نابالغ جذبوں کا جوار بھاٹا

16 سالہ نوروز اور 15 سالہ فاطمہ کے نابالغ عشق کا انجام ہولناک تو ہے ہی لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے

fatimaqazi7@gmail.com

لاہور:
16 سالہ نوروز اور 15 سالہ فاطمہ کے نابالغ عشق کا انجام ہولناک تو ہے ہی لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ جس عمر میں توجہ صرف اور صرف حصول علم کی طرف ہونی چاہیے وہاں غیر اخلاقی، غیر شائستہ اور شرعی اعتبار سے حد درجہ قابل مذمت کچی عمروں کے عشق کا جوار بھاٹا نہ صرف دو زندگیوں کو نگل گیا، بلکہ اپنے والدین کو عمر بھرکی رسوائی بھی دے گیا۔ ملک کے تمام باشعور والدین اس سانحے پہ افسردہ ہیں ۔

کئی سال پہلے میں نے کو ایجوکیشن اور کوچنگ سینٹرز کے اندر پروان چڑھنے والی نابالغ بچوں کے لَوافیئرز کے بارے میں بہت سے چشم دید واقعات لکھے تھے۔ میں نے بارہا اپنے کالموں میں والدین خصوصاً ماؤں کو احساس دلایا تھا کہ شعبہ تعلیم سے وابستگی کی بنا پر بہت قریب سے کھلی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھ رہی ہوں۔

پیزا اور برگر پوائنٹ پر، مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں میں طالبات یونیفارم میں بلاجھجک نوجوانوں کے ساتھ آزادانہ بیٹھی اور بے محابا گفتگو کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ نظارے میں نے بہت قریب سے اسلام آباد لاہور اور کراچی کے پارکوں اور ریستورانوں میں دیکھے ہیں۔ کراچی کے اس تکلیف دہ واقعے کی ذمے داری درحقیقت کس پر عائد ہوتی ہے؟ والدین پر، اساتذہ پر، نجی تعلیمی اداروں پر، کوچنگ سینٹرز پر، انٹرنیٹ پر یا موبائل فون کے بے جا استعمال پر؟ اب آتے ہیں ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے جو ہم نے اور میڈیا نے اٹھائے ہیں۔ میں بلا شبہ والدین کو، نجی تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سینٹرز کے مالکان کو برابر کا ذمے دار ٹھہراؤں گی۔

والدین کی ذمے داری میں بچوں کے دوستوں کی معلومات رکھنا، انٹرنیٹ اور موبائل پہ وہ کس سے محو گفتگو ہیں اور انٹرنیٹ پہ کیا دیکھ رہے ہیں، کس سے چیٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ تمام ذمے داری ماں باپ کی ہے۔ انٹرنیٹ پہ کہاں کہاں فلٹر لگا دینا چاہیے۔

وہ رات کو دیر تک کس سے اور کیوں بات کرتے ہیں؟ اس کا علم ماں باپ دونوں کو ہونا چاہیے۔ لیکن ماں کی ذمے داری زیادہ ہے۔ میرے اطراف ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ جہاں بچوں کے پاس گھر کی چابیاں ہوتی ہیں۔ وہ خاموشی سے آ کر تالا کھولتے ہیں کہ اماں رات بھر خالہ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی ہیں۔ کہیں ان کی نیند میں خلل نہ پڑ جائے۔ وہ اسکول سے آتے ہیں اور پیزا یا برگر جو وہ کینٹین سے خرید کر لاتے ہیں۔ فریج میں رکھی ہوئی کولڈ ڈرنک کے ساتھ حلق سے اتارتے ہیں اور اسی خاموشی سے دوبارہ دروازہ کھول کر یا تو باہر چلے جاتے ہیں یا کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر اپنی تنہائی دورکرتے ہیں تاوقتیکہ خادمہ آ کر گھنٹی نہ بجائے اور والدہ محترمہ بادل ناخواستہ اٹھ کر دروازہ نہ کھولیں۔

اب آتے ہیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سینٹرز کی طرف۔ میرے ساتھی پروفیسرز (جو کوچنگ سینٹر نہیں چلاتے) اس بات کی تائید کریں گے۔ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن میں طلبا و طالبات صرف مالکان کے ''کلائنٹ'' ہوتے ہیں اور اساتذہ کو اپنے شاگردوں کو بالکل بھی ڈانٹنے کی اجازت نہیں ہوتی، کیونکہ مالکان کی نظر صرف بھاری فیسوں کی وصولی پہ ہوتی ہے۔ اس موضوع پر بھی پہلے دو تین کالم لکھ چکی ہوں کہ کسی با اثر شخص کے بیٹے اور بیٹی کی غیر اخلاقی حرکات پہ ڈانٹنے پر میری ایک ساتھی کو پہلے شوکاز نوٹس ملا بعد میں دھمکی۔


لہٰذا اپنی عزت نفس سے مجبور ہو کر اس نے ملازمت چھوڑ دی۔ میری اس دوست نے کالج کے زمانے میں میرے ساتھ کئی تقریری مقابلوں میں ٹرافی اور انعامات جیتے تھے۔ اسی لیے کالجوں میں فرسٹ ایئر کے طلبا و طالبات جو پرائیویٹ اسکولوں سے میٹرک کر کے آتے ہیں۔ اساتذہ کو بہت پریشان کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کالجوں کے پروفیسرز نہ تو دباؤ میں آتے ہیں، نہ بدتمیزی برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی پرنسپل ایسے بے لگام طالب علموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد جن کا پس منظر اچھا ہوتا ہے وہ سنبھل جاتے ہیں لیکن نو دولتیے طبقے کے والدین اپنی سابقہ عادت سے مجبور ہو کر فوراً کالج کے پرنسپل پر اور اس پروفیسر پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ ایسے میں استاد کس حد تک ذمے دار ہے؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ ایک دفعہ ایک گرلز کالج میں جب ہم نے طالبات کے بیگ سے موبائل فونز نکال کر جمع کیے اور ان میں فیڈ نمبروں کو ملایا تو ہر نمبر پہ عجیب جملے سننے کو ملے۔

اب آتے ہیں کوچنگ سینٹرز کی طرف۔ پرائیویٹ اسکولز اور ٹیوشن سینٹرز میں جان بوجھ کر کو ایجوکیشن رکھا جاتا ہے تا کہ کچی عمروں کے بے لگام جذبوں کے ٹکراؤ سے فائدہ اٹھایا جائے۔

آپ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں یہ وبا عام دیکھیں گے کہ لڑکے لڑکیاں ٹیوشن سینٹرز کے اطراف گلیوں، پارکوں اور ریستورانوں میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے نظر آئیں گے۔ والدین کو اس وقت تباہی کا اندازہ ہوتا ہے جب نوروز اور فاطمہ جیسے واقعات جنم نہیں لیتے۔ ذرا ان خطوط کی عبارت پہ غور کیجیے جو دونوں نے اپنے والدین کو لکھے ہیں۔ ہماری تہذیب میں شادی شدہ لڑکیاں بھی باپ کے سامنے نظریں نہیں اٹھاتی ہیں۔ کہاں یہ دیدہ دلیری اور جرأت کہ ''بابا! میں نوروز سے بہت لو کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔'' نہایت کچی عمر اور ناپختہ ذہن کا لڑکا صرف 16 سال کی عمر میں برملا کہہ رہا ہے کہ ''میں فاطمہ کے علاوہ کسی کو بھی اپنی وائف نہیں بنا سکتا۔''

یہ عشقیہ ڈرامے، فلمیں اور انٹرنیٹ کا فحش اور اخلاق باختہ مواد ایک طرف۔ جو ایسی بے ہودگی کے یقیناً ذمے دار ہیں۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر جس سسٹم کو میں اس برائی کی جڑ سمجھتی ہوں وہ ہے اسکولوں، کالجوں اور ٹیوشن سینٹرز میں مخلوط نظام تعلیم۔ ہماری تہذیب اور روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ آگ اور تیل کو ساتھ ساتھ رکھا جائے گا۔ دھماکا تو پھر ہونا ہی ہے۔ جب دھماکا ہو گا تو بہت کچھ جل کر خاک ہو جائے گا۔

مخلوط تعلیمی نظام یونیورسٹی کی سطح پہ تو کسی حد تک مناسب ہے کہ انسان میں اتنی عقل آ جاتی ہے کہ اپنی عزت کا خیال رکھے لیکن یہ بھی اب گئے زمانے کی باتیں ہو گئیں۔ جب سامنے سے کسی پروفیسر کو آتا دیکھ کر لڑکا اور لڑکی الگ ہو جاتے تھے اور نگاہیں نیچی کر لیتے تھے۔ اب تو خواہ کالج ہوں، اسکول ہوں یا یونیورسٹیاں سب ''میرج بیورو'' میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اکثر والدین چاہتے ہیں کہ لڑکیاں خود اپنا بر ڈھونڈ لیں۔ پورا معاشرہ صرف پیسے کے حصول کے لیے زندہ ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور ٹیوشن سینٹرز کو صرف اپنی آمدنی سے غرض ہے۔ ان مشکوک معاملات میں ٹیوشن سینٹر کے مالکان، اساتذہ اور ملازم بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ حکومت کو فوری طور پر اسکولوں سے کو ایجوکیشن ختم کر دینی چاہیے۔ فوری طور پر یہ کیا جا سکتا ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور کوچنگ سینٹرز میں طلبا و طالبات کی کلاسز علیحدہ کر دی جائیں اور آیندہ سال مکمل طور پر طلبا و طالبات کے تعلیمی ادارے الگ الگ ہونے چاہئیں۔ یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ ہماری روایت ''کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نظر سے'' اب آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے اور اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
Load Next Story