میرے مہمان سیاح
میرے بچپن کے اور عزیز ترین دوست ڈاکٹر محمد احمد اپنی فیملی کے ساتھ کئی سال کے بعد پاکستان آئے
لاہور:
میرے بچپن کے اور عزیز ترین دوست ڈاکٹر محمد احمد اپنی فیملی کے ساتھ کئی سال کے بعد پاکستان آئے۔ وہ امریکا میں معروف اور متمول کارڈیالوجسٹ ہیں۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں سے ملنے اور گھومنے پھرنے کے لیے ان کے پاس صرف تین ہفتے تھے۔ ڈیڑھ دن خاموشی اور گمنامی میں ہوائی سفر کی تھکن اتارنے کے بعد انھوں نے اپنی آمد کی خبر نشر کرنا شروع کی تو ملاقاتوں اور کھانے کی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس دوران میزبانی کرنے والی خواتین نے ڈاکٹر صاحب کی بیگم بچوں کو کپڑے کی دکانوں سے اور ریڈی میڈ ڈریسز کی خریداری میں بے تحاشا مصروف رکھا۔ ایک ہفتے کے بعد مہمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ خوراک اور لیڈیز ڈریسز کے علاوہ بھی تو زندگی میں بہت کچھ ہے۔ دوست احباب نے معذرت خواہانہ جواب دیا کہ بلاشبہ ہمارے ملک میں گھومنے، سیر و سیاحت کرنے اور دیکھنے کے دلفریب مناظر اور بے شمار جگہیں موجود ہیں۔
جہاں پہنچیں تو واپس آنے کو دل نہ چاہے لیکن معذرت اور افسوس کہ ملکی حالات یعنی امن عامہ کی خوابی اس قدر بے یقینی میں گرفتار ہے کہ کوئی بھی آپ کو شمالی علاقہ جات کی جنت نظیر وادیوں میں لے جانے کا رسک لے سکتا ہے نہ مشورہ دے گا کہ آپ لوگ خود ادھر کا رخ کریں۔
ایک مدت سے ٹورازم کا گراف صفر کو چھو رہا ہے اور یورپ اور امریکا اور دوسرے ممالک سے آنے والے رشتہ دار اور مہمان لیڈیز ڈریسز اور ہوٹلنگ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ مہمانوں کا قیام میرے ہاں تھا اس لیے ایک شام میں انھیں واہگہ بارڈر پر پاک و ہند کے پرچم اترنے کی تقریب پر لے گیا۔ انھوں نے اس تقریب میں پیریڈ اور تماشائیوں کا جوش اور ولولہ دیکھ کر خود بھی نعرے بازی میں شرکت کی اور لطف اٹھایا۔
اس سے ا گلے روز میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی قالین بنتے دیکھا ہے۔ نفی میں جواب سن کر میں نے انھیں کہا کہ کل آپ لوگوں کو قالین بنتے دکھائے جائیں گے اور اگر کوئی مکمل ہونے کے قریب قالین پسند آ جائے تو نہایت مناسب قیمت پر خریدا بھی جا سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی فیملی کے لیے یہ دلچسپ اور مفید آفر تھی۔ انھوں نے فوراً رضامندی دے دی۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل کو غرض بتا کر وزٹ طے کر لی لیکن جب مہمانوں کو معلوم ہوا کہ ہم سینٹرل جیل وزٹ کرنے جا رہے ہیں تو انھوں نے ان کا ر کر دیا۔
انھیں بتایا گیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، ہم جیل نہیں جا رہے، جیل وزٹ کریں گے، نہایت پرامن اور یادگار دورہ ہو گا۔ میرے اصرار پر سب مان گئے اور ہم گیارہ بجے قبل دوپہر منزل مقصود پر پہنچے۔ میرے لیے نہ جگہ نئی تھی نہ ماحول کیونکہ متعدد بار وہاں انسپکشن پر جانا ہوا تھا۔ اسد جاوید ورائچ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل نے چائے بسکٹ سے تواضع کی اور پھر ہم سب ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ اپنے مخصوص انداز میں بہ آواز بلند ایک آفیسر نے سپرنٹنڈنٹ صاحب کے دورے کی بابت منادی کی اور ہم قالین بافی ہال میں پہنچے جہاں پھر منادی ہوئی اور ہم نے 90 سے زیادہ کھڈیوں پر سزایافتہ قیدیوں کو قالین بناتے دیکھا۔ میرے مہمانوں کے لیے یہ پہلا اور انوکھا مشاہدہ تھا۔ دس سال سزا اور عمر قید والے قیدیوں کو قالین بافی سکھا کر اس کام پر لگایا جاتا ہے۔ ایک قیدی نصف یا پون انچ روانہ کے حساب سے قالین بُن لیتا ہے۔ اچھے کام پر قید کی مدت میں چھوٹ ملتی ہے۔ ویسے مناسب ہو گا کہ انھیں اس کام کا صلہ رقم کی صورت میں بھی ملے جو ان کے اکاؤنٹ میں رہائی تک جمع ہوتا رہے۔
میرے مہمانوں کو پاکستان کے لیے روانگی سے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہاں انھیں اِن دنوں گرم مرطوب موسم ملے گا لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ بجلی اس تواتر سے آنکھ مچولی کھیلتی ملے گی۔
ان کے بچے بجلی آنے پر یک زبان ہو کر نعرہ لگاتے ''بجلی آ گئی ہے'' لیکن جس روز بجلی چار پانچ گھنٹے تک نہ ہوتی تو وہ اپنے والدین سے پاکستان لائے جانے کا گلہ بھی کرتے سنے گئے۔ گزشتہ جمعرات کو نو گھنٹے تک بجلی نہ آئی تو ان کے ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کہ انکل اب تو نو گھنٹے ہو گئے لیکن اسی لمحے بجلی آ گئی تو میں نے کہا بیٹے ہمارے حکمران ہمارے گھر کے قریب سے سگنل فری سڑک گزار رہے ہیں، انھیں فلائی اوور اور انڈرپاس بنانے کا بڑا شوق ہے۔ میری بات سن کر ڈاکٹر بولے، میں نے سنا ہے اس شوق کے پیچھے کمیشن کا لالچ ہوتا ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ ایسی افواہیں دشمن اور مخالف پھیلاتے رہتے ہیں۔
میرے مہمانوں نے گزشتہ وزٹ پر شالامار باغ، مینار پاکستان، میوزیم، قلعہ وغیرہ دیکھ لیے ہوئے تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد مجھے خیال آیا کہ سینٹرل جیل کا قالینوں کا کارخانہ، واہگہ کا ٹرپ ایسی دو جگہیں جو انھیں یاد رہیں گی تیسری جگہ ایسی ہونی چاہیے جو نئی اور انوکھی ہو۔ اسی لمحے مجھے کھیوڑہ سالٹ رینج کا خیال آیا اور اگلے روز میں اپنے مہمانوں کو لے کر تین گھنٹے کی ڈرائیو کو نکلا۔ موٹروے کا دو گھنٹے کا سفر اور لِلہ انٹرچینج سے مڑ کر ہم کھیوڑہ کی طرف چل نکلے۔ ایک گھنٹے کی مزید ڈرائیو کے بعد ہم کھیوڑہ سالٹ مائنیز کے دہانے پر تھے۔
ٹرین کے ٹکٹ لیے اور سب پہاڑی غار کے دہانے پر اندر سے آنے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ ٹرین جو دوطرفہ کھلے ڈبوں پر مشتمل تھی اس کا دو کلومیٹر Tunnel کا سفر تھا۔ بہت سے لوگ ریلوے ٹریک کے دائیں بائیں چلتے ہوئے پیدل ہی اندر جا رہے تھے کیونکہ سرنگ کے اندر روشنی کا انتظام تھا۔ کھیوڑہ سالٹ کی دریافت 326 قبل مسیح ہوئی تھی اور اس کی وسعت 300 کلومیٹر لمبائی اور کہیں 8 تو کہیں 30 کلومیٹر چوڑائی ہے۔
نمک کے پہاڑ کی بلندی 2200 فٹ تک ہے۔ ٹرین بیرونی دہانے پر سیاحوں کو لینے آئی تو اس کے گائیڈ نے بتایا کہ اب تک بمشکل دس پندرہ فیصد نمک نکالا گیا ہے جو صدیوں تک مقامی اور برآمدی ضرورت پوری کرتا رہے گا۔ ٹرین پرانی اور اس کا ٹریک ناہموار تھا۔ سرنگ میں زیادہ روشنی ہوتی تو نظارے کا لطف دوبالا ہوتا کیونکہ اس کی چھت اور دیواریں کسی جگہ سفید، کہیں گلابی اور کسی جگہ ملے جلے رنگوں کی تھیں۔ کھیوڑہ نمک کے پتھروں کے سوونیئرز لیمپ، پین ہولڈر، مرتبان، جار، ایش ٹرے، کینڈل اسٹینڈ بہت سی دکانوں پر برائے فروخت تھے۔
وہاں چند غیرملکی بھی دیکھے جو سوونیئر خرید رہے تھے۔ دنیا کی دوسرے نمبر کی بڑی کان کا یہ انمول اور محیرالعقول ذخیرہ متقاضی ہے کہ ہائی وے سے اندر جاتی سڑک جو ٹوٹی پھوٹی ہے اسے بہتر کیا جائے، سرنگ میں جانے والی ٹرین اپ گریڈ کی جائے، اس کا ٹریک ہموار کیا جائے اور سیاحوں کے بیٹھنے، کھانے پینے اور ٹائلٹس کو اس طلسم کدے کے شایان شان بنایا جائے۔ میرے مہمان بلاشبہ کھیوڑہ وزٹ کا ذکر جب وہ واپس جائینگے تو اکثر لوگوں سے کرینگے۔
میرے بچپن کے اور عزیز ترین دوست ڈاکٹر محمد احمد اپنی فیملی کے ساتھ کئی سال کے بعد پاکستان آئے۔ وہ امریکا میں معروف اور متمول کارڈیالوجسٹ ہیں۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں سے ملنے اور گھومنے پھرنے کے لیے ان کے پاس صرف تین ہفتے تھے۔ ڈیڑھ دن خاموشی اور گمنامی میں ہوائی سفر کی تھکن اتارنے کے بعد انھوں نے اپنی آمد کی خبر نشر کرنا شروع کی تو ملاقاتوں اور کھانے کی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس دوران میزبانی کرنے والی خواتین نے ڈاکٹر صاحب کی بیگم بچوں کو کپڑے کی دکانوں سے اور ریڈی میڈ ڈریسز کی خریداری میں بے تحاشا مصروف رکھا۔ ایک ہفتے کے بعد مہمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ خوراک اور لیڈیز ڈریسز کے علاوہ بھی تو زندگی میں بہت کچھ ہے۔ دوست احباب نے معذرت خواہانہ جواب دیا کہ بلاشبہ ہمارے ملک میں گھومنے، سیر و سیاحت کرنے اور دیکھنے کے دلفریب مناظر اور بے شمار جگہیں موجود ہیں۔
جہاں پہنچیں تو واپس آنے کو دل نہ چاہے لیکن معذرت اور افسوس کہ ملکی حالات یعنی امن عامہ کی خوابی اس قدر بے یقینی میں گرفتار ہے کہ کوئی بھی آپ کو شمالی علاقہ جات کی جنت نظیر وادیوں میں لے جانے کا رسک لے سکتا ہے نہ مشورہ دے گا کہ آپ لوگ خود ادھر کا رخ کریں۔
ایک مدت سے ٹورازم کا گراف صفر کو چھو رہا ہے اور یورپ اور امریکا اور دوسرے ممالک سے آنے والے رشتہ دار اور مہمان لیڈیز ڈریسز اور ہوٹلنگ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ مہمانوں کا قیام میرے ہاں تھا اس لیے ایک شام میں انھیں واہگہ بارڈر پر پاک و ہند کے پرچم اترنے کی تقریب پر لے گیا۔ انھوں نے اس تقریب میں پیریڈ اور تماشائیوں کا جوش اور ولولہ دیکھ کر خود بھی نعرے بازی میں شرکت کی اور لطف اٹھایا۔
اس سے ا گلے روز میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی قالین بنتے دیکھا ہے۔ نفی میں جواب سن کر میں نے انھیں کہا کہ کل آپ لوگوں کو قالین بنتے دکھائے جائیں گے اور اگر کوئی مکمل ہونے کے قریب قالین پسند آ جائے تو نہایت مناسب قیمت پر خریدا بھی جا سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی فیملی کے لیے یہ دلچسپ اور مفید آفر تھی۔ انھوں نے فوراً رضامندی دے دی۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل کو غرض بتا کر وزٹ طے کر لی لیکن جب مہمانوں کو معلوم ہوا کہ ہم سینٹرل جیل وزٹ کرنے جا رہے ہیں تو انھوں نے ان کا ر کر دیا۔
انھیں بتایا گیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، ہم جیل نہیں جا رہے، جیل وزٹ کریں گے، نہایت پرامن اور یادگار دورہ ہو گا۔ میرے اصرار پر سب مان گئے اور ہم گیارہ بجے قبل دوپہر منزل مقصود پر پہنچے۔ میرے لیے نہ جگہ نئی تھی نہ ماحول کیونکہ متعدد بار وہاں انسپکشن پر جانا ہوا تھا۔ اسد جاوید ورائچ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل نے چائے بسکٹ سے تواضع کی اور پھر ہم سب ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ اپنے مخصوص انداز میں بہ آواز بلند ایک آفیسر نے سپرنٹنڈنٹ صاحب کے دورے کی بابت منادی کی اور ہم قالین بافی ہال میں پہنچے جہاں پھر منادی ہوئی اور ہم نے 90 سے زیادہ کھڈیوں پر سزایافتہ قیدیوں کو قالین بناتے دیکھا۔ میرے مہمانوں کے لیے یہ پہلا اور انوکھا مشاہدہ تھا۔ دس سال سزا اور عمر قید والے قیدیوں کو قالین بافی سکھا کر اس کام پر لگایا جاتا ہے۔ ایک قیدی نصف یا پون انچ روانہ کے حساب سے قالین بُن لیتا ہے۔ اچھے کام پر قید کی مدت میں چھوٹ ملتی ہے۔ ویسے مناسب ہو گا کہ انھیں اس کام کا صلہ رقم کی صورت میں بھی ملے جو ان کے اکاؤنٹ میں رہائی تک جمع ہوتا رہے۔
میرے مہمانوں کو پاکستان کے لیے روانگی سے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہاں انھیں اِن دنوں گرم مرطوب موسم ملے گا لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ بجلی اس تواتر سے آنکھ مچولی کھیلتی ملے گی۔
ان کے بچے بجلی آنے پر یک زبان ہو کر نعرہ لگاتے ''بجلی آ گئی ہے'' لیکن جس روز بجلی چار پانچ گھنٹے تک نہ ہوتی تو وہ اپنے والدین سے پاکستان لائے جانے کا گلہ بھی کرتے سنے گئے۔ گزشتہ جمعرات کو نو گھنٹے تک بجلی نہ آئی تو ان کے ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کہ انکل اب تو نو گھنٹے ہو گئے لیکن اسی لمحے بجلی آ گئی تو میں نے کہا بیٹے ہمارے حکمران ہمارے گھر کے قریب سے سگنل فری سڑک گزار رہے ہیں، انھیں فلائی اوور اور انڈرپاس بنانے کا بڑا شوق ہے۔ میری بات سن کر ڈاکٹر بولے، میں نے سنا ہے اس شوق کے پیچھے کمیشن کا لالچ ہوتا ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ ایسی افواہیں دشمن اور مخالف پھیلاتے رہتے ہیں۔
میرے مہمانوں نے گزشتہ وزٹ پر شالامار باغ، مینار پاکستان، میوزیم، قلعہ وغیرہ دیکھ لیے ہوئے تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد مجھے خیال آیا کہ سینٹرل جیل کا قالینوں کا کارخانہ، واہگہ کا ٹرپ ایسی دو جگہیں جو انھیں یاد رہیں گی تیسری جگہ ایسی ہونی چاہیے جو نئی اور انوکھی ہو۔ اسی لمحے مجھے کھیوڑہ سالٹ رینج کا خیال آیا اور اگلے روز میں اپنے مہمانوں کو لے کر تین گھنٹے کی ڈرائیو کو نکلا۔ موٹروے کا دو گھنٹے کا سفر اور لِلہ انٹرچینج سے مڑ کر ہم کھیوڑہ کی طرف چل نکلے۔ ایک گھنٹے کی مزید ڈرائیو کے بعد ہم کھیوڑہ سالٹ مائنیز کے دہانے پر تھے۔
ٹرین کے ٹکٹ لیے اور سب پہاڑی غار کے دہانے پر اندر سے آنے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ ٹرین جو دوطرفہ کھلے ڈبوں پر مشتمل تھی اس کا دو کلومیٹر Tunnel کا سفر تھا۔ بہت سے لوگ ریلوے ٹریک کے دائیں بائیں چلتے ہوئے پیدل ہی اندر جا رہے تھے کیونکہ سرنگ کے اندر روشنی کا انتظام تھا۔ کھیوڑہ سالٹ کی دریافت 326 قبل مسیح ہوئی تھی اور اس کی وسعت 300 کلومیٹر لمبائی اور کہیں 8 تو کہیں 30 کلومیٹر چوڑائی ہے۔
نمک کے پہاڑ کی بلندی 2200 فٹ تک ہے۔ ٹرین بیرونی دہانے پر سیاحوں کو لینے آئی تو اس کے گائیڈ نے بتایا کہ اب تک بمشکل دس پندرہ فیصد نمک نکالا گیا ہے جو صدیوں تک مقامی اور برآمدی ضرورت پوری کرتا رہے گا۔ ٹرین پرانی اور اس کا ٹریک ناہموار تھا۔ سرنگ میں زیادہ روشنی ہوتی تو نظارے کا لطف دوبالا ہوتا کیونکہ اس کی چھت اور دیواریں کسی جگہ سفید، کہیں گلابی اور کسی جگہ ملے جلے رنگوں کی تھیں۔ کھیوڑہ نمک کے پتھروں کے سوونیئرز لیمپ، پین ہولڈر، مرتبان، جار، ایش ٹرے، کینڈل اسٹینڈ بہت سی دکانوں پر برائے فروخت تھے۔
وہاں چند غیرملکی بھی دیکھے جو سوونیئر خرید رہے تھے۔ دنیا کی دوسرے نمبر کی بڑی کان کا یہ انمول اور محیرالعقول ذخیرہ متقاضی ہے کہ ہائی وے سے اندر جاتی سڑک جو ٹوٹی پھوٹی ہے اسے بہتر کیا جائے، سرنگ میں جانے والی ٹرین اپ گریڈ کی جائے، اس کا ٹریک ہموار کیا جائے اور سیاحوں کے بیٹھنے، کھانے پینے اور ٹائلٹس کو اس طلسم کدے کے شایان شان بنایا جائے۔ میرے مہمان بلاشبہ کھیوڑہ وزٹ کا ذکر جب وہ واپس جائینگے تو اکثر لوگوں سے کرینگے۔