ٹیکنالوجیز جو دنیا بدل دیں گی
ایجادات اور اختراعات کا سلسلہ معاشرت سمیت ہر شعبۂ زندگی میں تبدیلی لا رہا ہے۔
کرۂ ارض پر ترقی اور عالمی معاشرے کا ارتقاء بلاشبہہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کے رہین منت ہیں۔
یوں تو انسانی معاشرہ اپنے جنم ہی سے ارتقائی مراحل طے کررہا ہے، لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی نے اس عمل کو مہمیز کیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی روزافزوں پیش رفت کی بدولت نئی نئی ایجادات اور اختراعات سامنے آرہی ہیں۔ ان میں سے کچھ عالم گیر اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسی ہی ٹیکنالوجیز کا ذکر کررہے ہیں، جو عام ہوجانے پر دنیا بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
1۔ تیزرفتار اور کم خرچ ڈی این اے سیکوئنسنگ
ڈی این اے ( ڈی اوکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ) کا نام اب کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں رہا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ڈی این اے ٹیسٹ کا تذکرہ اتنے تواتر سے ہورہا ہے کہ اب ڈی این اے سے معمولی پڑھے لکھے لوگ بھی واقف ہوگئے ہیں۔ ڈی این اے دراصل نیوکلیک ایسڈ ہوتا ہے، جس میں ایک جان دار کی تمام جینیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ ڈی این اے کے جس حصے میں یہ معلومات محفوظ ہوتی ہیں، وہ جین کہلاتا ہے۔ ڈی این اے سیکوئنسنگ دراصل انھی جینز میں چھپی معلومات کو پڑھنے کا طریقۂ کار ہے۔ ڈی این اے سیکوئنسنگ بنیادی حیاتیاتی تحقیق کے لیے کلیدی اہمیت اختیار کرگئی ہے اور متعدد شعبوں میں اس کا استعمال ہورہا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ڈی این اے سیکوئنسنگ کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے اور اس پر ہونے والے اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ نیوکلیک ایسڈ کیمسٹری میں ہونے والی پیش رفت کی بدولت آج '' لائف ٹیکنالوجیز'' جیسی کمپنیاں ایک نیم موصل چِپ پر صرف ایک ہزار ڈالر میں ڈی این اے کو پروسیس کرسکتی ہیں۔ دوسری کمپنیاں پورے جینوم کو صرف ایک دن میں ترتیب دے سکتی ہیں۔ ڈی این اے سیکوئنسنگ میں آنے والی تیزرفتاری اور لاگت میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی جینوم کی سیکوئنسنگ تین برس کے عرصے میں مکمل ہوئی تھی اور اس پر آنے والی لاگت 3.8 ارب ڈالر تھی۔
2۔ ڈیجیٹل کرنسی
ٹیکنالوجی میں ہونے والی روزافزوں ترقی کی بدولت ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جارہی ہے۔ اور اب ڈیجیٹل کرنسی کا آئیڈیا بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی ابھی صرف ایک تصور ہی ہے۔ یہ کرنسی 2009 ء میں Bitcoin کی صورت میں متعارف کروائی جاچکی ہے۔ Bitcoin کا لین دین ویب سائٹس اور سوفٹ ویئرز کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نوٹوں اور سکوں کی روایتی شکل میں بھی اس کے لین دین کی سہولت موجود ہے۔ Bitcoin پیمنٹ نیٹ ورک اس وقت تک سب سے طاقت ور ڈسٹری بیوٹڈ کمپیوٹنگ نیٹ ورک ہے۔
تین سال کے عرصے میں Bitcoin اگرچہ عام نہیں ہوئی اور بیشتر لوگ تو شاید اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین شروع بھی ہوچکا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی مقبولیت کی راہ میں چند رکاوٹیں ہیں، جن میںاس کی محدود دست یابی، رمز نویسی کا کرپٹوگرافی کا مسئلہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ لوگوں کو یہ یقین دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین بالکل محفوظ ہے۔ کاغذی نوٹوں کے آغاز پر بھی یہی مشکل درپیش ہوئی تھی۔ تاہم جب لوگوں کو اس کے محفوظ ہونے پر یقین آگیا تو پھر اس کی مقبولیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ یہی بات ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ڈیجیٹل کرنسی، روایتی کرنسی کی چھٹی کردے گی۔
3۔ میمریسٹور
1971ء میں یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر لیون چُوا نے برقی سرکٹ کے میدان میں ایک انقلاب کی پیش گوئی کی تھی۔ چار دہائیوں کے بعد بالآخر ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوگئی ہے اور انھوں نے جو تصور پیش کیا تھا وہ حقیقت بن گیا ہے۔ روایتی طور پر برقی سرکٹ، برقی کنڈنسر (capacitor)، مزاحم آلہ (resistor) اور امالہ انگیز (inductor) سے مل کر بنتا ہے۔ تاہم لیون نے کہا تھا کہ برقی سرکٹ کا ایک چوتھا جزو بھی ہوسکتا ہے، جسے اُس نے memristor کا نام دیا تھا۔ یہ نام memory یعنی یادداشت اور resistor یعنی مزاحمت کار کو ملاکر بنایا گیا تھا۔
لیون کی پیش گوئی کے مطابق memristorsمیں برقی رو کی فراہمی منقطع ہوجانے کے بعد بھی چارجوں کو 'یاد' رکھنے کی صلاحیت ہوگی۔ اس خوبی کے نتیجے میں memristors معلومات ذخیرہ ہوسکیں گی۔ اس طرح memristors کے بارے میں خیال کیا جانے لگا کہ یہ کمپیوٹر میموری کا حصہ بن سکیں گے اور ان میں ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی گنجائش روایتی ہارڈ ڈرائیوز سے بہت زیادہ ہوگی (ایک اندازے کے مطابق memristor کے فی مکعب سینٹی میٹر میں 1048576گیگابائٹ ڈیٹا ذخیرہ کیا جاسکے گا)
اولین memristor 2008ء میں ایچ پی نے تیار کیا تھا۔ ایچ پی کے مطابق 2014ء میں یہ آلہ عام فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ ڈیٹا کی ذخیرہ کاری کے علاوہ memristor سگنل پروسیسنگ، نیورل نیٹ ورکس اور کمپیوٹر سے دماغ کے ذریعے کام لینے کے طریقۂ کار میں بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
4۔ مستقبل کے روبوٹ
گذشتہ چند عشروں میں سائنس کے کچھ شعبوں نے حیران کُن ترقی کی ہے۔ روبوٹکس بھی انھی میں سے ایک ہے۔ ماضی میں روبوٹ کا استعمال صرف صنعتی اداروں تک محدود تھا، لیکن روبوٹس کی نئی نئی شکلیں سامنے آنے کے بعد ان کا استعمال بھی متنوع ہوتا چلاگیا۔ آج مختلف شکل وصورت کے حامل جدید ترین روبوٹس موجود ہیں۔ ایسے روبوٹ بنالیے گئے ہیں جو اپنے جسم کو تہہ کرلیتے ہیں اور پھر اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔
ہاتھوں اور پیروں کے بل چلنے والے، انسانوں کی طرح جذبات کا اظہار کرنے والے روبوٹ بھی وجود میں آچکے ہیں۔ علاوہ ازیں سانپ کی طرح رینگنے والے، اچھل کود کرنے والے اور انسانوں سے بھی زیادہ تیزرفتار روبوٹ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسے روبوٹ بھی موجود ہیں جن کا اپنا انٹرنیٹ ہے۔ ذرا سوچیے اگر یہ تمام خصوصیات ایک ہی روبوٹ میں سماجائیں تو یہ مشین کس قدر کارآمد ہوگی اور مختلف شعبوں میں کیسی کیسی تبدیلیوں کا باعث بنے گی۔
5۔ کچرے سے بنا بایوفیول
ذرا تصور کیجیے کہ اگر پاکستان کے شہروں میں روزانہ جمع ہونے والے کچرے کو بایوفیول میں تبدیل کیا جاسکے تو کیا ہوگا؟ ہم نہ صرف تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والی خطیر رقم بچاسکیں گے، بلکہ ہمیں اپنی گاڑیوں کو رواں رکھنے کے لیے تیل بہت سستے داموں مہیا ہوسکے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ کچرے کو توانائی میں بدلنے والی تیکنیک ایجاد کرلی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک یہ ٹیکنالوجی مغرب تک محدود اور ابتدائی مراحل میں ہے۔ کینیڈا میں کچرے سے بایوفیول بنانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور اگلے برس سے کینڈا کے صوبے، ایڈمنٹن میں سالانہ ایک لاکھ ٹن کچرے کو 38ملین لیٹر بایوفیول میں تبدیل کیا جانے لگے گا۔
علاوہ ازیں روایتی ایندھن کے بجائے بایو فیول کے استعمال سے فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔ سویڈن میں بھی کچرے کو بایوفیول میں تبدیل کرنے کے پلانٹ نے کام شروع کردیا ہے۔ سویڈن میں چوں کہ کچرے کی قلت ہے۔ اس لیے وہ اس پلانٹ کو 'خام مال' فراہم کرنے کے لیے کچرا پڑوسی یورپی ممالک سے درآمد کررہا ہے۔ ذرا سوچیے یہ ٹیکنالوجی دنیا بھر میں پھیل جانے کے بعد کیسی انقلابی تبدیلی کو جنم دے گی۔
6۔ جین تھراپی
اگرچہ ہم بایوٹیکنالوجی میں رونما ہوتے انقلاب کا مشاہدہ کررہے ہیں، لیکن ہماری تمام تر توجہ اسٹیم سیلز، ٹشیو انجنیئرنگ، جینوم میپنگ اور نئی ادویہ کی تیاری پر ہے۔ اس لیے یہ حقیقت اکثر و بیشتر نظرانداز ہوجاتی ہے کہ ہم پہلے ہی براہ راست ڈی این اے میں جھانکنے اور اپنی مرضی کے مطابق جینز کا تبادلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم متاثرہ جینز کو صحت مند جینز سے بدل سکتے ہیں۔ یہ طریقۂ علاج جین تھراپی کہلاتا ہے، جس میں کسی دوا یا سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس طریقۂ علاج میں ڈی این اے کو فارماسیوٹیکل عامل (pharmaceutical agent ) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جین تھراپی کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طریقے میں، بیماری سے متاثرہ غدی وائرس (adenovirus) میں ایک نیا جین داخل کیا جاتا ہے۔ غدی وائرس میں یہ جین پروٹین بناتا ہے، جو متاثرہ وائرس کا علاج کرتا ہے۔
حالیہ عرصے میں جین تھراپی کے ذریعے کئی ناقابل علاج امراض کا کام یابی سے علاج کیا جاچکا ہے، جس کے بعد جین تھراپی پر توجہ بڑھنے لگی ہے۔ جین تھرابی بیماریوں کے علاج میں نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔
7۔ آر این اے انٹرفیس
آر این اے انٹرفیس کی دریافت اس قدر تھی کہ اس کی بنیاد پر 2006ء میں دو امریکی سائنس دانوں اینڈریو فائر اور کریگ کیمرون میلو کو طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ جین تھراپی کی طرح آر این اے انٹرفیس بھی ماہرین حیاتیات کوجینز کے افعال کے میں ردوبدل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ آر این اے انٹرفیس کے ذریعے خلیات کو ختم یا مخصوص جینز کی سرگرمیاں محدود کردی جاتی ہیں۔
یہ انٹرفیس پیغام رساں مالیکیولوں کے تباہ یا ان کے کام میں مداخلت کے ذریعے ماہرین کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ جینز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرسکیں۔ آج دنیا بھر میں پھیلی ہزاروں تجربہ گاہوں میں آر این اے انٹرفیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جینز پر تحقیق کے ضمن میں یہ انٹرفیس ایک اہم ہتھیار بن گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر کمپیوٹیشنل بایولوجی اسٹڈیز کے الوگرتھم تخلیق کیے گئے ہیں اور یہ طریقۂ کار کینسر جیسے مرض کے شافی علاج کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔
8۔ نامیاتی الیکٹرونکس
نامیاتی الیکٹرونکس سے ذہن میں سائی بورگ جیسے کسی 'مخلوق' کا تصور اُبھرتا ہے جو مشینی پُرزوں اور گوشت پوست سے بنے اعضاء یعنی نامیاتی حصوں کا مجموعہ ہو۔ آدھا انسان اور آدھا مشین کا تصور ہمارے ذہنوں میں برسوں سے موجود ہے، لیکن اس تصور کے حقیقت میں بدلنے کا امکان نامیاتی الیکٹرونکس کی نوزائیدہ فیلڈ کی وجہ سے مزید دھندلاگیا ہے۔ اب یہ امکان قوی ہوگیا ہے کہ ہم اپنے جسم کے مختلف حیاتیاتی نظاموں میں ردوبدل کرکے ان کی بنیاد پر بالکل نئے نامیاتی اعضا متعارف کروائیں گے۔
سائنس داں پہلے ہی ایسے ٹشیوز تیار کرچکے ہیں، جو اپنے اطراف کے ماحول کو محسوس کرسکتے ہیں۔ محققین ایسے کیمیکل سرکٹ بھی بناچکے ہیں جو برقی رَو کے بجائے نیوروٹرانسمیٹرز کی ترسیل کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی بنیاد پر مستقبل کا انسان اپنے جسمانی حیاتیاتی نظاموں اور اعضا کے معاملات میں مداخلت کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
9۔ مرتکز شمسی توانائی
سولر پاور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ایک نئی اختراع شمسی شعاعوں سے توانائی کے حصول میں انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ اختراع اگرچہ بے حد اہم ہے کہ تاہم عالمی سطح پر ابھی تک اس کا تذکرہ محدود انداز میں ہورہا ہے۔ اس اختراع کو مرکز شمسی توانائی (concentrated solar power) ( CSP) کا نام دیا گیا ہے اور اس سے مراد آئینوں اور عدسوں کی مدد سے سورج کی لہروں کو مرتکز کرکے توانائی حاصل کرنا ہے۔
ایک مقام پر شمسی شعاعوں کے ارتکاز سے ان کی شدت بڑھ جاتی ہے، نتیجتاً زیادہ مقدار میں توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کی ایک ٹیکنالوجی مرتکز فوٹو وولٹکس (concentrated photovoltaics) ( CPV) ہے۔ یہ ٹیکنالوجی شمسی شعاعوں کو مرتکز کرکے انھیں حرارت میں تبدیل کرتی ہے۔ اس حرارتی توانائی کو بعدازاں بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان تیکنیکوں کو وسیع پر اپنانے سے توانائی کی عالمی ضروریات بہ آسانی پوری کی جاسکیں گی۔