتنے بھی آپریشن کیے ہیں، یہ دراصل برائی کے خلاف فوج اور سویلین منتخب قیادت کا ایک ہی صفحے پر ہونے کی دلیل ہے۔ اگر چیف ایگزیکٹو آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف اس ضمن میں ایک ہی پیج پر نہ ہوتے تو جون 2015ء کے تیسرے ہفتے بڑے میاں اور جناب زرداری کی ملاقات ضرور ہوتی لیکن قوم، وطن اور عسکری اداروں کی یک جہتی اور وسیع تر مفاد میں وزیر اعظم نے دانشمندی سے سابق صدر کو ملنے سے انکار کر دیا۔

(یہ علیحدہ بات ہے کہ اب جناب زرداری اندازِ دِگر نواز شریف سے شکوہ کناں ہوئے ہیں) نواز شریف نے حکمت سے کام لے کر اپنا وزن پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ رینجرز نے پاکستان، خصوصاً کراچی کے تحفظ و امن کی خاطر کراچی کی ایک مذہبی تحریک کے خلاف بھی قدم اٹھایا ہے۔

اس تحریک کے سربراہ اور ان کے اہم ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ( اور بعد ازاں پوچھ گچھ کے بعد عزت سے گھر بھیج دیا گیا) رینجرز کا استقامت کے ساتھ ایسا قدم اٹھانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ رینجرز فورس کراچی میں دیگر کئی مذہبی جماعتوں کے خلاف بھی احتساب کا دائرہ وسیع کرنے والی ہے۔ لیکن حکومت خاصی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ میاں صاحب نہیں چاہتے کہ بلا وجہ مذہبی جماعتوں کی ناراضی مول لی جائے۔ اسلام آباد میں وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں بھی وزیر اعظم کی اس خواہش کا عکس نظر آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں