سلامتی کونسل تنازعہ کشمیر حل کرائے
65ء کی ہونے والی جنگ کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر تھا جو آج تک نہ صرف حل طلب ہے
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے موجودہ صدر ویتالی چورکین، جو اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ہیں، کے نام اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ بھارت کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، بھارتی جارحیت کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس جارحیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بھارت کو 2003ء میں طے پانے والے سیز فائر معاہدے پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے یوم دفاع پر اپنے پیغام میں اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفاع پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے اور جدت کے لیے کوشاں رہیں گے، پاکستان ایک پرامن اور ذمے دار ایٹمی قوت ہے وہ تمام ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پر پرامن اور خوشگوار تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے، تاہم دشمن کی سازشوں اور ہتھکنڈوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہوں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ 6ستمبر ہمارے وقار کا دن ہے، وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، 50 سال قبل دشمن نے چھپ کر وار کیا جس کا ہم نے منہ توڑ جواب دیا اور وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اتوار کو ملک بھر میں یوم دفاع پورے جوش و خروش سے منایا گیا، یہ دن اس جرات، شجاعت اور غیر متزلزل عزم کا نام ہے جب ہماری بہادر افواج نے پوری قوم کے ساتھ مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو شکست دے کر وطن عزیز پر قبضے کے اس کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا تھا، ہماری افواج کے بہادر جوانوں نے ملکی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وطن کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والے طاقتور دشمن کو بھی عبرت ناک شکست دینے کی وہ بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ 65ء کی ہونے والی جنگ کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر تھا جو آج تک نہ صرف حل طلب ہے بلکہ کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سرحدوں پر جب بھی بھارت کی جانب سے جارحیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو اس سے پورے خطے میں جنگی فضا قائم ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اگر اس سلسلے نے طول پکڑا تو بات ایک بار پھر بھرپور جنگ تک آ سکتی ہے۔ چند روز قبل ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے درجنوں پاکستانی شہری شہید اور زخمی ہوگئے جس کے خلاف پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا۔
یو این مبصرین نے بھی سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کا دورہ کیا اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کے حوالے سے شواہد اکٹھے کیے، اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر بھارت نے پھر جنگ مسلط کی تو بھرپور جواب دیں گے۔ اس دوران امریکا کی مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر سوزن رائس پاک بھارت کشیدگی کے بعد خطے کی سلامتی کو درپیش معاملات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئیں اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی، انھوں نے بھارتی جارحیت سے نہتے شہریوں کی ہلاکتوں اور پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ بات چیت کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی توجہ بار بار بھارتی جارحیت کی جانب دلا رہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں نہ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ روکنے اور نہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں، ڈاکٹر سوزن رائس نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے دوران بھارتی جارحیت کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔
اب پاکستان نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی توجہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی جارحیت کی جانب دلائی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا اقوام متحدہ بھارتی جارحیت روکنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا یا اپنی روایتی بے حسی اور خاموشی کو قائم رکھے گا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات کی بات کی تو اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر انھیں سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی۔ گزشتہ دنوں قومی سلامتی مشیروں کے مذاکرات سے قبل بھارت نے مائنس کشمیر کا شوشہ چھوڑ کر بات چیت کے اس عمل کو شروع ہی نہ ہونے دیا، بھارت مذاکرات سے مسلسل فرار اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمام اسلامی دنیا کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر قرارداد پیش کرے کہ اس تنازع کو جلد از جلد حل کرایا جائے جب تک یہ تنازع حل نہیں ہوتا دونوں ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کے خطرات موجود رہیں گے اس لیے خطے کا مستقل اور پائیدار امن اس مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خصوصاً اس کے پانچ مستقل ارکان کا فرض ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر تنازعہ کشمیر حل کرائیں تاکہ اس خطے سے جنگ کے بادل چھٹ جائیں۔
اتوار کو ملک بھر میں یوم دفاع پورے جوش و خروش سے منایا گیا، یہ دن اس جرات، شجاعت اور غیر متزلزل عزم کا نام ہے جب ہماری بہادر افواج نے پوری قوم کے ساتھ مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو شکست دے کر وطن عزیز پر قبضے کے اس کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا تھا، ہماری افواج کے بہادر جوانوں نے ملکی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وطن کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والے طاقتور دشمن کو بھی عبرت ناک شکست دینے کی وہ بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ 65ء کی ہونے والی جنگ کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر تھا جو آج تک نہ صرف حل طلب ہے بلکہ کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سرحدوں پر جب بھی بھارت کی جانب سے جارحیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو اس سے پورے خطے میں جنگی فضا قائم ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اگر اس سلسلے نے طول پکڑا تو بات ایک بار پھر بھرپور جنگ تک آ سکتی ہے۔ چند روز قبل ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے درجنوں پاکستانی شہری شہید اور زخمی ہوگئے جس کے خلاف پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا۔
یو این مبصرین نے بھی سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کا دورہ کیا اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کے حوالے سے شواہد اکٹھے کیے، اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر بھارت نے پھر جنگ مسلط کی تو بھرپور جواب دیں گے۔ اس دوران امریکا کی مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر سوزن رائس پاک بھارت کشیدگی کے بعد خطے کی سلامتی کو درپیش معاملات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئیں اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی، انھوں نے بھارتی جارحیت سے نہتے شہریوں کی ہلاکتوں اور پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ بات چیت کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی توجہ بار بار بھارتی جارحیت کی جانب دلا رہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں نہ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ روکنے اور نہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں، ڈاکٹر سوزن رائس نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے دوران بھارتی جارحیت کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔
اب پاکستان نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی توجہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی جارحیت کی جانب دلائی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا اقوام متحدہ بھارتی جارحیت روکنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا یا اپنی روایتی بے حسی اور خاموشی کو قائم رکھے گا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات کی بات کی تو اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر انھیں سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی۔ گزشتہ دنوں قومی سلامتی مشیروں کے مذاکرات سے قبل بھارت نے مائنس کشمیر کا شوشہ چھوڑ کر بات چیت کے اس عمل کو شروع ہی نہ ہونے دیا، بھارت مذاکرات سے مسلسل فرار اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمام اسلامی دنیا کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر قرارداد پیش کرے کہ اس تنازع کو جلد از جلد حل کرایا جائے جب تک یہ تنازع حل نہیں ہوتا دونوں ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کے خطرات موجود رہیں گے اس لیے خطے کا مستقل اور پائیدار امن اس مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خصوصاً اس کے پانچ مستقل ارکان کا فرض ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر تنازعہ کشمیر حل کرائیں تاکہ اس خطے سے جنگ کے بادل چھٹ جائیں۔