پیچ کس پلاس اور بلبلاہٹ

شو خبر ناک چھوڑنے کا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگوں نے 5 سال بعد یہ پوچھنا بند کردیا ہے کہ ہم نے حسبِ حال کیوں چھوڑا


آفتاب اقبال September 04, 2015
[email protected]

LONDON: اپنا سابقہ شو خبر ناک چھوڑنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگوں نے بالآخر 5 سال بعد یہ پوچھنا بند کردیا ہے کہ ہم نے حسبِ حال کیوں چھوڑا۔ البتہ ہماری اس حرکت کے جملہ مضمرات میں سے ایک بہر حال یہ بھی ہے کہ اب لوگ ہم سے تقریباً ایک ہزار سال تک یہی پوچھ پوچھ کر ہماری ناک وغیرہ میں دم کیے رکھیں گے کہ ہم نے خبرناک کیوں چھوڑا؟ تو جناب اس کا یک لفظی جواب ہے، تازگی۔ بس اس تھوڑے کہے کوہی غنیمت جانیے اور کوئی ڈھنگ کی بات پوچھیں جس کا جواب دیتے ہوئے ہمیں خود بھی مزا آئے۔

ہمارے قارئین کو یاد ہو گا کہ نڈھال صاحب ہمارے وہ دوست ہیں جو شاعری بھی خود کرتے ہیں، میوزک بھی خود ہی کمپوز کرتے ہیں اور خیر سے گاتے بھی خود ہی ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں آج تک کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ موصوف نے ذاتی خرچ پر ایک نغماتی ایلبم تیار کروایا ہے جس میں انکی اپنی شاعری، موسیقی اور گائیکی پر مبنی 7 غزلیں، 10 دوہڑے اور 4 گیت شامل ہیں مگر حرام ہے جو ان کے اہل خانہ نے بھی مذکورہ ایلبم کو سننے، حتیٰ کہ دیکھنے کی بھی زحمت کی ہو۔ نڈھال صاحب بد شکل تو خیر ہیں ہی، بدلہن بھی بدرجہ اتم ہیں۔ آج سرِشام ہمارے طرف آن دھمکے۔ کہنے لگے، ''یار تم اپنے ہر نئے ٹی وی شو میں ایک پٹی لگاتار چلوایا کرو کہ تم نے پرانا شو آخر کیوں چھوڑا کیونکہ ہر دو چار سال بعد لوگ یہ واہیات سوال پوچھ پوچھ کر مجھے بور کرتے رہتے ہیں''۔

نڈھال صاحب کی اس بیکار بات پر کان دھرے بغیر ہم نے گزارش کرد ی کہ آجکل بڑے بڑے حاضر سروس افسران اور خفیہ ایجنسیوں والے آپ کے درِ دولت پر حاضریاں دیتے پھرتے ہیں، اس کی وجہ قربِ قیامت کے علاوہ بھی اگر کوئی ہے تو بیان کر دیجیے۔ ہم بیتابی کے ساتھ سننا چاہتے ہیں، کہنے لگے، ''تمہارے ملک میں بہت کچھ ہونے جا رہا ہے میاں، بس صرف دیکھتے جاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ احتساب ہونے کو ہے''۔ ہم نے فوراً کہا، ''کیا پھر حکومت کو خطرہ لاحق ہونے کی اطلاع ہے''؟

بولے، ''یہ کون سی نئی بات ہے برخوردار۔ نواز شریف کی حکومت اگر عالمِ برزخ میں بھی قائم ہوئی تو اسے خطرات لاحق رہیں گے کہ اس حکومت کو پنگے لینے کی عادت ہے''۔

ہم نے جھلاہٹ میں گزارش کی کہ براہ کرم بات کی وضا حت کریں اور غیر ضروری بکواس سے پرہیز کریں، وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے، '' تمھیں میری باتیں بری تو بہت لگیں گی، مگر میری اطلاع یہی ہے کہ زرداری اور نواز شریف آج بھی اندر سے ایک ہی ہیں۔ بلکہ زرداری صاحب نے آج سے 3 ماہ پہلے فوج کیخلاف جو لب کشائی کی تھی، اس پر بہت سے اہم نواز لیگیوں نے انھیں دبے لفظوں میں خراج تحسین بھی پیش کیا تھا۔ حتیٰ کہ یہ جو مقابلہ ''حسن دشنام طرازی'' جاری و ساری ہے یہ بھی بہت بڑی نورا کشتی ہے، اندرو اندری یہ سب ایک ہیں۔

ماہ صیام میں ایک ادارے نے زرداری صاحب کے ایک انتہائی اہم دستِ راست کی گفتگو ریکارڈ کر لی تھی جس میں اس نے خالد بادشاہ کے قتل سمیت چند نہایت حساس نوعیت کے انکشافات کیے تھے۔ اس گفتگو کی بھِنک اب پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت تک بھی جا پہنچی ہے چنانچہ بی بی کے قتل سے متعلق جو تازہ بیان ان کے ڈرائیور نے ناہید خان کے حوالے سے دیا ہے، وہ ایک طرح کا حفاظتی ردعمل ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اب مکینک کا پلاس اس پرزے پر پڑنے والا ہے جس پر بہت پہلے پڑ جانا چاہیے تھا۔ اب تم یار لوگوں کی بلبلاہٹ سنتے جاؤ، سندھ میں بھی اور پنجاب میں بھی۔

نڈھال صاحب جب اول فول بکنے لگتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں روک نہیں سکتی۔ چنانچہ ہم بھی ازراہ مجبوری اس برائی سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔ عرض کیا، یہ بتائیے کہ بلبلاہٹ سے آپکی مراد کیا ہے؟

کہنے لگے، ''تمھیں پتہ ہے کہ کراچی کے گرفتار ڈاکٹر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سسکیاں لے لے کر عرض کرنا شروع کر دیا تھا کہ آپ لوگ جو پوچھنا چاہتے ہیں میں ایک ایک کر کے یہیں بتا دیتا ہوں، یہ90 دن والے ریمانڈ کی بات نہ کرو یار ،میں بہت کمزور دل، گردے اور پھیپھڑوں کا مالک ہوں۔ اس پر ایک جونیئر افسر نے نہایت ادب کے ساتھ گزارش کی کہ جناب ایسی بھی کیا جلدی ہے، آپ جہاں تشریف لے جا رہے ہیں وہاں ہم نے چائے پانی کے ساتھ ساتھ ہائی ڈیفی نیشن کیمرے کا بندوبست بھی کر رکھا ہے۔ آپ نے جس جس کا جو جو کچاچٹھہ کھولنا ہے، ہیں کھولئے گا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب ممیاتے اور ہکلاتے پائے گئے''۔

''اچھا تو اور کون کون بلبلارہا ہے'' ہم نے دریافت کیا۔

''بھئی کراچی کے ڈاکٹر کا قصہ تو ہم نے بیان کر دیا۔ اب ذرا سکھر کے لائنز مین کی بات بھی سن لو۔ وہ بھی تو صبح دوپہر شام بلبلاتا چلا جا رہا ہے''۔

''ہاں واقعی، وہ حضرت بھی بہت شور مچا رہے ہیں آجکل۔۔۔اس کی وجہ شاید ان کی موجودہ پارٹی پوزیشن ہے'' ہم نے کہا۔

''نہیں یار تم بھی نہایت کوڑھ اور ادھ مغزے ہو'' نڈھال صاحب کی اس گستاخی کے بعد ہمار دل چاہا کہ انکی تاریخ پیدائش پر لعنت بھیج کر کوئی اور کام کر لیں مگر بات چونکہ نہایت سنسنی خیز تھی، اس لیے ایک پھیکی سی مسکراہٹ پر ہی اکتفا کیا۔

مزید بولے، حضور والا، یہ صاحب کسی زمانے میں کھمبے کے اوپر نیچے کھڑے ہو کر تاریں وغیرہ ٹھیک کروایا کرتے تھے، آج ارب نہیں کھرب پتی ہو چکے ہیں۔ وہ چونکہ پلاس، پیچ کس اور رینچ وغیرہ جیسے اوزاروں کا استعمال خود اپنے ہاتھوں سے کر چکے ہیں، اس لیے خوب سمجھتے ہیں کہ پلاس کی پکڑ کس قدر شدید ہوتی ہے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ کسی غلط جگہ پڑ جائے تو ''آنکھیں'' پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ آئی بات سمجھ میں یا مزید بتاؤں کہ بلبلاہٹ کسے کہتے ہیں۔ ابھی شکر کرو میں نے یہ نہیں بتایا کہ تمہارے پنجاب میں عنقریب کون کون بلبلاتا پایا جائے گا، ہیں جی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں