آفتاب پھرطلوع ہوگا

آفتاب حسین کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا۔ اٹھائیس اگست کو ان کی پہلی برسی تھی۔


Zuber Rehman September 05, 2015
[email protected]

LOS ANGELES: آفتاب حسین کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا۔ اٹھائیس اگست کو ان کی پہلی برسی تھی۔ وہ ابتدا میں ٹی بی کے مریض تھے، بعدازاں ڈاکٹروں کی غفلت سے ایک موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ آخرکار چالیس سال کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئے۔ آفتاب نظریاتی طور پر ایک سچے انقلابی اور کمیونسٹ تھے۔ پاکستان کا مزدور طبقہ، کسان، پیداواری قوتیں اور شہری ان پر فخر کرتا ہے۔ وہ ساری زندگی محنت کشوں کے نظریات کا پرچار کرتے رہے اور اس پر سختی سے عمل پیرا رہے۔

زمانہ طالب علمی میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، انقلابی پشتو شاعر رحمت شاہ سائل سے متاثر تھے، بعدازاں غنی خان اور اجمل خٹک کی شاعری کو پڑھا۔ پشتو رسالہ لیکوال اور دیگر رسالوں کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ بعدازاں پشتو سے اردو ادب کی جانب رخ کیا۔ ابتدا میں سید سبط حسن، میکسم گورکی اورکارل مارکس کو پڑھا۔ مطالعے کے دوران وہ سوشلسٹ خیالات کے حامی ہو گئے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کو پسند کرتے تھے۔ آفتاب حسین جب آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو والد سے پیسے چرا کر کتابیں خریدتے تھے اور پھر چھپ کر پڑھتے تھے۔

تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے نجی اسکول میں درس وتدریس کا کام انجام دیا۔ جب سرکاری اسکول میں پڑھاتے تھے توسارے اساتذہ سے قبل تقریباً دو گھنٹے پہلے اسکول پہنچ جاتے اور طلبا سے سیلبس کے علاوہ سماجیات، معاشیات اور فلسفے پر بات کرتے اور انھیں دنیا کی آگہی دیتے تھے۔ آفتاب حسین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پانچ ہزار سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ تھا۔

دو ہزار آٹھ میں جب طالبان نے گوالیری میں چودہ شہریوں کو گولی مار کر قتل کیا اور پینسٹھ کو اغوا کر کے لے گئے، ان اغوا ہونے والوں میں آفتاب حسین بھی شامل تھے اور انھیں گولی لگی تھی، وہ زخمی حالت میں اغوا ہوئے تھے۔ پینسٹھ اغوا کیے گئے شہریوں میں سے دوکو مار دیا گیا تھا اور باقی کو چھوڑ دیا تھا۔ چھوٹنے والوں میں آفتاب بھی تھے۔

طالبان نے جب گوالیری پر حملہ کیا تو آفتاب کے گھر پر بھی گولے پھینکے جس کے نتیجے میں ان کے گھر میں آگ لگ گئی اورکتابیں جل گئیں، جو بچ گئی تھیں انھیں دوسرے لوگ لے گئے۔ اس طرح ان کی کتابوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ جس اسکول میں وہ پڑھاتے تھے وہ اسکول، ان کے گھر سے تقریباً چار کلومیٹر بلند پہاڑ پر ہے جب کہ وہ کبھی بھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔

یہ تھا ان کا کردار۔ اسکول کے سارے استاد، طلبا اور اسٹاف کے لوگ ان کے پہنچنے کے بعد ہی پہنچ پاتے تھے۔ طلبہ کے والدین ان سے اتنے خوش تھے کہ وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اسکول میں کوئی طلبہ کو ٹھیک سے پڑھاتا ہے اور تربیت دیتا ہے تو وہ صرف آفتاب حسین ہیں۔ میرا ان سے رابطہ کئی برسوں سے تھا۔ وہ بلاناغہ میرے مضامین پڑھا کرتے تھے۔ اکثر فون پر پیغام بھیجتے تھے اورکہتے تھے کہ میں آپ کے مضامین کی کلیپنگ کر محفوظ رکھتا ہوں۔ اچانک ان کا ایس ایم ایس اور فون آنا بند ہوگیا، مجھے نہیں معلوم تھاکہ وہ اب جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہیں رہے۔

جولائی دوہزار پندرہ میں جب میں گوالیری، سوات گیا تو وہاں کے ساتھیوں کے ایک اجلاس میں مجھے بتایا گیا کہ وہ انتقال کر گئے۔ اس اجلاس میں دیگر سیاسی کارکنان اور شہریوں کے علاوہ حسین احمد، جوہر اقبال، خیر اللہ، باچہ زادہ، مصطفیٰ کمال، خورشید علی، رفعت علی، عرفان، شریف اور دریا خان موجود تھے۔ سب نے یک زبان ہو کر بتایا کہ آفتاب ہم سب سے زیادہ پڑھتے تھے۔ ان کے پاس پانچ ہزار کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ اکثر آپ کی کلیپنگ کیے ہوئے مضامین دکھاتے تھے مگر افسوس ہے کہ جب آپ آئے تو وہ ہم میں نہ رہے۔ بہرحال یہ تو ایک آنے جانے کا سلسلہ ہے مگر انسان کے نظریات، خیالات، کردار اور عوامل کبھی بھی ختم ہوتے ہیں اور نہ بھلائے جاسکتے ہیں۔

آج کامریڈ آفتاب کا نظریہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پھل پھول رہا ہے بلکہ کبھی قصور میں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ہزاروں شہری سڑکوں پہ امنڈ آتے ہیں، تو کبھی معذور افراد اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد کا شکار بنتے ہیں جن میں حاملہ خاتون کو بھی نہیں بخشا جاتا، توکبھی پشاورکے سرکاری ملازمین بنی گلہ میں مظاہرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے شہید نذیر عباسی کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن مظاہرہ کرتی ہے۔

کبھی لشکر جھنگوی کی ہزارہ پر خودکش حملہ کرنے کے خلاف مظلوم عوام کوئٹہ کے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں، کبھی درندہ صفت طالبان کے گوالیری، سوات پر قتل عام کے خلاف عوام کا احتجاج پھوٹ پڑتا ہے۔ یہ طبقاتی کشمکش اور عوامی احتجاج صرف پاکستان میں نہیں، دنیا بھر میں رونما ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک چین میں دوہزار چودہ میں وہاں کے مزدوروں اورکسانوں نے پچاسی ہزار مظاہرے کیے جن میں بہت سے مطالبات منوائے بھی۔

ایک اور پڑوسی ملک ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے ملک کے ایک تہائی رقبے پر اپنا راج قائم کیا ہوا ہے، چونکہ یہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤزے تنگ کے اصولوں پر چلتے ہیں، اس لیے انھیں ماؤ نواز بھی کہا جاتا ہے، چونکہ یہ تحریک مغربی بنگال کے ضلع دار جلنگ کے گاؤں 'نکشال باڑی' سے شروع ہوئی تھی، اس لیے اسے عرف عام میں نکشلائیڈ بھی کہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے کل کارکنان لگ بھگ ایک لاکھ ہیں۔ اس کمیونسٹ پارٹی کا موقف یہ ہے کہ بھارتیوں کو بھوک اور احساس محرومی کے خلاف دولت مند طبقات، جاگیرداروں، صنعتکاروں اور تاجروں سے جنگ جیتنی ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق کمیونسٹ کارکنان سولہ ریاستوں کے چھ سوچار اضلاع میں ایک سو پچانوے گروہ جدوجہد کر رہے ہیں۔

بھارت کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بانوے ہزارمربع کلومیٹر جنگلات پر ان کا راج ہے یعنی ہندوستان کے ایک تہائی رقبے پر یہ سرگرم ہیں جن میں چھتس گڑھ، جھاڑکھنڈ، بہار، اڑیسہ، مغربی بنگال، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، آندھرا پردیش،کرناٹک، تامل ناڈو، کیریلا اور اترانچل شامل ہے۔ اس کے علا وہ گجرات، پنجاب، راجستھان اور ہیماچل پردیش میں بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن بہت جلد آنے والاہے جب چین، ہندوستان، جنوبی امریکا اور یورپ سمیت ساری دنیا سے طبقاتی نظام ختم ہوکر ایک بے ریاستی امداد باہمی کا سماج قائم ہوگا۔

ترے شعور نے بخشی ہے وہ توانائی
کہ تجھ کو موت بھی ہم سے جدا نہ کر پائی
(مشتاق علی شان)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔