دوسری جنگ عظیم چین سے کچھ سیکھئے

چین نے ہمیشہ اس نکتے پر عمل کیا۔ اس نے نہ کسی ملک پر قبضہ کیا، نہ فوجی اڈے بنائے اور نہ دہشت گرد برآمد کیے۔


Zahida Hina September 06, 2015
[email protected]

لاہور: دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 70 ویں سالگرہ کے موقعے پر چین کی جانب سے قابض جاپان کے خلاف یوم فتح کی ایک عظیم الشان اور پُرشکوہ تقریب بیجنگ کے مشہور زمانہ تینامن اسکوائر میں منعقد ہوئی۔

اس شاندار فوجی پریڈ میں چین کے بارہ ہزار فوجیوں کے علاوہ کئی دیگر ممالک کے دستوں نے بھی حصہ لیا، جن میں سب سے بڑا فوجی دستہ پاکستان کا تھا۔ چین میں تیار کردہ جدید ترین لڑاکا طیاروں اور میزائیلوں کی پہلی بار اس تقریب میں عام نمائش کی گئی۔

دنیا کے 30 ملکوں کے سربراہان اور اعلیٰ حکام تقریب میں شریک ہوئے جن میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن، پاکستان کے صدر ممنون حسین، جنوبی کوریا کے صدر پارک گیون اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون شامل تھے۔ اس تقریب میں امریکا جاپان، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی اہم ملکوں کے سربراہوں نے مدعو ہونے کے باوجود شرکت نہیں کی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس نوعیت کی فوجی تقریبات جنگجوئی کے رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہیں۔

اس تقریب کی حساسیت کے پیش نظر بیجنگ کے اطراف میں واقع تمام کارخانوں، باربی کیو ریستورانوں اورگاڑیوں کی آمدورفت پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں جس کا ایک فائدہ شہریوں کو یہ ہوا کہ نہ جانے کتنی مدت کے بعد انھوں نے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل بیجنگ کے آسمان کو دھوئیں سے پاک اور نیلا دیکھا۔

اس عظیم الشان پریڈ کے موقعے پر چین کے صدر نے 23 لاکھ فوجیوں پر مشتمل چینی افواج میں 13 فیصد کمی کا اعلان بھی کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ 3 لاکھ فوجیوں کو ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ کسی معاشی بحران یا دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب چین دفاع کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کرے گا۔

چھ سال تک جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم میں جو بے پناہ جانی اور مالی نقصانات ہوئے، پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سوویت یونین نقصان اٹھانے والے ملکوں میں سرفہرست تھا۔ اس جنگ عظیم میں دو کروڑ سے زیادہ روسی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ کس قدر المناک حقیقت ہے کہ 1927ء میں جو لڑکے سوویت یونین میں پیدا ہوئے تھے ان میں سے 80 فیصد اس جنگ کا نوالہ بنے۔ دوسری جنگ عظیم ہر حوالے سے تاریخ کی بدترین جنگ تھی۔

یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں انسانوں نے ایک دوسرے کے خلاف ایسے شرمناک جرائم کیے جن کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ جنگ کے چھ برسوں کے دوران اتحادی افواج نے 34 لاکھ ٹن بم برسائے۔ نازی جرمنی اور سوویت یونین کے درمیان اسٹالن گراڈ کے محاذ پر انسانی تاریخ کی سب سے بھیانک خونی لڑائی لڑی گئی، جس میں اندازوں کے مطابق آٹھ لاکھ سے زیادہ فوجی اور شہری ہلاک ہوئے۔

حراستی کیمپوں میں لاکھوں انسانوں کو اذیتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔ یہ واقعہ بھی آج شرم سے ہمارے سر جھکا دیتا ہے کہ سوویت افواج نے جرمنی پر قبضہ کرنے کے بعد 13 سے 70 سال تک کی 20 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی تھی۔ نازیوں نے ایک کروڑ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا۔

اس جنگ میں سوویت یونین کے بعد چین کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جس کے 13 لاکھ فوجی اور ایک کروڑ سے زیادہ شہری جنگ میں کام آئے ۔ اس کے بعد جرمنی کا نمبر آتا ہے جس کی کل ہلاکتوں کی تعداد 70 لاکھ سے زیادہ تھی۔ جنگ کے پھیلاؤ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلا جرمنی فوجی جاپانیوں کے ہاتھوں چین میں ہلاک ہوا جب کہ پہلے امریکی فوجی کو روسیوں نے فن لینڈ میں ہلاک کیا تھا۔ اسی جنگ کے دوران یہ بھی ہوا کہ جاپانی فوجیوں نے نیوی کے افسروں کی دعوت کی جس میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی فوجی کا جگر پیش کیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں کئی ناقابل تصور واقعات رونما ہوئے ۔ ایک امریکی ہوائی جہاز تباہ ہوا اور اس کے نو لوگ زندہ بچ گئے جن میں سے 8 کو جاپانیوں نے پکڑ لیا اور انھیں کھا گئے۔ ان میں سے واحد زندہ بچنے والے کا نام جارج ایچ ڈبلیو بش تھا۔ اسی جنگ کے دوران یہ بھی ہوا کہ ایک امریکی ہوا باز 20 ہزار فٹ کی بلندی سے بغیر پیراشوٹ ایک ریلوے اسٹیشن کی شیشے کی چھت پر گر کر زخمی ہوا اور 82 برس کی عمر تک زندہ رہا۔

دوسری جنگ عظیم چھ سال جاری رہی لیکن ایک جاپانی سپاہی ہیرو اونوڈو29 برس تک حالت جنگ میں رہا۔ اس فوجی کو اس کے افسروں نے 1944ء میں فلپائن کے ایک دور دراز جزیرے پر امریکی افواج کے خلاف گوریلا جنگ میں حصہ لینے کے لیے بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جان کو ہر قیمت پر بچائے۔ اونوڈو حکم پر عمل کرتے ہوئے اس جزیرے کے جنگل میں روپوش ہو گیا ۔ اس کے ساتھ بہت کم فوجی تھے جو رفتہ رفتہ اسے چھوڑ گئے۔

وہ تنہا روپوش رہ کر دشمن کا انتظار کرتا رہا۔ دو دہائیوں بعد، ایک جاپانی نوجوان اس کی تلاش میں نکلا اور بالآخر اسے ڈھونڈ نکالا ۔اسے بتایا گیا کہ جنگ 29 سال پہلے ختم ہو چکی ہے۔ یہ جاپانی فوجی 1974ء میں اس شرط پر روپوشی ترک کرنے کے لیے آمادہ ہوا کہ اس کا کمانڈنگ افسر اسے ایسا کر نے کا حکم جاری کرے۔ جاپانی نوجوان واپس آیا، کمانڈنگ افسر کا حکم نامہ حاصل کر کے اسے اونوڈو کے حوالے کیا جس کے بعد اس جاپانی فوجی نے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔

جاپانیوں نے چین پر حملہ کرتے ہی قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں جاپان نے اپنے فوجیوں کو سرکاری طور پر 6 ہفتوں کے لیے چینیوں کے قتل عام کی اجازت دی چنانچہ صرف ان چھ دنوں میں جاپانی فوجیوں نے 3 لاکھ شہریوں کو قتل کر دیا۔

جنگ کے دوران جاپان نے 2 لاکھ چینی عورتوں کو غلام بنا کر انھیں جاپانی فوجیوں کے لیے قائم کردہ چکلوں میں کام کرنے پر مجبور کیا۔ جاپانی افواج کے مظالم اور چینی افواج کی شاندار مزاحمت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک عجیب حقیقت ہے کہ 1972ء میں ماؤزے تنگ نے جاپانی وزیر اعظم نکوئی تاناکا ،کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ '' اگر جاپان نے جنگ کا آغاز نہ کیا ہوتا تو ہم کمیونسٹ اتنے طاقتور اور عظیم کس طرح ہو سکتے تھے۔''

3 ستمبر 2015ء کو چین نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے 70 سال پورے ہونے کے حوالے سے جس شاندار پریڈ کا اہتمام کیا اس کا مقصد موجودہ جاپان کو ڈرانا یا دھمکی دینا ہرگز نہیں ہے۔ چینی صدر نے جنگ کے عمر رسیدہ فوجیوں کو تمغے دینے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اس تاریخی صداقت کو آشکار کرنے میں منافقت سے کام نہیں لیا کہ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران چین کے عوام کے خلاف ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

انھوں نے تلخ ماضی کو یاد دلاتے ہوئے پُر امن مستقبل کی جانب پیش قدمی کرنے کا پیغام دیا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے فاشزم کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے فوجیوں اور شہریوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین انداز یہی ہو گا کہ دنیا میں اس طرح کے تاریخی سانحات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جائے ۔

چین نے دوسری جنگ عظیم کے افتتاح کی 70 ویں سالگرہ کے موقعے پر جس فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس کا مقصد دنیا پر محض اپنا رعب ڈالنا نہیں ہے۔ روس، پاکستان، جنوبی کوریا اور 30 ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں کو یکجا کرنے کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ 21 ویں صدی ایشیا اور تیسری دنیا کی صدی ہے، لہٰذا ترقی پذیر اقوام کے لیے لازم ہے کہ وہ جنگ و جدل سے ہر قیمت پر گریز کریں اور باہمی تنازعات کو پُرامن طریقوں سے حل کیا جائے۔

ایسے مشکل اور پیچیدہ مسائل جن کا فوری حل کسی بھی وجہ سے ممکن نہ ہو اسے معاشی تعلقات کے قیام کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ چین کے صدر، جنوبی کوریا کے صدر کی شمولیت کے بہت خواہاں تھے۔ وہ نہ صرف جنوبی کوریا بلکہ پوری دنیا کو یہ اشارہ دینا چاہتے تھے کہ چین، کوریا کے اتحاد کو ممکن بنانے کے لیے تیار ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ چین نے اس موقعے پر فوجی طاقت کا اتنا بھرپور مظاہرہ کیا تو اس کی وجوہ بھی عیاں ہیں۔ چین دنیا میں اسلحہٰ برآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے لہٰذا اس پریڈ سے دفاعی مصنوعات کی نمائش کا تجارتی پہلو نمایاں کرنا بھی تھا۔

چین ہماری طرح جذباتی نہیں بلکہ ایک دانش مند قوم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اصل طاقت، معیشت کی طاقت ہے، معیشت کمزور ہوتو ایٹمی ہتھیار بھی ملکوں کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتے۔

چین نے ہمیشہ اس نکتے پر عمل کیا۔ اس نے نہ کسی ملک پر قبضہ کیا، نہ فوجی اڈے بنائے اور نہ دہشت گرد برآمد کیے۔ اس نے اپنی معیشت کو بلندیوں پر پہنچایا اور امریکا جیسے حریف ملک کو اپنا سب سے بڑا تجارتی حلیف بنا کر اسے بے دست و پا کر دیا۔ چین ہمارا دوست ہے۔ لوگ دشمنوں تک سے سیکھتے ہیں اور ہم ہیں کہ دوستوں سے بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔ واہ، سبحان اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں