6 ستمبر 1965 جب ہماری تلواروں کی آب اور گھوڑوں کی تاب آزمائی گئی
دنیا کی تاریخ ایم ایم عالم (محمد محمود عالم)کا سرگودہا کی فضاؤں میں وہ کارنامہ بھولیں گے
HASILPUR:
ہر قوم کا ایک 6 ستمبر ہوتا ہے، جو اسے یاد کراتا ہے کہ اپنی تلواریں دیکھو! انہیں زنگ تو نہیں لگا۔۔۔ اپنے گھوڑے دیکھو! انہیں تھکن کی جونک تو نہیں لگی۔ ہمیں یہ دن آج سے پچاس پہلے ودیعت کیا گیا تھا اور ہم نے اپنی تلواروں کی آب اور گھوڑوں کی تاب ثابت کر دی تھی۔
آج پھر 6 ستمبر ہے۔ اُس 6 ستمبر اور اِس 6 ستمبر میں ایک بڑی مماثلت ہے، وہ یہ کہ حقائق بھی وہی ہیں اور دشمن بھی وہی۔ فرق ہے تو اتنا کہ تب دشمن کا ایجنٹ دشمن ہی قرار پاتا تھا اور آج یوں ہے کہ ہم انہیں پہچان کر بھی چشم پوشی کرتے ہیں۔ افواج پاکستان اپنے حلف کے مطابق پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کرتی رہی ہیں، کررہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ کوئی سازش انہیں اپنے موقف سے جدا نہیں ہٹا نہیں سکتی۔
پاکستان کی بھارت سے تما م جنگیں، سوائے رن آف کچھ کے، کشمیر کے تناظر میں ہوئیں۔ 1965میں بھارتی قابض افواج کے استبداد سے تنگ آکر کشمیریوں نے ہتھیار اُٹھالیے اورپاکستانی قوم نے ان کا ساتھ دیا۔ بھارتی سیاسی قیادت نے کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھا تو اپنی فوج پر سے دباؤ ختم کرنے کے لیے بغیر اعلان جنگ کے کشمیر کے جنوبی محاذ پر پاکستانی بین الاقوامی سرحد کو عبور کرتے ہوئے لاہور پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔
بھارتی منصوبے کے تحت شام کو لاہور کے جم خانہ کلب میں شراب پینا شامل تھا۔ اس کے جرنیلوں کو خود پر بہت بھروسہ تھا لیکن پاکستانی فوج نے انہیں بی آر بی نہر ہی پار نہ کرنے دی اور ان کا شمشان گھاٹ بنادیا گیا۔ بھارتی جتنی تیا ری کے ساتھ آئے تھے ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستانی فوج اتنی تیزی سے مقابلے میں آجائے گی۔
رینجرز نے پوری قوت سے اس وقت تک جانیں قربان کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کا مقابلہ کیا، جب تک باقائدہ فوج دفاع کے لئے نہیں آگئی۔ انہوں نے پیغام دیا ، '' ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، ہرطرف دشمن کے ٹینک اور فوج نظر آرہی ہے، میں نے اسلحہ خانہ (magzine) کھول دیا ہے، ہم آخری دم تک دشمن کا مقابلہ کریں گے اور انہوں نے اپنے الفاظ سچ کردکھائے۔
جانیں دیتے رہے اور دشمن کو نہر کے دوسرے کنارے پر اس وقت تک روکے رکھا جب تک باقائدہ فوج پوزیشن نہیں سنبھال لی۔ دشمن، رینجرز کی کمپنی کو باقاعدہ فوج کا ایک بریگیڈ سمجھتا رہا۔ ان جوانوں اور افسروں کی اکثریت نے اپنی جانیں قربان کردیں لیکن دشمن کے قدم روک دیے۔
جو حال، جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف مارچ کرتے ہوئے باٹا پور کے سامنے ہندوستانی 15ڈویژن کا ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ''پاکستان ایئر فورس نے دشمن کی توقع کے بالکل برعکس فوری ایکشن کرتے ہوئے، دشمن کی گاڑیوں اور سپاہ پر حملہ کیا، تو وہ جی ٹی روڈپر اپنی لاشیں اور سٹارٹ گاڑیا ں چھوڑ کا بھاگ گئے۔ ہرطرف تباہ شدہ گاڑیوں کا سکریپ یا سٹارٹ گاڑیا ں نظر آرہی تھیں''۔
یہ الفاظ کسی پاکستانی مصنف یا فوجی کے نہیں، ہندوستانی وزارت دفاع کے ایک افسر آر ڈی پردھان کی کتاب ''1965 War The inside story" کے ہیں۔ اس کتاب میں وہ GOC, 15 Div میجر جرنل نرنجن پرشاد کی یہ حالت دکھائی گئی ہے کہ جب انڈین کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ لاہو ر فتح ہونے کی خبروں پر اپنی کور کے 15 ڈویژن، جسے جی ٹی روڈ پر ایڈوانس کر کے لاہور شہر لینا تھا، کے محور پر اپنی جیپ میں اگلے مورچوں پر پہنچا، تو گاڑیوں کی تباہی، فوج کی ابتری، یہاں تک کہ سٹارٹ گاڑیاں چھوڑ کر ڈرائیور بھاگ چکے تھے۔
اس نے اپنے جی او سی میجر جنرل پرشاد کو گنے کے کھیت چھپا پایا، اس حال میں کہ جنرل صاحب کے رینک اترے ہوئے تھے، سر پر کیپ نہیں تھی، شیو بڑھی ہوئی تھی۔ کور کمانڈر نے پوچھا کہ رینک اور ٹوپی کہاں ہے؟ تو اس کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہیں تھا۔
بھارتی فوج کا یہ حال پاکستانی فضائی فوج نے کیا تھا۔ پاک فضائیہ نے اتنا شدید حملہ کیا تھا کہ اُن کو سٹر ک چھوڑ کر کسی پناہ گاہ تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اسی دوران میں پاکستانی فوج نے خود کو سنبھال کر اتنی برق رفتاری سے جوابی حملہ کیاکہ بھارتی فوج کے اوسان خطا ہو گئے۔ لاہور کے معرکے میں ہی برکی کے اہم مقام پر ہندوستانی فوج نے سخت دباؤ ڈال کر وہاں سے نہر پار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میجر عزیز بھٹی نشان حیدر کی کمپنی نے انہیں بارود کے شعلوں میں گھیر لیا۔ بھارتی فوج نے ہرممکن کوشش کی لیکن ان کے قدم جم نہیں پائے۔ میجر صاحب دم لیے بغیر لڑتے رہے حتیٰ کہ ٹینک کا ایک گولہ لگنے سے شہید ہوگئے۔
اس ایک کمپنی نے پورے بھارتی بریگیڈ کو پسپا ہونے پر مجبورکردیا۔ میجر عزیز بھٹی کو پاکستان کے سب سے بڑے جنگی اعزاز 'نشان حیدر' پیش کیا گیا۔
بھارتی 11 کو ر کا منصوبہ یہ تھا کہ 15ڈویژن، امرتسر ،واہگہ، لاہور محور پر براستہ جی ٹی روڈ حملہ کرکے شام تک لاہور پر قبضہ مکمل کرلے گا، 07 ڈویژن کھورالہ برکی روڈ پر چلتے ہوئے لاہور پہنچے گا، اسی طرح 04 ماؤنٹین ڈویژن بھی، کھیم کرن ،قصور روڈ پر ایڈوانس کرتے ہوئے لاہور پہنچے گا۔ بھارتی فوج نے 06 ستمبر کی آدھی رات کے بعد چار بجے حملے کے لیے ایڈوانس شروع کردیا۔ صبح جب پو پھٹی تو پاکستان رینجرز نے دیکھاکہ سرحد سے قریب پاکستانی علاقوں کے سویلین، جو بھی ہاتھ لگا، لیے بھاگے جا رہے ہیں۔
ان کے پیچھے بھارتی فوج اور ٹینکوں کی ایک طویل قطار لہر در لہر آرہی ہے۔ اس وقت رینجر کے افسر نے وہ تاریخی جملے کہے اور شہادت تک ان کو نبھایا اور دشمن کو نہر پار نہ رکرنے دی۔ دشمن پورے یقین کے ساتھ آرہا تھا لیکن لیفٹیننٹ کرنل تجمل ملک کی کمانڈ میں 114بریگیڈ کی 03 بلوچ رجمنٹ نے، جو تھوڑی ہی دیر قبل وہاں پہنچی تھی عام شہریوں او ر دشمن کے ٹینکوں کو دیکھا اور بلا تاخیر ایک اینٹی ٹینک ریکائل لیس رائفل، باٹا پور پل کے سامنے بھیج دی۔
ایک بیل گاڑی جو چارے سے لدی ہوئی آرہی تھی، کے جانوروں کو کھول کر اس کے پیچھے گن لگادی اور جوں ہی انڈین شرمن ٹینک پل پر پہنچا تو فائر کرکے اسے آگ کے شعلوں کی نذر کردیا۔ اس سے راستہ بھی بند ہوگیا اور پل بھی جنگ کے آخر تک بچارہا، جسے پاکستان کے سویلین واپسی کے لیے استعمال کرتے رہے۔ لاہور کے دفا ع میں تین اور اٹھارہ بلوچ، پنجاب رجمنٹ اور بالخصوص ایسٹ بنگال رجمنٹ نے اہم ترین کردار اداکیا۔ 108بریگیڈ نے سائفن، برکی پل سے بیدیاںتک کا دفاع انتہائی دلیری اوراپنے جانیں قربان کر کے کیا اور زندہ دلان لاہور نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فوج کا ساتھ دیا۔
قصور پر حملہ آور انڈین فوج کو پاکستان نے نہ صر ف روک دیا بلکہ جوابی حملہ کرتے ہوئے بے جگری سے لڑ کر کھیم کرن کا شہر بھی فتح کرلیا اور کھیم کرن ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرلیا، جہاں سے بھارتی فوج کو کمک مل رہی تھی۔ اُدھر بھارتی فوج نے اپنی دریائے بیا س کی اہم ترین نہر کو کاٹ کرعلاقے کو دلدل بنا دیا، جس سے پاکستانی ٹینکوں کا ایڈوانس رک گیا۔ اگر نہر نہ توڑی جاتی تو پاکستانی ٹینک شاید ایک نئی تاریخ رقم کرتے کیوںکہ تمام ماہرین کے مطابق دہلی کا راستہ صاف ہوگیا تھا، پاکستانی فوج جی ٹی روڈ پر پہنچ چکی تھی۔
اس کے بارے میں اندین مصنف آر ڈی پردھان، جو کہ بھارتی دفاع کا حصہ تھے، لکھتے ہیں کہ انڈین آرمی چیف جنرل چوہدری نہایت پریشان تھا کہ '' اگر لڑائی سخت ہوئی تو ہندوستانی فوج کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور دریائے بیاس کے مغرب میں لڑائی کی شدت اور پاکستانی ایڈوانس سے جی ٹی روڈ پر قبضہ سے پاکستان کے لیے دہلی کے راستہ کھل جائے گا اور اسے کوئی بھی نہ روک سکے گا۔'' ہندوستانی وزیر دفاع وائی بی چوان اس قدر خوف زدہ تھا کہ اس لڑائی میں مزید شدت آئی تو ممکن ہے کہ ہمیں کھیم کرن کی طرح بیاس سیکٹر سے بھی پسپائی اختیا ر کرنا پڑے۔ اس نے یہ الفاظ اپنے آرمی چیف جنرل چوہدری سے ملنے کے بعد کہے'' پھر انہوں نے اپنی نہر اچھا گل کو توڑ کر علاقے کو دلدل بنادیا تاکہ ٹینکوںکے ایڈوانس کو روکا جاسکے اور لاہور سے بھی زیادہ طاقت یہاں تعینات کردی۔ اس کے بعد بھارتی فوج لگاتار حملے کرتی رہی لیکن وہ علاقہ معاہدۂ تاشقند تک پاکستان کے قبضہ میں رہا۔
ان دونوں سے بھی سخت حزیمت بھارت کو چھمب میں اٹھانا پڑی، جہاں پاکستانی فوج کے حملے کے جواب میں بھارت نے اپنے شرمن اور دیگر ٹینک جھونک دیے تھے لیکن ان کے 13 ٹینک صیح سلامت پاکستان نے پکڑ ئے اور بھارتی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستانی افواج، پلانوالہ چھاؤنی کو فتح کرتے ہوئے اکھنور پل تک پہنچ چکی تھی لیکن جنگ بندی کے بعد معاہدے کے مطابق انہیں چھوڑنا پڑا، ورنہ ہندوستان سے کشمیر جانے والا واحد راستہ بھی پاکستان کے کنٹرول میں ہوتا۔
اس دوران پاکستانی فضائیہ نے تاریخی کردار اداکرتے ہوئے لاہور کی فضاؤں میں دوبدو جنگ میں ایک نئی تاریں رقم کی۔ دو پاکستانی جہاز چھے ستمبر کی صج، معمول کی دیکھ بھال کے لیے قصور لاہور کی فضاؤں میں محوِ پرواز تھے کہ صبح 4 بج کر 5منٹ پر ان کی نظر بھارتی فوج کے ایڈوانس پر پڑی، جو ایک سمندر کی طرح بڑھتا ہوا آرہا تھا۔ انہوں نے لاہور اور سرگودہا کو بھی آگاہ کیا اور دشمن کے ٹینکوں اور فوج پر اللہ کا قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔
چند منٹ کے اندر ان کا آگے بڑہتا قافلہ خاک کا ڈہیر بن چکا تھا۔ 15ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل پرشاد اپنی جیپ چھوڑ کر گنے کے کھیتوں میں چھپ گیا تھا۔ پاکستان آرمی اور ایئر فورس کے حملے سے وہ اس قدر بدحواس ہوا کہ اس نے کور کمانڈر کے سامنے اپنی فوج کو آگے بڑھانے سے انکار کردیا۔ جنرل پرشاد کی جکہ جنرل مہندر سنگھ کو کمانڈ دی گئی لیکن وہ بھی ناکام رہا۔ بھارت، اکھنور سے چھمب ،گجرات ،فیروز پور گنڈاسنگھ ،لاہور ، امرتسر ،باٹاپور لاہور ، امرتسر ،کھر لا، برکی اورلاہور کے راستوںسے حملہ اور لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب ڈراؤنے خواب میں تبدیل کرواکے پسپاہوا۔
اسی دوران سیالکوٹ سیکٹرمیں بھارت نے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد ٹینکوں کا سب سے بڑا حملہ کیا۔ اس نے وزیر آباد اور گوجرانوالہ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا تھا لیکن چونڈہ میں پاکستانی جوانوں نے ایک (نامکمل ) آرمڈ بریگیڈ کے ساتھ سینکڑوں ٹینکوںکے حملے کو ناکام بنا دیا ۔ درجنوں ٹینک لڑائی کے پہلے ہی دن بہترین حالت میں پاکستان کے ہاتھ لگے۔ اس علاقے میں انڈیا پہلے دن کے علاوہ جنگ کے آخر تک حملے کرتارہا لیکن ناکام رہا۔
جہاں تک پاکستان نیوی کا تعلق ہے تو اس نے پہلے ہی دن اپنی جنگ جیت لی تھی۔ پاکستا ن نیوی اور ایئر فورس کے جہازوں کی مدد سے نیول فلِیٹ نے پہلے ہی دن ان کے سب سے بڑے نیول جنگی اڈے اور راڈار اسٹیشن دوارکا پر حملہ کیا اور مکمل طور تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
نہ صرف یہ بل کہ پاکستان کی اکلوتی آبدوز، غازی نے بمبئی کی بندرگاہ کے پانیوں میں ایسا خوف پیداکردیا کہ بھارتی بحریہ آبدوز کے خوف سے پورے جنگی عرصے میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نہ نکلی کیوںکہ پہلے حملے نے ہی اس کی مواصلاتی اور آپریشنل صلاحیت ختم کردی تھی۔
اس جنگ پر سب سے مختصر اور جامعہ تبصرہ جنگی امور کے ماہر ٹائم کے رپورٹر لوئس کرار (Louis Karrar) نے لکھا ہے '' Who can defeat a nation which knows how to play hide and seek with death" پاکستانی قوم نے اپنا حق ادا کردیا لیکن قیادت اس فتح کو نہ سنبھال سکی اور میدان جنگ میں جیتی جنگ تاشقند کی مذاکراتی میز پر ہار آئی۔ اس نے قرآنی احکامات کے خلا ف اسلام دشمن طاقتوں کے وعدوں پر اعتبار کیا، جس کی سزا قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
بہت عرصے کے بعد آج پھر ایک ایسا چھے ستمبر ہے، جس میں 1965والے حالات ہیں۔ آج ہمارا دشمن پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہاہے۔ اس کے بعض ایجنٹ اسے پکار رہے ہیں۔ دشمن پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ وہ ہمارے درمیان، لسانی، علاقائی، صوبائی اور مذہبی تعصب پھیلا کر افراتفری، بد امنی اور دہشت گردی کو ہوا دینا چاہتا ہے۔ وہ قومیں ہمیشہ مار کھا جاتی ہیں جو دشمن کوکمزور سمجھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیں او ران کے سچے راہنما اپنی منصوبہ بندی، دشمن کی مجموعی طاقت کا اندازہ لگا کر کرتی ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ 50 سال پہلے افواج پاکستان نے جو کارنامہ انجام دیا، قوم آج بھی سرفراز رفیقی، سیسل چوہدری اور امتیاز بھٹی کے ٖفضائی کارنامے نہیں بھولے، نہ ہی دنیا کی تاریخ ایم ایم عالم (محمد محمود عالم)کا سرگودہا کی فضاؤں میں وہ کارنامہ بھولیں گے کہ جب انہوں نے ایک منٹ سے کم عرصے میں بھارت کے پانچ برتر جہاز مارگرائے۔
ہر قوم کا ایک 6 ستمبر ہوتا ہے، جو اسے یاد کراتا ہے کہ اپنی تلواریں دیکھو! انہیں زنگ تو نہیں لگا۔۔۔ اپنے گھوڑے دیکھو! انہیں تھکن کی جونک تو نہیں لگی۔ ہمیں یہ دن آج سے پچاس پہلے ودیعت کیا گیا تھا اور ہم نے اپنی تلواروں کی آب اور گھوڑوں کی تاب ثابت کر دی تھی۔
آج پھر 6 ستمبر ہے۔ اُس 6 ستمبر اور اِس 6 ستمبر میں ایک بڑی مماثلت ہے، وہ یہ کہ حقائق بھی وہی ہیں اور دشمن بھی وہی۔ فرق ہے تو اتنا کہ تب دشمن کا ایجنٹ دشمن ہی قرار پاتا تھا اور آج یوں ہے کہ ہم انہیں پہچان کر بھی چشم پوشی کرتے ہیں۔ افواج پاکستان اپنے حلف کے مطابق پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کرتی رہی ہیں، کررہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ کوئی سازش انہیں اپنے موقف سے جدا نہیں ہٹا نہیں سکتی۔
پاکستان کی بھارت سے تما م جنگیں، سوائے رن آف کچھ کے، کشمیر کے تناظر میں ہوئیں۔ 1965میں بھارتی قابض افواج کے استبداد سے تنگ آکر کشمیریوں نے ہتھیار اُٹھالیے اورپاکستانی قوم نے ان کا ساتھ دیا۔ بھارتی سیاسی قیادت نے کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھا تو اپنی فوج پر سے دباؤ ختم کرنے کے لیے بغیر اعلان جنگ کے کشمیر کے جنوبی محاذ پر پاکستانی بین الاقوامی سرحد کو عبور کرتے ہوئے لاہور پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔
بھارتی منصوبے کے تحت شام کو لاہور کے جم خانہ کلب میں شراب پینا شامل تھا۔ اس کے جرنیلوں کو خود پر بہت بھروسہ تھا لیکن پاکستانی فوج نے انہیں بی آر بی نہر ہی پار نہ کرنے دی اور ان کا شمشان گھاٹ بنادیا گیا۔ بھارتی جتنی تیا ری کے ساتھ آئے تھے ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستانی فوج اتنی تیزی سے مقابلے میں آجائے گی۔
رینجرز نے پوری قوت سے اس وقت تک جانیں قربان کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کا مقابلہ کیا، جب تک باقائدہ فوج دفاع کے لئے نہیں آگئی۔ انہوں نے پیغام دیا ، '' ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، ہرطرف دشمن کے ٹینک اور فوج نظر آرہی ہے، میں نے اسلحہ خانہ (magzine) کھول دیا ہے، ہم آخری دم تک دشمن کا مقابلہ کریں گے اور انہوں نے اپنے الفاظ سچ کردکھائے۔
جانیں دیتے رہے اور دشمن کو نہر کے دوسرے کنارے پر اس وقت تک روکے رکھا جب تک باقائدہ فوج پوزیشن نہیں سنبھال لی۔ دشمن، رینجرز کی کمپنی کو باقاعدہ فوج کا ایک بریگیڈ سمجھتا رہا۔ ان جوانوں اور افسروں کی اکثریت نے اپنی جانیں قربان کردیں لیکن دشمن کے قدم روک دیے۔
جو حال، جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف مارچ کرتے ہوئے باٹا پور کے سامنے ہندوستانی 15ڈویژن کا ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ''پاکستان ایئر فورس نے دشمن کی توقع کے بالکل برعکس فوری ایکشن کرتے ہوئے، دشمن کی گاڑیوں اور سپاہ پر حملہ کیا، تو وہ جی ٹی روڈپر اپنی لاشیں اور سٹارٹ گاڑیا ں چھوڑ کا بھاگ گئے۔ ہرطرف تباہ شدہ گاڑیوں کا سکریپ یا سٹارٹ گاڑیا ں نظر آرہی تھیں''۔
یہ الفاظ کسی پاکستانی مصنف یا فوجی کے نہیں، ہندوستانی وزارت دفاع کے ایک افسر آر ڈی پردھان کی کتاب ''1965 War The inside story" کے ہیں۔ اس کتاب میں وہ GOC, 15 Div میجر جرنل نرنجن پرشاد کی یہ حالت دکھائی گئی ہے کہ جب انڈین کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ لاہو ر فتح ہونے کی خبروں پر اپنی کور کے 15 ڈویژن، جسے جی ٹی روڈ پر ایڈوانس کر کے لاہور شہر لینا تھا، کے محور پر اپنی جیپ میں اگلے مورچوں پر پہنچا، تو گاڑیوں کی تباہی، فوج کی ابتری، یہاں تک کہ سٹارٹ گاڑیاں چھوڑ کر ڈرائیور بھاگ چکے تھے۔
اس نے اپنے جی او سی میجر جنرل پرشاد کو گنے کے کھیت چھپا پایا، اس حال میں کہ جنرل صاحب کے رینک اترے ہوئے تھے، سر پر کیپ نہیں تھی، شیو بڑھی ہوئی تھی۔ کور کمانڈر نے پوچھا کہ رینک اور ٹوپی کہاں ہے؟ تو اس کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہیں تھا۔
بھارتی فوج کا یہ حال پاکستانی فضائی فوج نے کیا تھا۔ پاک فضائیہ نے اتنا شدید حملہ کیا تھا کہ اُن کو سٹر ک چھوڑ کر کسی پناہ گاہ تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اسی دوران میں پاکستانی فوج نے خود کو سنبھال کر اتنی برق رفتاری سے جوابی حملہ کیاکہ بھارتی فوج کے اوسان خطا ہو گئے۔ لاہور کے معرکے میں ہی برکی کے اہم مقام پر ہندوستانی فوج نے سخت دباؤ ڈال کر وہاں سے نہر پار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میجر عزیز بھٹی نشان حیدر کی کمپنی نے انہیں بارود کے شعلوں میں گھیر لیا۔ بھارتی فوج نے ہرممکن کوشش کی لیکن ان کے قدم جم نہیں پائے۔ میجر صاحب دم لیے بغیر لڑتے رہے حتیٰ کہ ٹینک کا ایک گولہ لگنے سے شہید ہوگئے۔
اس ایک کمپنی نے پورے بھارتی بریگیڈ کو پسپا ہونے پر مجبورکردیا۔ میجر عزیز بھٹی کو پاکستان کے سب سے بڑے جنگی اعزاز 'نشان حیدر' پیش کیا گیا۔
بھارتی 11 کو ر کا منصوبہ یہ تھا کہ 15ڈویژن، امرتسر ،واہگہ، لاہور محور پر براستہ جی ٹی روڈ حملہ کرکے شام تک لاہور پر قبضہ مکمل کرلے گا، 07 ڈویژن کھورالہ برکی روڈ پر چلتے ہوئے لاہور پہنچے گا، اسی طرح 04 ماؤنٹین ڈویژن بھی، کھیم کرن ،قصور روڈ پر ایڈوانس کرتے ہوئے لاہور پہنچے گا۔ بھارتی فوج نے 06 ستمبر کی آدھی رات کے بعد چار بجے حملے کے لیے ایڈوانس شروع کردیا۔ صبح جب پو پھٹی تو پاکستان رینجرز نے دیکھاکہ سرحد سے قریب پاکستانی علاقوں کے سویلین، جو بھی ہاتھ لگا، لیے بھاگے جا رہے ہیں۔
ان کے پیچھے بھارتی فوج اور ٹینکوں کی ایک طویل قطار لہر در لہر آرہی ہے۔ اس وقت رینجر کے افسر نے وہ تاریخی جملے کہے اور شہادت تک ان کو نبھایا اور دشمن کو نہر پار نہ رکرنے دی۔ دشمن پورے یقین کے ساتھ آرہا تھا لیکن لیفٹیننٹ کرنل تجمل ملک کی کمانڈ میں 114بریگیڈ کی 03 بلوچ رجمنٹ نے، جو تھوڑی ہی دیر قبل وہاں پہنچی تھی عام شہریوں او ر دشمن کے ٹینکوں کو دیکھا اور بلا تاخیر ایک اینٹی ٹینک ریکائل لیس رائفل، باٹا پور پل کے سامنے بھیج دی۔
ایک بیل گاڑی جو چارے سے لدی ہوئی آرہی تھی، کے جانوروں کو کھول کر اس کے پیچھے گن لگادی اور جوں ہی انڈین شرمن ٹینک پل پر پہنچا تو فائر کرکے اسے آگ کے شعلوں کی نذر کردیا۔ اس سے راستہ بھی بند ہوگیا اور پل بھی جنگ کے آخر تک بچارہا، جسے پاکستان کے سویلین واپسی کے لیے استعمال کرتے رہے۔ لاہور کے دفا ع میں تین اور اٹھارہ بلوچ، پنجاب رجمنٹ اور بالخصوص ایسٹ بنگال رجمنٹ نے اہم ترین کردار اداکیا۔ 108بریگیڈ نے سائفن، برکی پل سے بیدیاںتک کا دفاع انتہائی دلیری اوراپنے جانیں قربان کر کے کیا اور زندہ دلان لاہور نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فوج کا ساتھ دیا۔
قصور پر حملہ آور انڈین فوج کو پاکستان نے نہ صر ف روک دیا بلکہ جوابی حملہ کرتے ہوئے بے جگری سے لڑ کر کھیم کرن کا شہر بھی فتح کرلیا اور کھیم کرن ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرلیا، جہاں سے بھارتی فوج کو کمک مل رہی تھی۔ اُدھر بھارتی فوج نے اپنی دریائے بیا س کی اہم ترین نہر کو کاٹ کرعلاقے کو دلدل بنا دیا، جس سے پاکستانی ٹینکوں کا ایڈوانس رک گیا۔ اگر نہر نہ توڑی جاتی تو پاکستانی ٹینک شاید ایک نئی تاریخ رقم کرتے کیوںکہ تمام ماہرین کے مطابق دہلی کا راستہ صاف ہوگیا تھا، پاکستانی فوج جی ٹی روڈ پر پہنچ چکی تھی۔
اس کے بارے میں اندین مصنف آر ڈی پردھان، جو کہ بھارتی دفاع کا حصہ تھے، لکھتے ہیں کہ انڈین آرمی چیف جنرل چوہدری نہایت پریشان تھا کہ '' اگر لڑائی سخت ہوئی تو ہندوستانی فوج کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور دریائے بیاس کے مغرب میں لڑائی کی شدت اور پاکستانی ایڈوانس سے جی ٹی روڈ پر قبضہ سے پاکستان کے لیے دہلی کے راستہ کھل جائے گا اور اسے کوئی بھی نہ روک سکے گا۔'' ہندوستانی وزیر دفاع وائی بی چوان اس قدر خوف زدہ تھا کہ اس لڑائی میں مزید شدت آئی تو ممکن ہے کہ ہمیں کھیم کرن کی طرح بیاس سیکٹر سے بھی پسپائی اختیا ر کرنا پڑے۔ اس نے یہ الفاظ اپنے آرمی چیف جنرل چوہدری سے ملنے کے بعد کہے'' پھر انہوں نے اپنی نہر اچھا گل کو توڑ کر علاقے کو دلدل بنادیا تاکہ ٹینکوںکے ایڈوانس کو روکا جاسکے اور لاہور سے بھی زیادہ طاقت یہاں تعینات کردی۔ اس کے بعد بھارتی فوج لگاتار حملے کرتی رہی لیکن وہ علاقہ معاہدۂ تاشقند تک پاکستان کے قبضہ میں رہا۔
ان دونوں سے بھی سخت حزیمت بھارت کو چھمب میں اٹھانا پڑی، جہاں پاکستانی فوج کے حملے کے جواب میں بھارت نے اپنے شرمن اور دیگر ٹینک جھونک دیے تھے لیکن ان کے 13 ٹینک صیح سلامت پاکستان نے پکڑ ئے اور بھارتی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستانی افواج، پلانوالہ چھاؤنی کو فتح کرتے ہوئے اکھنور پل تک پہنچ چکی تھی لیکن جنگ بندی کے بعد معاہدے کے مطابق انہیں چھوڑنا پڑا، ورنہ ہندوستان سے کشمیر جانے والا واحد راستہ بھی پاکستان کے کنٹرول میں ہوتا۔
اس دوران پاکستانی فضائیہ نے تاریخی کردار اداکرتے ہوئے لاہور کی فضاؤں میں دوبدو جنگ میں ایک نئی تاریں رقم کی۔ دو پاکستانی جہاز چھے ستمبر کی صج، معمول کی دیکھ بھال کے لیے قصور لاہور کی فضاؤں میں محوِ پرواز تھے کہ صبح 4 بج کر 5منٹ پر ان کی نظر بھارتی فوج کے ایڈوانس پر پڑی، جو ایک سمندر کی طرح بڑھتا ہوا آرہا تھا۔ انہوں نے لاہور اور سرگودہا کو بھی آگاہ کیا اور دشمن کے ٹینکوں اور فوج پر اللہ کا قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔
چند منٹ کے اندر ان کا آگے بڑہتا قافلہ خاک کا ڈہیر بن چکا تھا۔ 15ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل پرشاد اپنی جیپ چھوڑ کر گنے کے کھیتوں میں چھپ گیا تھا۔ پاکستان آرمی اور ایئر فورس کے حملے سے وہ اس قدر بدحواس ہوا کہ اس نے کور کمانڈر کے سامنے اپنی فوج کو آگے بڑھانے سے انکار کردیا۔ جنرل پرشاد کی جکہ جنرل مہندر سنگھ کو کمانڈ دی گئی لیکن وہ بھی ناکام رہا۔ بھارت، اکھنور سے چھمب ،گجرات ،فیروز پور گنڈاسنگھ ،لاہور ، امرتسر ،باٹاپور لاہور ، امرتسر ،کھر لا، برکی اورلاہور کے راستوںسے حملہ اور لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب ڈراؤنے خواب میں تبدیل کرواکے پسپاہوا۔
اسی دوران سیالکوٹ سیکٹرمیں بھارت نے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد ٹینکوں کا سب سے بڑا حملہ کیا۔ اس نے وزیر آباد اور گوجرانوالہ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا تھا لیکن چونڈہ میں پاکستانی جوانوں نے ایک (نامکمل ) آرمڈ بریگیڈ کے ساتھ سینکڑوں ٹینکوںکے حملے کو ناکام بنا دیا ۔ درجنوں ٹینک لڑائی کے پہلے ہی دن بہترین حالت میں پاکستان کے ہاتھ لگے۔ اس علاقے میں انڈیا پہلے دن کے علاوہ جنگ کے آخر تک حملے کرتارہا لیکن ناکام رہا۔
جہاں تک پاکستان نیوی کا تعلق ہے تو اس نے پہلے ہی دن اپنی جنگ جیت لی تھی۔ پاکستا ن نیوی اور ایئر فورس کے جہازوں کی مدد سے نیول فلِیٹ نے پہلے ہی دن ان کے سب سے بڑے نیول جنگی اڈے اور راڈار اسٹیشن دوارکا پر حملہ کیا اور مکمل طور تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
نہ صرف یہ بل کہ پاکستان کی اکلوتی آبدوز، غازی نے بمبئی کی بندرگاہ کے پانیوں میں ایسا خوف پیداکردیا کہ بھارتی بحریہ آبدوز کے خوف سے پورے جنگی عرصے میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نہ نکلی کیوںکہ پہلے حملے نے ہی اس کی مواصلاتی اور آپریشنل صلاحیت ختم کردی تھی۔
اس جنگ پر سب سے مختصر اور جامعہ تبصرہ جنگی امور کے ماہر ٹائم کے رپورٹر لوئس کرار (Louis Karrar) نے لکھا ہے '' Who can defeat a nation which knows how to play hide and seek with death" پاکستانی قوم نے اپنا حق ادا کردیا لیکن قیادت اس فتح کو نہ سنبھال سکی اور میدان جنگ میں جیتی جنگ تاشقند کی مذاکراتی میز پر ہار آئی۔ اس نے قرآنی احکامات کے خلا ف اسلام دشمن طاقتوں کے وعدوں پر اعتبار کیا، جس کی سزا قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
بہت عرصے کے بعد آج پھر ایک ایسا چھے ستمبر ہے، جس میں 1965والے حالات ہیں۔ آج ہمارا دشمن پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہاہے۔ اس کے بعض ایجنٹ اسے پکار رہے ہیں۔ دشمن پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ وہ ہمارے درمیان، لسانی، علاقائی، صوبائی اور مذہبی تعصب پھیلا کر افراتفری، بد امنی اور دہشت گردی کو ہوا دینا چاہتا ہے۔ وہ قومیں ہمیشہ مار کھا جاتی ہیں جو دشمن کوکمزور سمجھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیں او ران کے سچے راہنما اپنی منصوبہ بندی، دشمن کی مجموعی طاقت کا اندازہ لگا کر کرتی ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ 50 سال پہلے افواج پاکستان نے جو کارنامہ انجام دیا، قوم آج بھی سرفراز رفیقی، سیسل چوہدری اور امتیاز بھٹی کے ٖفضائی کارنامے نہیں بھولے، نہ ہی دنیا کی تاریخ ایم ایم عالم (محمد محمود عالم)کا سرگودہا کی فضاؤں میں وہ کارنامہ بھولیں گے کہ جب انہوں نے ایک منٹ سے کم عرصے میں بھارت کے پانچ برتر جہاز مارگرائے۔