بلوچستان میں امن کے اشارے
کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے کہا ہے کہ لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں
LOS ANGELES:
کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے کہا ہے کہ لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں، بلوچستان میں خون کی بو کم ہونے لگی ہے۔ اس سے اچھی بات ہو نہیں سکتی جب انھوں نے کہا کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اندھے نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اصولی رہنمائی دی ہے اس پر چلتے ہوئے امن لا رہے ہیں۔ صوبے کے جن لوگوں کو پیار کی ضرورت تھی انھیں بے پناہ پیار دیا مگر جن چند لوگوں نے ہمارا گلا پکڑا ہوا تھا ان سے لڑائی بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ بہکے اور بھٹکے ہوئے لوگ اب واپس آ رہے ہیں۔ ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ بلوچستان میں 43 ہزار بچے ایف سی اور آرمی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے دس ہزار بلوچوں کو پہلے ہی پاک فوج میں شامل کیا جا چکا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کوئی بھی ریاست خوش دلی سے اپنے ہی عوام کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کرتی کیونکہ اس طرح سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ملک کمزور ہوتا ہے اور ملک دشمنوں کو پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی سوچ کا اظہار کر رہی تھی تو نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ نے اپنے دادا کی برسی کے موقع پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔ جب کہ اس سے پہلے ماضی میں براہمداغ مذاکرات کا آپشن مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی باتیں ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو پسند نہ آئیں لیکن بلوچستان میں امن لانے کے لیے ان خیالات سے آگاہی پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔
اس سوال پر کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ان کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم تو مظلوم قوم ہیں اور نو سال سے آپریشن کا شکار ہیں۔ طاقتور وہی ہیں۔ وہ کیا دینے کو تیار ہوں گے۔ بلوچ رہنما نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن دس پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ آپ نے ان برسوں میں کب کوشش کی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے۔ براہمداغ کا کہنا تھا کہ وہ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں سے جب بھی مذاکرات کیے جائیں طاقت اور کمزوری کی بنیاد نہ کیے جائیں۔ یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بلوچوں کے نزدیک عزت نفس کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ ان کے نزدیک فتح و شکست کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے نزدیک اصل اہمیت انصاف اور اصولوں کی ہے۔ گو کہ زیادہ خوش امیدی کی ضرورت نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاک فوج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کراچی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کا بڑی حد تک خاتمہ کر چکی ہے۔ یہ پرانی نہیں بدلی ہوئی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں آنے والے وقت میں پائیدار امن کا سہرا بھی موجودہ فوجی قیادت کو ہی جائے گا۔
جو بات نکتے کی ہے وہ یہ کہ برطانیہ بھی بلوچستان امن لانے کے لیے مدد کر رہا ہے۔ صرف بلوچستان ہی نہیں کراچی میں بھی... آخر کیوں؟ اب یہ بات طے ہے کہ برطانیہ بلوچ قیادت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے نہ صرف بلوچستان میں امن قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا بلکہ کراچی کا امن بھی دوبارہ لوٹ آئے گا... اس کے بدلے میں پاکستان افغانستان میں موجودہ حکومت کو مستحکم کرے گا جس پر امریکا کے ہزاروں ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جس کی ناکامی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ یہ ایک اچھی ڈیل ہے کیونکہ اس طرح پاکستان کی مغربی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گی۔
جب بلوچستان کی بات ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں نصیر آباد سے آنے والی ایک ٹیلیفون کال بھی ذکر ہو جائے۔ انھوں نے گلہ کیا ہے کہ وہ بھی ایک محب وطن پاکستانی ہیں مگر ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رتی کینال کے علاقے میں آباد ہیں لیکن انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔ انھیں گیس میسر نہیں۔ بجلی نہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں نہیں بگٹی قبیلے کے اس فرد کے مطابق فوج کے آنے کی وجہ سے حالات میں بہتری آئی ہے۔
میرا کالم نیٹ پر پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ بیرون ملک سے بھی کالیں آتی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی سفارت خانوں کا ان سے تعاون نہ کرنا ہے۔ جائز کام کو بھی مہینوں اٹکایا جاتا ہے۔ پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ کام ہو جائے گا۔یہ بخارسٹ جو رومانیہ کا دارالحکومت ہے وہاں سے ایک پاکستانی کی فریاد ہے۔ بخارسٹ میں پاکستانی سفارتخانہ دس بجے کھلتا ہے اور بارہ بجے بند ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی پاکستانیوں کے لیے صرف پندرہ منٹ ہوتے ہیں۔ ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کا بھی یہی گلہ پاکستانی سفارت خانے سے ہے جن کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم ہونے سے جیلوں میں ہے۔ وزارت خارجہ کے ذمے داران سے درخواست ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کریں۔ امریکا، یورپ، کینیڈا، مڈل ایسٹ سے تو فون آتے ہی رہتے ہیں لیکن بعض اوقات دنیا کے ایسے دور افتادہ ممالک سے بھی ٹیلیفون آ جاتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کو تلاش رزق اپنے وطن اور عزیز و اقارب سے دور کہاں کہاں لے گیا ہے۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے کہ ان کا خون پسینے سے بھیجا ہوا قیمتی زرمبادلہ ہماری معیشت کی بیساکھی بنا ہوا ہے جس پر ہمارے حکمران عیش کر رہے ہیں۔
2016ء سے بلوچستان کے معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے۔
ایم کیو ایم کے استعفوں کے حوالے سے 11 سے 14 ستمبر اہم تاریخیں ہیں۔
سیل فون: 0346-4527997
کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے کہا ہے کہ لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں، بلوچستان میں خون کی بو کم ہونے لگی ہے۔ اس سے اچھی بات ہو نہیں سکتی جب انھوں نے کہا کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اندھے نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اصولی رہنمائی دی ہے اس پر چلتے ہوئے امن لا رہے ہیں۔ صوبے کے جن لوگوں کو پیار کی ضرورت تھی انھیں بے پناہ پیار دیا مگر جن چند لوگوں نے ہمارا گلا پکڑا ہوا تھا ان سے لڑائی بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ بہکے اور بھٹکے ہوئے لوگ اب واپس آ رہے ہیں۔ ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ بلوچستان میں 43 ہزار بچے ایف سی اور آرمی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے دس ہزار بلوچوں کو پہلے ہی پاک فوج میں شامل کیا جا چکا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کوئی بھی ریاست خوش دلی سے اپنے ہی عوام کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کرتی کیونکہ اس طرح سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ملک کمزور ہوتا ہے اور ملک دشمنوں کو پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی سوچ کا اظہار کر رہی تھی تو نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ نے اپنے دادا کی برسی کے موقع پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔ جب کہ اس سے پہلے ماضی میں براہمداغ مذاکرات کا آپشن مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی باتیں ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو پسند نہ آئیں لیکن بلوچستان میں امن لانے کے لیے ان خیالات سے آگاہی پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔
اس سوال پر کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ان کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم تو مظلوم قوم ہیں اور نو سال سے آپریشن کا شکار ہیں۔ طاقتور وہی ہیں۔ وہ کیا دینے کو تیار ہوں گے۔ بلوچ رہنما نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن دس پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ آپ نے ان برسوں میں کب کوشش کی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے۔ براہمداغ کا کہنا تھا کہ وہ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں سے جب بھی مذاکرات کیے جائیں طاقت اور کمزوری کی بنیاد نہ کیے جائیں۔ یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بلوچوں کے نزدیک عزت نفس کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ ان کے نزدیک فتح و شکست کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے نزدیک اصل اہمیت انصاف اور اصولوں کی ہے۔ گو کہ زیادہ خوش امیدی کی ضرورت نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاک فوج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کراچی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کا بڑی حد تک خاتمہ کر چکی ہے۔ یہ پرانی نہیں بدلی ہوئی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں آنے والے وقت میں پائیدار امن کا سہرا بھی موجودہ فوجی قیادت کو ہی جائے گا۔
جو بات نکتے کی ہے وہ یہ کہ برطانیہ بھی بلوچستان امن لانے کے لیے مدد کر رہا ہے۔ صرف بلوچستان ہی نہیں کراچی میں بھی... آخر کیوں؟ اب یہ بات طے ہے کہ برطانیہ بلوچ قیادت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے نہ صرف بلوچستان میں امن قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا بلکہ کراچی کا امن بھی دوبارہ لوٹ آئے گا... اس کے بدلے میں پاکستان افغانستان میں موجودہ حکومت کو مستحکم کرے گا جس پر امریکا کے ہزاروں ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جس کی ناکامی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ یہ ایک اچھی ڈیل ہے کیونکہ اس طرح پاکستان کی مغربی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گی۔
جب بلوچستان کی بات ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں نصیر آباد سے آنے والی ایک ٹیلیفون کال بھی ذکر ہو جائے۔ انھوں نے گلہ کیا ہے کہ وہ بھی ایک محب وطن پاکستانی ہیں مگر ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رتی کینال کے علاقے میں آباد ہیں لیکن انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔ انھیں گیس میسر نہیں۔ بجلی نہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں نہیں بگٹی قبیلے کے اس فرد کے مطابق فوج کے آنے کی وجہ سے حالات میں بہتری آئی ہے۔
میرا کالم نیٹ پر پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ بیرون ملک سے بھی کالیں آتی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی سفارت خانوں کا ان سے تعاون نہ کرنا ہے۔ جائز کام کو بھی مہینوں اٹکایا جاتا ہے۔ پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ کام ہو جائے گا۔یہ بخارسٹ جو رومانیہ کا دارالحکومت ہے وہاں سے ایک پاکستانی کی فریاد ہے۔ بخارسٹ میں پاکستانی سفارتخانہ دس بجے کھلتا ہے اور بارہ بجے بند ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی پاکستانیوں کے لیے صرف پندرہ منٹ ہوتے ہیں۔ ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کا بھی یہی گلہ پاکستانی سفارت خانے سے ہے جن کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم ہونے سے جیلوں میں ہے۔ وزارت خارجہ کے ذمے داران سے درخواست ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کریں۔ امریکا، یورپ، کینیڈا، مڈل ایسٹ سے تو فون آتے ہی رہتے ہیں لیکن بعض اوقات دنیا کے ایسے دور افتادہ ممالک سے بھی ٹیلیفون آ جاتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کو تلاش رزق اپنے وطن اور عزیز و اقارب سے دور کہاں کہاں لے گیا ہے۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے کہ ان کا خون پسینے سے بھیجا ہوا قیمتی زرمبادلہ ہماری معیشت کی بیساکھی بنا ہوا ہے جس پر ہمارے حکمران عیش کر رہے ہیں۔
2016ء سے بلوچستان کے معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے۔
ایم کیو ایم کے استعفوں کے حوالے سے 11 سے 14 ستمبر اہم تاریخیں ہیں۔
سیل فون: 0346-4527997