کوئی تو چارہ گری کو اُترے

70ء کی دہائی میں کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا‘ تب اسے حقیقی معنوں میں ’’غریب کی ماں‘‘ کا درجہ حاصل تھا


رحمت علی راز September 06, 2015
[email protected]

لاہور: صدر ایوب خان کے دور میں واہ کے آرڈنینس کمپلیکس کی تعمیر کی گئی تو چین کے ایک وفد نے اس عمارت کا دورہ کیا' وفد نے ایک کمرے کی چھت کو ٹپکتے دیکھا' میزبان نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا، ''عمارت ابھی نئی نئی بنی ہے اسلیے ٹپک رہی ہے''۔

یہ سن کر چینی وفد کے ایک رکن نے استہزائیہ انداز میں کہا، ''شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکتی تھیں' پھر ہم نے بدعنوانی کے مرتکب ایک ٹھیکیدار کو سرعام گولی سے اُڑا دیا' اس دن کے بعد ہماری عمارتیں نئی ہوں یا پرانی کبھی نہیں ٹپکیں''۔ ہمارے ہاں احتساب کلچر کا رواج نہیں' اور احتساب ہوتا بھی ہے تو صرف ایسے طبقے کا جن کے لیے زندگی بذاتِ خود کسی احتساب سے کم نہیں۔ اشرافیہ' افسرشاہی اور سیاسی اکابرین پاکستان کی ہڈیوں سے گودا اور رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے لیے روز و شب ایک کیے ہوئے ہیں مگر 68 سالہ ملکی تاریخ میں کسی بڑے کا احتساب کبھی نہیں ہو پایا۔

سندھ رینجرز نے ایم کیو ایم کے بعد جب پیپلز پارٹی کے کرپٹ عناصر کے خلاف شکنجہ کسنا شروع کیا تو پورے ملک سے داد و تحسین کے کلمات کی گونج اُبھرنے لگی حالانکہ اس احتساب کا براہِ راست تعلق کراچی بدامنی سے متعلق ہے جس میں سندھ کی سیاسی پارٹیاں بالواسطہ طور پر ملوث ہیں' ڈاکٹر عاصم سمیت پیپلزپارٹی کے آج تک جتنے لوگ بھی گرفتار ہوئے وہ کرپشن کے نقطہ نظر سے کراچی کے حالات سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں مگر پیپلزپارٹی نے بھی ایم کیو ایم کی طرح اس پر سیاسی انتقام کا لیبل لگا دیا ہے۔

70ء کی دہائی میں کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا' تب اسے حقیقی معنوں میں ''غریب کی ماں'' کا درجہ حاصل تھا جو پورے ملک کے عوام کو اپنی گود میں لے لیتی تھی۔ 80ء کے عشرے میں ایم کیو ایم نے حقوق دینے کے نام پر مہاجروں کو اپنا اسیر بنا لیا' ضیاء الحق کی موت کے فوراً بعد ایم کیو ایم نے اپنی تنظیم نو کے لیے محلہ کمیٹیوں اور سیکٹر کی سطح پر کارکنوں کے ونگز تشکیل دیئے جن کے بل بوتے پر کراچی کا کنٹرول مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں آ گیا۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی کمزور حکومتوں اور مفاد پرستانہ مفاہمتوں نے ایم کیو ایم کو ایک زندہ حقیقت بنا ڈالا' اُس وقت تک ایم کیو ایم مبینہ طور پر ایک محدود پیمانے پر ٹارگٹ کلنگ' اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث تھی مگر اسے ایک منظم گروہ بننے کا موقع مشرف حکومت نے فراہم کیا۔

سابق ڈی جی رینجرز سندھ اور موجودہ آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل رضوان اخترکی مخلصانہ کوششوں اور رینجرز کی بھرپور خواہش کے باوجود کراچی میںایک گرینڈ آپریشن کا آغاز نہ ہو سکا جسکا سب سے بڑا سبب زرداری الطاف اتحاد تھا' اس کہانی میں غیر متوقع موڑ اس وقت آیا جب نون لیگ نے اقتدار سنبھالتے ہی جنرل راحیل شریف کا بطور آرمی چیف انتخاب کیا جنھوں نے لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کوآئی ایس آئی چیف مقرر کر دیا اور ان کی جگہ میجر جنرل بلال اکبر ڈی جی رینجرز سندھ تعینات ہوئے جو اپنے پیشرو کی طرح ایک مردِ شجاعت اور باصلاحیت کمانڈر ثابت ہوئے۔

واز شریف نے یوں تو اپنا کوئی بھی انتخابی وعدہ ایفا نہ کیا لیکن روشنیوں کے شہر کی تجلی لوٹانے کا اقرار ضرور پورا کیا جس کی بدولت کراچی میں رینجرز آپریشن شروع ہو گیا' یہ آپریشن آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف کی ذاتی خواہش پر شروع ہوا جنھوں نے میجر جنرل بلال اکبر کو پوری طاقت کے ساتھ آپریشن شروع کرنے کی حمایت کا یقین دلایا' رینجرز نے چھ ماہ کی مثالی کارکردگی کے بعد کراچی میں پنجے گاڑھے، جرائم کے نیٹ ورک کی کمر توڑ کر رکھ دی جسکے نتیجے میں امن کمیٹی' رابطہ کمیٹی اور دیگر تمام کمیٹیوں کے لوگ زیر زمین چلے گئے۔

پکڑے اور مارے جانیوالوں میں زیادہ ترتعداد ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی تھی جن سے ان کی اپنی جماعتوں نے اپنا دامن صاف رکھنے کے لیے لاتعلقی کی حکمت عملی اپنائی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں پر ہاتھ پڑتے ہی متحدہ کے راہنماؤں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور فضا کچھ ایسی بن گئی کہ الطاف حسین ہر روز صبح وشام پاک فوج اور ایجنسیوں پر کیچڑ اُچھالنے لگے۔ یہ سلسلہ میڈیا پر چلتا رہا لیکن نہ تو رینجرز کی کارروائیوں میں کوئی سستی آئی' نہ ہی الطاف بھائی کے بیانات میں۔ ایم کیوایم نے مہاجریت کو ایک بار پھر ہوا دینا شروع کر دی اور یہ پرانا جملہ ایک بار پھر دہرایا جانے لگا کہ مہاجروں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

نائن زیرو پر چھاپے سے پہلے ڈی جی رینجرز سندھ یہ بھیانک انکشافات کر چکے تھے کہ بھتہ خوری' ایرانی ڈیزل' فطرانے اور کھالوں کی رقم' چائنہ کٹنگ اور اغواء برائے تاوان سے حاصل ہونے والا کالا دھن کراچی میں ہونے والی دہشت گردی و دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں استعمال ہوتا ہے اور ان سارے دھندوں میں ملوث مجرمان کا تعلق سندھ کی سیاسی جماعتوں سے ہے لہٰذا دہشت گردی کے اس مکروہ نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے اس کی پشت پناہی کرنیوالے افراد پر ہاتھ ڈالنا اشد ضروری ہو گیا تھا، اسی لیے رینجرز آج بھی اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر دن رات کراچی کا امن بحال کرنے میں مصروف ہے اور اس میں غیرمعمولی کامیابیاں بھی حاصل ہو چکی ہیں۔

رینجرز کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی سے اربوں روپے کا بھتہ ہرماہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوتا تھا' آگے اس رقم سے کون نقاب پوش مستفید ہو رہے ہیں اس کا پتہ لگانا ابھی باقی ہے' اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ سندھ بھر کے سرکاری محکموں' کارخانوں' صنعتوں اور وزارتوں سے اربوں کھربوں کا سالانہ خراج بلاول ہاؤس کراچی کو جاتا ہے' کراچی میں بہت سے سیاسی و مذہبی ٹیرر مافیاز متحرک ہیں جو مختلف ذرائع سے کراچی سے زرِ سیاہ کشید کر رہے ہیں' ان میں ایک نیٹ ورک ''را'' کا بھی ہے جو خفیہ جرائم سے بے پناہ مال بنا کر کراچی اور بلوچستان میں اپنی تحریکوں پر خرچ کر رہا ہے' جولوگ ان کے لیے کام کر رہے ہیں ۔

ان کا تعلق بھی کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے ہے' ایسے میں اگر رینجرز ان پر ہاتھ نہ ڈالے تو (خاکم بدہن) کراچی کا صرف امن ہی غارت نہیں ہو گا بلکہ کراچی میں حکومت کی رِٹ مکمل طور پر ختم بھی ہو سکتی ہے۔ رینجرز کراچی اور سندھ میں بلاامتیاز کارروائی کر رہی ہے' ایم کیوایم پر جب انھوں نے ہاتھ ڈالا تو متحدہ سمیت باقی سیاسی جماعتوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا کہ صرف ایم کیوا یم ہی کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

خود پیپلزپارٹی کے لوگوں نے بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ صرف ایک جماعت کو ٹارگٹ کرنا مناسب نہیں' رینجرز نے نائن زیرو کے فوراً بعد بلاول ہاؤس پر بھی ریڈ کرنے کا منصوبہ بنایا مگر وفاقی حکومت نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا' بعد میں آصف زرداری نے اس کا ردعمل اپنی تقریر کے ذریعے دے ڈالا جس میں انھوں نے اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ صاف الفاظ میں آرمی کو مطعون کیا اور یہاں تک کہہ دیا، ''اگر ہمیں دیوار سے لگانے اور ہماری کردار کشی کی روش ترک نہ کی گئی تو ہم قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک جرنیلوں کی وہ وہ لسٹیں نکالیں گے کہ وہ پھر وضاحتیں دیتے پھریں گے۔

سیاستدانوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں ورنہ ہم آپکی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دینگے' آپ نے تین سال رہنا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ہم نے رہنا ہے''۔ وہ اس سے قبل بھی ''مہربانوں'' کو دودھ پینے والے بلے سے تشبیہ دے چکے تھے اور میاں صاحب کو بھی اس بلے کو فتح کرنے کے لیے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے رہے اور میاں صاحب زرداری کے چکر میں اس حد تک آ گئے کہ وہ جنرل مشرف کو غدار قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے تھے لیکن جب ''مہربانوں'' نے اپنے انداز سے انھیں بھرپور طریقے سے احساس دلانے کی کوشش کی تو پھر یہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو بچانے میں ہی عافیت سمجھی۔ زرداری کے ایسے مضحکہ خیز بیانات سے ان کا خوف صاف جھلکتا تھا کہ انہیں واشگاف طریقے سے یہ پیغام مل چکا تھا کہ حساب دینے کا وقت آ گیا ہے۔

زرداری صاحب شاید بھول گئے تھے کہ اس وقت وہ ملکی سیاست میں غیر فعال ہیں اور ان کی وقعت ایک ہارے ہوئے گھوڑے سے زیادہ نہیں۔ انہیں شاید یہ زُعم آج بھی تھا کہ ان کا سندھ کارڈ بہت پاورفل ہے جسکے بَل پر وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں' شاید اسی لیے انھوں نے اپنی تقریر میں یہ دھمکی بھی شامل کر دی کہ ''جب پیپلزپارٹی نے ہڑتال کی کال دی تو خیبر سے لے کر کراچی تک سارا پاکستان جام ہو جائے گا''۔

یہ بھی ان کی خام خیالی ہے کہ اب سندھی قوم پرست یا جئے بھٹو کہنے والے جیالے ان کے اشارے پر سیلاب کی طرح بپھر جائینگے جس کی رُو میں پاکستان خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا' حقیقت یہ ہے کہ زرداری کے ''کارناموں'' سے تو اب سندھی بھی بیزار ہو چکے ہیں اور ان کے کہنے پر تو اب نواب شاہ اور لاڑکانہ بھی بند نہیں ہونیوالے۔ یہ سب اقتدارکا خمار تھا جو ابھی تک ان کے حواس پر سوار تھا ورنہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بلاول بھی کھڑا نظر نہیں آئیگا' جب ''مہربانوں'' نے انھیں آئینہ دکھایا تو ان کا اقتدار کا نشہ اُتر گیا' بعد میں ان کے طبلہ نوازوں نے صفائیاں پیش کرنا شروع کر دیں کہ زرداری نے فوج کے خلاف کچھ نہیں کہا' اگر نہیں کہا تو کیا انھوں نے بھارت کی فوج کو للکارا تھا؟ اگر وہ اتنا ہی مردِ حُر تھا تو پھر ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو کر اچانک باہر کیوں بھاگ گیا؟ اب جب پیپلزپارٹی والوں پر گرفت مضبوط ہونا شروع ہوئی ہے تو اسے سیاسی انتقام قرار دیا جا رہا ہے۔

انھیں ضرور معلوم ہو گا کہ سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وفاقی حکومت کا کوئی سروکار نہیں بلکہ نواز کابینہ تو اس صورتحال پر خود تذبذب کا شکار ہے اور اسے ریاست کی طرف سے بار بار یہ پیغام موصول ہو چکا ہے کہ کراچی آپریشن بغیر کسی سیاسی مصلحت کے جاری رہنا چاہیے۔

ہر طرف شور مچایا جا رہا ہے کہ دوسرے صوبوں کو نظرانداز کر کے صرف سندھ کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے' یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے کہ پنجاب کو کیوں استثنیٰ دیا جا رہا ہے' ڈاکٹر عاصم اور پی پی کی کچھ میڈیم یا ہائی پروفائل شخصیات کی گرفتاریوں کے بعد زرداری نے اڑھائی ماہ کی خاموشی لندن جا کر توڑی اور نواز شریف کو براہِ راست موردِ الزام ٹھہرا دیا کہ ''وہ اپنے فطری ساتھی طالبان کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور وہ حقیقی دشمن کو چیلنج کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انھوں نے 90ء کی دہائی کی انتقامی سیاست کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے''۔ ایک مرتبہ پھر زہر افشانی کر کے زرداری نے اپنے خوف کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ چونکہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی دونوں اس وقت گرفتاریوں کی زد پر ہیں لہٰذا ان کے ساتھ اتحاد کر لیا جائے تو دونوں ملکر پاکستان نہیں تو کم ازکم سندھ تو بند کرا ہی سکتے ہیں' اس غرض سے رحمن ملک اور کچھ دوسرے پنچائتیوں کو ایم کیو ایم کے لندن کے پیرخانے پر روانہ کر دیا گیا ہے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم دوسیاسی حقیقتیں ہیں اور آیا کراچی آپریشن کی مخالفت کر کے اور اپنے اندر موجود کرپٹ عناصر کا دفاع کر کے عوام کی نظروں میں وہ اپنا سیاسی امیج برقرار رکھ پائیں گی اور کیا ایم کیو ایم کا ووٹر آئندہ اس کی حمایت کے لیے تیار ہو پائیگا اور کیا ریاست کے خلاف حکمت عملی اپنانے پر بلاول کی قیادت سندھ میں پیپلزپارٹی کا وجود برقرار رکھ پائے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کی دو بڑی جماعتیں پی پی اور ایم کیو ایم کراچی کے حالات کی ذمے دار ہیں لہٰذا اب تک سندھ میں رینجرز نے جو بھی کارروائیاں کیں ان کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ کراچی کیس سے ہے۔ سیاسی حلقوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ منافرت کا ماحول گرم کرنے سے کراچی آپریشن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ پھر ان ہی فریقین کو ہو گا جو اس بدامنی کے خالق ہیں۔

زرداری کے لنگوٹیا یار ذوالفقار مرزا تو ان کے بارے میں کئی بار برملا جو کہہ چکے ہیں، خدا کی پناہ! تیسرے نمبر پر صوبائی وزراء ہیں جنھوں نے اربوں روپے کا مال بنایا۔ یہ تو ابھی چند ایک کا تذکرہ ہے' ایسے ہی اور ہزاروں لوگ ہیں جو اس تارِ عنکبوت کے تانے بانے ہیں جن کی فہرستیں مرتب ہو چکی ہیں اور بیرون ممالک فرار ہو چکی کئی اہم شخصیات کے ریڈ وارنٹ جاری کرانے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔

ایف آئی اے اور نیب نے بعض افراد کے ریڈ وارنٹ کے اجراء کے لیے وزارتِ داخلہ کو خط بھی لکھ دیا ہے اور کرپشن میں ملوث نامور شخصیات کو پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ کراچی آپریشن کے تناظر میں گرفتاریوں کی لہر کے بعد سندھ سے تعلق رکھنے والی بیشمار سیاسی وسرکاری شخصیات بیرونِ ملک فرار ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی دہشت گردی اور کرپشن میں ملوث ہونے کی معلومات ایجنسیوں کے پاس موجود تھیں انہیں ملک سے باہر جانے کا موقع کیسے دیا گیا؟ ہماری نظر میں اس کا سہرا وزارتِ داخلہ کے سر جاتا ہے کیونکہ کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈلوانے اور نکلوانے کے لیے وزارتِ داخلہ سے منظوری لینا ہوتی ہے جو آئیں بائیں شائیں ہو جاتی ہے۔

اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پکڑے جانے کے خوف سے سندھ کے دو سو سے زائد سابق و حاضر سروس سرکاری ملازمین نے اہل خانہ سمیت حج و عمرہ کے مہنگے مہنگے پیکیج حاصل کر لیے ہیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ رینجرز کی حکمت عملی اور عملی کوششوں کی بدولت کراچی کا اسّی فیصد امن بحال ہو چکا ہے اور بشمول ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کراچی' سندھ اور پاکستان کے عوام نے بھی اس پر طمانیت کا اظہار کیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار رینجرز نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اور جس طرح کرپشن میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا ہے کیا وہ مستقل قائم بھی رہ پائیگا اور کسی مصلحت کا شکار تو نہیں ہو گا؟

اور کیا ڈاکٹر عاصم سمیت اب تک جتنے مجرم بھی گرفتار کیے گئے ہیں جن پر الزام لگایا گیا کہ ان کا رابطہ دہشت گردوں سے جا ملتا ہے انھیں سزا مل بھی مل سکے گی؟ ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے یہ واویلا شروع کر رکھا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ زرداری کے بیان سے تو یہ تاثر ملتا ہے اور اب تو پی پی راہنماؤں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سارا کچھ نواز شریف کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں' یہ تو اب حکمرانوں کا کام ہے کہ عوام کے تحفظات کو دور کر کے انہیں مطمئن کریں اور پنجاب میں جو بڑے بڑے مگرمچھ چھپے بیٹھے ہیں انہیں گریبانوں سے پکڑ کر باہر نکالیں۔

ان کا بھی ایسا احتساب کریں کہ سب کے منہ بند ہو جائیں' پنجاب میں احتسابی عمل شروع نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے صوبوں کو تنقید کا موقع مل رہا ہے اور اس سے کراچی کا احتساب بھی سبوتاژ ہونے کے خدشات کو تقویت مل رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ نواز شریف اب اس قابل نہیں رہے کہ وہ کسی سے سیاسی انتقام لے سکیں کیونکہ وہ تو اب انتقام کے نام سے بھی سہم جاتے ہیں' تجربات انسان کو احتیاط سکھاتے ہیں اور احتیاط اسے بزدل بنا دیتی ہے' یہی حال نوازشریف کا بھی ہے مگر وہ کچھ حد سے زیادہ ہی محتاط ہیں اور کسی اہم ایشو پر بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے سے ڈرتے ہیں۔

یہی سبب ہے کہ ان کی اس گم سم پالیسی کی وجہ سے سندھ رینجرز کی اب تک کی مثالی کارگزاری پر بھی پانی پھرتا نظر آتا ہے اور مہاکلاکاروں نے کراچی آپریشن کو مشکوک کرنے کے لیے اسے کچھ اور ہی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے' جیسا کہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ غیر سیاسی لوگوں کا بھی یہی اصرار ہے کہ نون لیگ والے کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔

باقیوں کے ساتھ ساتھ ان کا احتساب ہونا بھی ناگزیر ہے۔ بلاشبہ کرپشن کے حوالہ سے شریف برادران اور ان کے ہمرکابوں کی بھی کرپشن کی بھی ایک سیاہ تاریخ ہے جس پر دوسرے صوبوں کی طرح توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے مگر ان سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری غربت کا یہ حال ہے کہ ہم نے تو دو سال سے بنیان تک نہیں بدلی اور ہمیں تو ملک کی خدمت سے اتنی فرصت بھی نہیں کہ ہم پیٹ بھر کے کھانا ہی کھا لیں۔

نیب کی جانب سے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانیوالی 150 میگا کرپشن سکینڈل کی رپورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سامنے آنیوالے اربوں روپے کے میگا سکینڈلز اور کرپشن کیسز کا کوئی ذکر نہیں ہے' تقریباً ہر بڑے سیاسی رہنما بشمول وزیراعظم نوازشریف' سابق صدر آصف علی زرداری' سابق وزرائے اعظم وغیرہ کو دہائیوں پرانے مختلف مقدمات میں ملزم قرار دیا جا چکا ہے لیکن پرویزمشرف اور ان کے ساتھیوں اور وزیروں کا کوئی ذکر ہی نہیں' حالانکہ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شایع کی ہے۔

جس میں مشرف دور کو زرداری دور سے بھی کرپٹ قرار دیا گیا ہے' کیا تعجب ہے کہ اسی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں حالیہ نواز دورِ حکومت میں کرپشن میں ریکارڈ کمی آئی ہے' اس رپورٹ پر ایک سینئر تجزیہ کار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ٹرانسپیرنسی کے پاکستان میں سربراہ سید عادل گیلانی وزیر اعظم ہاؤس میں نوکری کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ملازم وہی کریگا جو مالک حکم دیگا''۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ نواز حکومت اپنی کارکردگی عملی طور پر بہتر کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں اپنے حق میں شایع کروانے میں زیادہ مستغرق نظر آتی ہے' اگر بات یوںہے کہ یہ رپورٹ نوازحکومت کی کارکردگی کو مثبت ترین ظاہر کر رہی ہے تو ہم اس سے بالکل بھی متفق نہیں ہیں۔ ابھی حال ہی میں کچھ سابق فوجی افسروں کا احتساب کر کے فوج نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ قانون کی نظر میں فوجی' سیاسی اور سویلین سب یکساں ہیں۔

ہم پختہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر سیاستدان ملک کو کنگال کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرتے تو فوج کبھی بھی بار بار اقتدار میں نہ آتی۔ اب بھی سیاستدانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہی پاک فوج اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر ملک و قوم کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ اسے ازلی مکار دشمن بھارت کے علاوہ اندر کے دشمنوں کے خلاف بھی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشرف کا احتساب تبھی ہو سکتا ہے جب نواز شریف بطور وزیر اعظم اپنے آپ کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کر کے مثال قائم کریں' اگر ان میگاکرپشن سکینڈلز کے ذمے داران کو شفاف احتساب کے عمل سے گزارا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ اصل کواکب کیا تھے اور بازی گر کیا کیا دھوکے اس قوم کو دیتے رہے۔

جو آج بھی دے رہے ہیں۔ نیب کا ادارہ ایسے ہی بڑے مگرمچھوں کے حساب کتاب کے لیے وجود میں لایا گیا تھا مگر افسوس کہ آج یہ پٹواریوں' کلرکوں اور چھوٹے موٹے فراڈیوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ مہذب ملکوں میں اگر کسی وزیر یا سربراہِ مملکت پر من گھڑت الزام بھی عائد ہو جائے تو وہ فوراً مستعفی ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیتا ہے مگر ہمارے خود غرض اور عوام کے ارمانوں کا خون کرنیوالے حکمرانوں کے سر پر سچے الزامات کا پہاڑ بھی رکھ دیا جائے تو وہ ہنس کر اسے ایک طرف کر دیتے ہیں۔

اس مشکل وقت میں جب پاک فوج اور حفاظتی اداروں کا امیج مشکوک کرنے کی کوششیں سر اٹھا رہی ہیں اور سندھ والے بار بار یہی رونا رور ہے ہیں کہ دوسرے صوبوں کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا تو ایسے میںہم وزیراعظم سے یہی کہیں گے کہ وہ ''مذاقِ جمہوریت'' کو ایک طرف رکھیں اور ایک ایساآزاد احتساب کمیشن تشکیل دیں جس میں سب سے پہلے میگاکرپشن سکینڈل کے 150 ملزموں کا احتساب تین مہینوں کے اندر اندر کیا جائے۔

اس کے بعد ایل این جی کی درآمد' نندی پور کی 18 ارب کی کرپشن' میٹرو کی کرپشن اور اصغر خان کیس کی بھی تیزی سے تحقیقات ہوں اور کرپشن ثابت ہو جانے پر مرتکبین کو سخت سے سخت سزائیں ہوں۔ جن معاشروں میں سنگین سزاؤں کا رواج نہیں ہوتا وہاں انسانیت اور انسانی اخلاق کے جنازے اٹھتے ہیں' جب تک نواز شریف خود کو اور اپنی کابینہ کے کرپٹ افراد کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتے دوسری جماعتیں ان پر سیاسی انتقام کا الزام دھرتی رہیں گی' اگر ایک آزاد احتساب کمیشن بھی یہ بھل صفائی کرنے میں ناکام رہے تو پھر اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا کہ رینجرز کو نیب کے اختیارات دیکر چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں بلا تعصب احتساب کا کام سونپ دیا جائے جو سندھ کی طرح پورے ملک کو بدصورت غلاظتوں سے پاک کریں ورنہ پھر آخری اُمید ''اوپر والا'' ہی ہے کہ وہ درد ناک عذاب نازل کرے اور انسانوں کا خون پینے والے درندوں کو اپنی گرفت میں لے لے' کیونکہ سرمایہ دارا نہ جمہوریت کے ہاتھوں کند چھریوں سے ذبح ہوتے عوام نے تو اب ہاتھ اٹھا اٹھاکر یہ دُعا مانگنا شروع کر دی ہے:

کہاں ہے اَرض و سَما کا خالق' کہ چاہتوں کی رگیں کُریدے

ہَوس کی سرخی رُخِ بشر کا ' حَسین غازہ بنی ہوئی ہے

کوئی مسیحا اِدھر بھی دیکھے' کوئی تو چارہ گری کو اُترے

اُفق کا چہرہ لہو میں تَر ہے ' زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں