بہترین انتقام

کئی لوگ رونے لگ گئے۔ کئی لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کر دیا

raomanzarhayat@gmail.com

محمود خان کا تعلق لائل پورکے سفید پوش لوگوں میں تھا۔ اب تو خیر لوگ ''سفید پوش'' کا مطلب تک نہیں جانتے۔ مفہوم جاننا تو دورکی بات ہے۔ ان کا بیٹا کلیم پاکستانی فوج میں تھا۔ لیفٹیننٹ کے طور پروہ 65ء کی جنگ پر روانہ ہوا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ لیفٹیننٹ کلیم کا جسدِخاکی جس دن گھرآناتھا، لاؤڈ اسپیکر یا ریڈیو پر کوئی منادی نہیں ہوئی۔ محمود خان کا گھرجناح کالونی میں تھا۔ ہم لوگ بھی وہی رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لوگوں کوصرف یہ معلوم تھا کہ آج کلیم شہیدکی نعش گھرآنی ہے۔ وقت کا بھی کسی کوپتہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر تعظیماً کھڑے ہو گئے۔ میں تیسری یا چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ مجھے جنگ کا اندازہ نہیں تھا اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ شہید کیا ہوتا ہے۔ مگر میں بھی بڑے بوڑھوں کے ہمراہ سڑک پر کھڑا ہو گیا۔ بے شمار لوگ گھروں کے باہر قطاروں میں کھڑے تھے۔ عصر کے بعد اچانک چوک سے محمود خان کے گھرکی جانب آتا ایک خاکی تابوت نظر آیا۔ ہمراہ چندفوجی تھے۔ تابوت کندھوں پر نہیں تھا بلکہ ایک بڑے سے فوجی ٹرک کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ ٹرک ہر طرف سے کھلا تھا۔ لوگوں کو تابوت صاف نظر آ رہا تھا۔ جیسے ہی لوگوں کی نظر تابوت پر پڑی، ان کی عجیب سی کیفیت ہوگئی۔

کئی لوگ رونے لگ گئے۔ کئی لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کر دیا۔کئی عورتیں اور مرد تابوت تک جا کر اسے بوسہ دے کر واپس آ جاتے تھے۔ اتنی دیر میں چند نوجوان اٹھے اور انھوں نے کلیم شہید کے تابوت پر پھول رکھنے شروع کر دیے۔ چند منٹ میں تابوت پھولوں سے ڈھک گیا۔ عجیب منظر تھا۔ کوئی کلمہ شہادت کا ورد کر رہا ہے، کوئی اشک بار تھا۔ خواتین ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر رو رہی تھیں۔ دلاسہ دے رہی تھیں۔ کوئی نعرہ تکبیر بلند کر رہا تھا۔ میں نے بھی کوشش کی کہ میں ایک پھول ٹرک پر رکھ دوں مگر ہجوم اتنا تھا کہ میں ٹرک تک نہ پہنچ پایا۔ پھول اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک بزرگ کے ہاتھ میں دیا۔ انھوں نے انتہائی عقیدت سے وہ برگ گلاب تابوت پر رکھ دیا۔ صاحبان زیست! یہ منظر کشی چند منٹوں کی ہے۔ وہ کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ اس لیے بھی کہ فہم و ادراک کی اس منزل پر ہی نہیں تھا جہاں بخوبی اندازہ ہوتا کہ وطن کی راہ میں شہید ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مگر ایک بات میری سمجھ میں آ چکی تھی کہ اس نوجوان یعنی کلیم نے کوئی باعزت اور بڑا کام کیا ہے۔ کلیم شہیدکے جسدِ خاکی کا جو والہانہ اور عقیدت مندانہ استقبال دیکھنے کو ملا، وہ آج بھی میرے لاشعور میں محفوظ ہے۔

بالکل اسی طرح ہمارے قصبہ تاندلیانوالہ سے کیپٹن بلال شہید کاتعلق تھا۔ میرے دادا راؤ اختر ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے اور علاقائی سیاست میں ایک معتبر نام تھے۔ انتہائی سخت اور پرانی طرز کے بزرگ۔ کیپٹن بلال کے بھائی جسٹس (ر) احمد فاروق بھی تاندلیانوالہ میں ہماری گلی سے تعلق رکھتے تھے۔ مجھے صرف یہ پتہ چلا کہ میرے دادا نے کیپٹن بلال شہید کے نام سے تاندلیانوالہ میں سب سے بڑی مسجد بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ 65ء کے بعدکے واقعات ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نہر کے نزدیک ایک انتہائی خوبصورت اورکشادہ قطعہ میں بلال شہید مسجد تعمیرکر دی گئی۔ کسی سے کوئی مدد نہیں مانگی گئی۔ اس کے بعد ہر عید والے دن میرے دادا راؤ اختر، میرے والدراؤ حیات اور میرے تمام چچا اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ یہ روایت میرے داداکی زندگی تک قائم رہی۔ چند برس پہلے میں اس مسجد میں گیا۔ اب تو وہ ایک بہت بڑا ادارہ بن چکی ہے۔ بلال شہیدکی عزت و احترام میں قائم مسجد آج تک موجود ہے۔ ہزاروں لوگ اس شہید کے لیے دعا کرتے ہیں۔ کسی نے میرے دادا کوکہا نہیں تھا کہ شہید کے نام پر مسجد بننی چاہیے۔ کسی نے اہلیان تاندلیانوالہ کو نہیں سمجھایا کہ وہ یہ کام کریں ۔ یہ سب کچھ ایک جذبہ کے تحت کیا گیا۔ ایک والہانہ اور معصوم سا جذبہ۔

کیڈٹ کالج حسن ابدال جا کر پہلی بار اندازہ ہوا کہ فوج کیا ہے۔ افسرکی تربیت کتنی مشکل طریقے سے کی جاتی ہے۔ خیر میں پانچ سال وردی پہننے کے بعد کے ای میڈیکل کالج لاہور آ گیا۔ مگر میرے ساتھ والے کئی طالبعلم فوج میں چلے گئے۔ ان میں سے کئی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ مگر فوج کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا اتفاق 1985ء میں ہوا۔ فوج میں تین ماہ کی(Attachment) کی گئی۔ کیپٹن کے طور پر13 پنجاب رجمنٹ چلا گیا۔ اس ٹریننگ کا دورانیہ صرف تین ماہ تھا۔ مگر مجھے اس کا ایک ایک پل یاد ہے۔ 13 پنجاب رجمنٹ اس وقت اوکاڑہ کینٹ میں موجود تھی۔ یونٹ کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ یونٹ میں سپاہی سے لے کر کرنل کی سطح تک کے لوگ موجود تھے۔ میں نے کسی کو موت سے ڈرتے نہیں دیکھا۔ انتہائی مشکل جسمانی تربیت اور مشکل مراحل میں بھی کسی کو گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایسے لگتاتھا کہ اگر ان نوجوانوں کے سامنے موت آ کرکھڑی بھی ہو جائے تو ان کے عزم و ہمت کو دیکھ کر خود ڈر جائے گی۔ مشکل سے مشکل ٹریننگ کے بعد شام کو ہر بندہ بالکل نارمل ہوتا تھا۔ آج تک شام کے وہ قہقہے اورشادمانیاں بخوبی یادہیں۔


عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ بچپن میں کلیم شہید کے جذبہ سے لے کر 13 پنجاب کے جوانوں کی بہادری اور جرات کو خود دیکھا ہے۔ یہ ہمارے لیے باعثِ افتخار بھی ہے اور باعثِ اطمینان بھی۔ اس کا قطعا ً یہ مطلب نہیں کہ فوج نے بحیثیت ادارہ غلطیاں نہیں کیں۔ غلطیوں کا یقیناً ارتکاب کیا ہے۔ تمام معاملات میں۔ مگر گزشتہ ڈیڑھ دوبرس سے فوج کا قبلہ درست کیا گیا ہے۔ اس کا سہرا صرف ایک شخص کوجاتاہے جواس وقت فوج کی کمان کر رہا ہے۔ اس ادارہ نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور آج بھی سیکھ رہا ہے۔ قربانیوں اور شہادتوں نے آج کی فوج کو وہ نیا خون مہیا کیا ہے کہ ادارہ اب بنیادی طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ کسی کے ذہن میں نہیں ہونا چاہیے کہ اتنی مضبوط فوج کی موجودگی میں کوئی بھی ملک کسی قسم کی مہم جوئی کر سکتا ہے۔ میری دانست میں کسی بھی طرح کے جنگ کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہاں حادثات کے ردِعمل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اب فوج داخلی محاذ پر برسرپیکار ہے۔ عوام میں اس وقت جتنی پذیرائی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بدولت فوج کو حاصل ہے، وہ 65ء کی جنگ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام بنیادی طور پر کسی اصول اور ضابطے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بین الاقوامی Arrangement کے تحت وجود میں آیا ہے۔ اس وجہ سے عوام میں اس کی اخلاقی اور ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے۔ہمارے الیکشن کمیشن، سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کا طرز ِعمل اس درجہ ناقص ہے کہ وہ کسی قسم کی بھاری ذمے داری اٹھانے سے قاصر ہیںکیونکہ ادارے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں یا انھیں کام کرنے کی آزادی نہیں لہذا لوگ صرف ایک آخری ادارہ کی جانب دیکھنے پرمجبور ہو چکے ہیں۔

ہمارے قومی رہنماؤں کو اس تبدیلی کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس لیے مقتدر سیاستدانوں کی واضح اکثریت فوج سے خائف ہے اور ان کو شک کی دوربین سے دیکھتے ہیں۔ آپ کسی سیاسی جماعت کے مرکزی قائدکو دیکھ لیجیے۔ وہ میڈیا کے سامنے فوج کی بھرپور تعریف کرتے نظر آئیں گے۔ مگر نجی محفلوں میں فوج کے متعلق غیر محتاط رویہ اپناتے ہیں۔ اس طرزِ عمل میں کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی فرق نہیں۔ دور مت جائیے۔ سندھ کی سیاسی جماعتوں کا عملی رویہ دیکھئے۔ اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ابھی تک عوام کوکرپشن کی پانچ فیصدکا بھی معلوم نہیں۔ میں نام نہیں لینا چاہتا مگر ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ مختلف صوبوں میں سیاست دانوں اور افسروں نے مل کر کیا کیا کمالات کیے ہیں۔ میں اپنے قبیلے کے متعدد سینئر اور جونیئر افسروں کو جانتا ہوں جن کے غیر ملکی اکاؤنٹ میںکئی سو کروڑ روپے موجود ہیں۔ کسی صوبہ میں کوئی بھی فرق نہیں۔

داخلی محرکات سے مسئلہ شروع ہوتا ہے جو اس وقت درپردہ وجہ تنازع ہے۔ فوج کو معلوم ہے کہ جس خوفناک طرز کی مالی کرپشن کی گئی ہے، اس پر ہاتھ ڈالے بغیر ہم دہشت گردی کے عفریب کو جڑ سے نہیں اکھیڑ سکتے۔ بیشتر سیاستدان فوج کے اس لیے خلاف ہیںکہ وہ احتساب سے خوف زدہ ہیں۔ گستاخی معاف، بعض حضرات آئین کے پیچھے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ یہ بھی احتساب سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ صاحبان، حقائق بہت تلخ ہیں۔ بہت ہی تلخ!

مجموعی طورپرفوج نے اپنی تمام غلطیوں کو جوانوں کے خون سے دھویا ہے۔کوئی اورادارہ اپنی داخلی تصیح کرنے کی اسطاعت اوراہلیت نہیں رکھتا ۔ وہ چاہتے بھی نہیں ہیں۔ ہاں زبانی جمع خرچ بہت ہے۔ بے مقصد شوروغل اتنا ہے کہ ہر مثبت قدم کو بھی جمہوریت کش ثابت کیا جارہا ہے۔ مگراب قوم سمجھ چکی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔مگرکس کے خلاف؟
Load Next Story