روشن پاکستان اب خواب نہیں حقیقت
جس کے بہت اچھے نتائج آئے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لینا شروع کردیا ہے
KARACHI:
بلاشبہ اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ خفیہ دشمن برسوں سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائی کرکے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا رہا ہے۔
لیکن اس وقت دہشتگردی ناقابل برداشت ہوگئی۔ جب16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی، اس واقعے پر فوج اور حکومت سمیت پوری قوم تڑپ اٹھی اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملکی قیادت نے قومی ایکشن پلان ترتیب دیا۔ دہشت گردی کے خلاف ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ لائحہ عمل پر حکومت کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ فوجی عدالتوں کا قیام قومی ایکشن پلان کا ہی حصہ تھا۔
لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ سیاسی قیادت کی جانب سے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دینے کے لیے جب حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کا فیصلہ کیا گیا تو ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔
7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم اور21 ویں آئینی ترمیم کے بلوں کی منظوری دیدی۔ یہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کی سیاسی قابلیت اور بصیرت کا نتیجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے ملک کے اہم مسائل میں مشاورت سے حکومت کے ساتھ اہم فیصلے کیے ہیں اور تمام پارٹیوں کی طرف وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت میں فوری فیصلے کیے گئے جو ملک کے لیے نیک شگون ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کسی رکن نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کے بعد اس کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔
12اپریل 2015 کو آرمی چیف نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 6 دہشتگردوں کو دی گئی سزائے موت کی توثیق کردی۔ 16 اپریل کو سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست کی سماعت کے لیے منظورکی اور فوجی عدالتوں کی سزائیں معطل کردیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت فوجی عدالتوں کی طرف سے سزا پانے والے مجرموں کو اپیل کرنے کا موقع میسر آیا اور آئین میں تبدیلی کے لیے 19 اپریل 2010 میں منظوری دی گئی۔ 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں اور 21 ویں آئینی ترمیم اورآرمی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف 31 درخواستوں کی سماعت کے لیے 17 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔ ان درخواستوں میں 16، 18 ویں آئینی ترمیم جب کہ 15 درخواستیں 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئیں۔ ان درخواستوں کی سماعت تقریباً 5 ماہ جاری رہی۔ جس کے بعد عدالت نے 26 جون کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اور 5 اگست آئینی ترمیم کے خلاف تمام درخواستوں پر کثرت رائے سے فیصلہ کرکے خارج کردیا گیا۔ 17 رکنی فل کورٹ کے 14 ججوں نے حمایت میں اور 3 نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔ 5 اگست 2015 کو 902 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سامنے آچکا ہے اکثریتی فیصلے میں 21 ویں آئینی ترمیم کو جائز قرار دے کر فوجی عدالتوں کو بحال کردیا گیا ہے۔ جن کی مدت ترمیم کے تحت 2 سال ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کو سراہا ہے، بلاشبہ یہ خوش آیند ہے اور اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اس کی حمایت نہایت بامعنی امر ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے البتہ بعض سیاسی حلقوں نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ اور اسے نظریہ ضرورت کے زندہ ہونے کے مترادف قرار دیا ہے، لیکن پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کئی برسوں سے پاکستان کے حالات کیسے رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ہمارا عدالتی نظام عوام کی ضروریات اور عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے باب میں قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ کیونکہ مروجہ عدالتی نظام میں انصاف کا حصول انتہائی صبر آزما عمل تھا۔ یہ امر بھی تشویشناک رہا کہ دہشتگرد کوئی عام مجرم نہیں۔ ان کے سیاہ کرتوت نہ صرف معاشرے بلکہ پوری انسانیت کے لیے باعث شرم ہیں۔ پھر جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو پوری قوم دہشتگردوں کے خلاف متحد ہوگئی اور اس نے فوری طور پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اس موقعے پر سیاسی و فوجی قیادت نے قوم کو مایوس نہیں کیا اور جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع کر کے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی۔ بعض سیاسی ماہرین نے اس فیصلے پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سیاسی قانون سازی اختیار عدالت عظمیٰ کے پاس نہیں ہے بلکہ عوامی نمایندوں کے پاس ہے۔
پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ فورم ہے اس لیے وہ ایسی قانون سازی کرتی ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ ملک کو شدت پسندی کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں ملکی بقا کے لیے بہت سے ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں جو عام حالات میں نہیں کیے جاتے۔ وطن عزیز میں یہ چھٹا موقع ہے جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں لیکن اس بار فوجی عدالتوں کا قیام ماضی سے یکسر مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ موجودہ فوجی عدالتوں کا قیام سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے عمل میں لایا گیا ہے ان فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھی عوامی نمایندوں کی مشاورت سے قائم ہونے والی عدالتوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ فوجی عدالتیں دیگر ملکوں میں بھی ان کے حالات کے اعتبار سے قائم کی جاتی ہیں اور ماضی میں پاکستان میں بھی فوجی عدالتیں کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس بار یہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات حکومت، فوج، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی تائید سے کیے گئے ہیں۔ فوجی عدالتیں 2 سال کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد برق رفتاری سے ان عدالتوں کو قائم کیا جائے ان میں مسلسل مقدمات بھیجے جائیں اور سزاؤں پر فوری عمل کیا جائے۔
تاکہ یہ عدالتیں اپنی آئینی مدت میں ہی دہشتگردی کے ملزموں کو قرار واقعہ سزا سنا سکیں۔ اب ہمارے پاس ضایع کرنے کے لیے بالکل وقت نہیں ہے۔فوجی عدالتوں کی طرف سے عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ پشاور سانحہ کے چھ ملزمان اور صفورہ سانحہ کے ایک ملزم سمیت سات ملزموں کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے جب کہ ایک کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے جسکی آرمی جنرل چیف راحیل شریف نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی ہے۔
اور پاک فوج کی طرف کامیاب ضرب عضب آپریشن آخری مراحل میں ہے اور دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور دہشتگرد اپنی بزدلانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں امن و امان کی حالت بہتر ہوئی ہے اور اس سے ملک کے معاشی حالات تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس پر تبصرے ہورہے ہیں رینجرز کی جانب سے کراچی کا ٹارگٹ آپریشن جاری ہے ، جس کے بہت اچھے نتائج آئے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لینا شروع کردیا ہے۔
بلاشبہ اس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ خفیہ دشمن برسوں سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائی کرکے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا رہا ہے۔
لیکن اس وقت دہشتگردی ناقابل برداشت ہوگئی۔ جب16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی، اس واقعے پر فوج اور حکومت سمیت پوری قوم تڑپ اٹھی اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملکی قیادت نے قومی ایکشن پلان ترتیب دیا۔ دہشت گردی کے خلاف ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ لائحہ عمل پر حکومت کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ فوجی عدالتوں کا قیام قومی ایکشن پلان کا ہی حصہ تھا۔
لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ سیاسی قیادت کی جانب سے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دینے کے لیے جب حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کا فیصلہ کیا گیا تو ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔
7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم اور21 ویں آئینی ترمیم کے بلوں کی منظوری دیدی۔ یہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کی سیاسی قابلیت اور بصیرت کا نتیجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے ملک کے اہم مسائل میں مشاورت سے حکومت کے ساتھ اہم فیصلے کیے ہیں اور تمام پارٹیوں کی طرف وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت میں فوری فیصلے کیے گئے جو ملک کے لیے نیک شگون ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کسی رکن نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کے بعد اس کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔
12اپریل 2015 کو آرمی چیف نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 6 دہشتگردوں کو دی گئی سزائے موت کی توثیق کردی۔ 16 اپریل کو سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست کی سماعت کے لیے منظورکی اور فوجی عدالتوں کی سزائیں معطل کردیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت فوجی عدالتوں کی طرف سے سزا پانے والے مجرموں کو اپیل کرنے کا موقع میسر آیا اور آئین میں تبدیلی کے لیے 19 اپریل 2010 میں منظوری دی گئی۔ 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں اور 21 ویں آئینی ترمیم اورآرمی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف 31 درخواستوں کی سماعت کے لیے 17 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔ ان درخواستوں میں 16، 18 ویں آئینی ترمیم جب کہ 15 درخواستیں 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئیں۔ ان درخواستوں کی سماعت تقریباً 5 ماہ جاری رہی۔ جس کے بعد عدالت نے 26 جون کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اور 5 اگست آئینی ترمیم کے خلاف تمام درخواستوں پر کثرت رائے سے فیصلہ کرکے خارج کردیا گیا۔ 17 رکنی فل کورٹ کے 14 ججوں نے حمایت میں اور 3 نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔ 5 اگست 2015 کو 902 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سامنے آچکا ہے اکثریتی فیصلے میں 21 ویں آئینی ترمیم کو جائز قرار دے کر فوجی عدالتوں کو بحال کردیا گیا ہے۔ جن کی مدت ترمیم کے تحت 2 سال ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کو سراہا ہے، بلاشبہ یہ خوش آیند ہے اور اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اس کی حمایت نہایت بامعنی امر ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے البتہ بعض سیاسی حلقوں نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ اور اسے نظریہ ضرورت کے زندہ ہونے کے مترادف قرار دیا ہے، لیکن پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کئی برسوں سے پاکستان کے حالات کیسے رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ہمارا عدالتی نظام عوام کی ضروریات اور عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے باب میں قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ کیونکہ مروجہ عدالتی نظام میں انصاف کا حصول انتہائی صبر آزما عمل تھا۔ یہ امر بھی تشویشناک رہا کہ دہشتگرد کوئی عام مجرم نہیں۔ ان کے سیاہ کرتوت نہ صرف معاشرے بلکہ پوری انسانیت کے لیے باعث شرم ہیں۔ پھر جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو پوری قوم دہشتگردوں کے خلاف متحد ہوگئی اور اس نے فوری طور پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اس موقعے پر سیاسی و فوجی قیادت نے قوم کو مایوس نہیں کیا اور جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع کر کے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی۔ بعض سیاسی ماہرین نے اس فیصلے پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سیاسی قانون سازی اختیار عدالت عظمیٰ کے پاس نہیں ہے بلکہ عوامی نمایندوں کے پاس ہے۔
پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ فورم ہے اس لیے وہ ایسی قانون سازی کرتی ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ ملک کو شدت پسندی کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں ملکی بقا کے لیے بہت سے ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں جو عام حالات میں نہیں کیے جاتے۔ وطن عزیز میں یہ چھٹا موقع ہے جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں لیکن اس بار فوجی عدالتوں کا قیام ماضی سے یکسر مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ موجودہ فوجی عدالتوں کا قیام سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے عمل میں لایا گیا ہے ان فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھی عوامی نمایندوں کی مشاورت سے قائم ہونے والی عدالتوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ فوجی عدالتیں دیگر ملکوں میں بھی ان کے حالات کے اعتبار سے قائم کی جاتی ہیں اور ماضی میں پاکستان میں بھی فوجی عدالتیں کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس بار یہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات حکومت، فوج، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی تائید سے کیے گئے ہیں۔ فوجی عدالتیں 2 سال کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد برق رفتاری سے ان عدالتوں کو قائم کیا جائے ان میں مسلسل مقدمات بھیجے جائیں اور سزاؤں پر فوری عمل کیا جائے۔
تاکہ یہ عدالتیں اپنی آئینی مدت میں ہی دہشتگردی کے ملزموں کو قرار واقعہ سزا سنا سکیں۔ اب ہمارے پاس ضایع کرنے کے لیے بالکل وقت نہیں ہے۔فوجی عدالتوں کی طرف سے عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ پشاور سانحہ کے چھ ملزمان اور صفورہ سانحہ کے ایک ملزم سمیت سات ملزموں کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے جب کہ ایک کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے جسکی آرمی جنرل چیف راحیل شریف نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی ہے۔
اور پاک فوج کی طرف کامیاب ضرب عضب آپریشن آخری مراحل میں ہے اور دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور دہشتگرد اپنی بزدلانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں امن و امان کی حالت بہتر ہوئی ہے اور اس سے ملک کے معاشی حالات تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس پر تبصرے ہورہے ہیں رینجرز کی جانب سے کراچی کا ٹارگٹ آپریشن جاری ہے ، جس کے بہت اچھے نتائج آئے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لینا شروع کردیا ہے۔