میر غوث بخش بزنجو یاد آگئے
1970 کے عام انتخابات میں پہلی بار صوبہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے لیے بھی ووٹنگ ہورہی تھی۔
1970 کے عام انتخابات میں پہلی بار صوبہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے لیے بھی ووٹنگ ہورہی تھی۔ نتائج سامنے آئے تو صوبائی اسمبلی کی کل 22 نشستوں میں سے نیشنل عوامی پارٹی 20 نشستیں جیت گئی تھی اور عطا اﷲ مینگل نے بلوچستان کے پہلے منتخب وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ اسی طرح صوبہ سرحد (اب صوبہ خیبر پختونخوا) میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئے تھے۔ مولانا مفتی محمود نے وزیراعلیٰ صوبہ سرحد کا حلف اٹھایا تھا، صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سامنے کوئی نہ ٹک سکا، ذوالفقار علی بھٹو کا جادو ان دو صوبوں میں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بھٹو صاحب کی سحر انگیز شخصیت کے سامنے بڑے بڑے سیاسی بت گر کر پاش پاش ہوگئے، پنجاب اور سندھ تاریخ میں پہلی بار ایک مصور، ادیب، قلم کار (پتا نہیں اب دوبارہ ایسا کب ہو) حنیف رامے نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا، صوبہ سندھ میں بھی ایک فقیر منش وزیراعلیٰ بنا تھا اس کا نام تھا میر رسول بخش تالپور، بنگال عوامی لیگ کے مجیب الرحمن کا ہوگیا تھا۔
بنگلہ دیش بن چکا تھا اور اب نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ہورہے تھے، عبدالولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے رفقا کے ساتھ بات چیت میں شریک تھے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور صوبہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی نمایندگی نہیں تھی، یا نہ ہونے کے برابر تھی، سو ولی خان اور بھٹو صاحب کے درمیان فیصلہ ہوگیا جس کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان کے پہلے گورنر کی حیثیت سے میر غوث بخش بزنجو نے حلف اٹھایا اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے گورنر ایک اور فقیرانہ بود و باش والے ارباب سکندر خان خلیل بنادیے گئے، صوبہ پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر بنے اور صوبہ سندھ میں ممتاز علی بھٹو نے گورنر کا حلف اٹھایا۔
تمہید ذرا طویل ہوگئی مگر حالات کیا تھے، پس منظر بیان کرنا ضروری تھا۔ مجھے خوب یاد ہے میر غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان کی حیثیت سے کراچی تشریف لائے تھے، کراچی ایئرپورٹ پر میر صاحب کے استقبال کے لیے ان کے دیرینہ دوست وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور موجود تھے۔ دونوں عوام دوست ایک دوست ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے۔
میر غوث بخش بزنجو صبح کے دس، گیارہ بجے کراچی تشریف لائے تھے اور عین اسی دن شام چار بجے کراچی نیشنل عوامی پارٹی نے ان کو اپنے دفتر واقع شیریں منزل (رینبو سینما) گارڈن روڈ مدعو کرلیا تھا۔
شیریں منزل کی دوسری منزل پر پارٹی دفتر تھا اور گورنر بلوچستان نے بجائے بڑی بڑی ضیافتوں کے اپنے پارٹی کارکنان سے ملاقات کو ترجیح دی تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے دفتر کا کشادہ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میر صاحب اور کارکن فرش نشیں تھے، اب میں وہ خاص بات بیان کرنے جارہا ہوں، جس بات کے لیے مجھے میر غوث بخش بزنجو بابائے بلوچستان یاد آئے ہیں۔
کراچی نیب کے عہدیداران تقریریں کررہے تھے، وہ گلہ گزار تھے اور کہہ رہے تھے۔ ''ہمارے کارکنان سیکڑوں کی تعداد میں کراچی اور سندھ کے دیگر جیلوں میں بند پڑے ہوئے ہیں، سندھ حکومت نے انھیں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر رکھا ہے، آج آپ کا کراچی ایئرپورٹ پر وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور نے استقبال کیا ہے، وہ آپ کے بہت اچھے دوست بھی ہیں، لہٰذا آپ تالپور صاحب سے کہیں کہ ہمارے کارکنان کی رہائی کے احکامات جاری کریں''
میر صاحب کارکنوں کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے، اور میں ان سے ذرا فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ لہٰذا مقامی نیب کے عہدیداران کی تقریروں پر ان کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن جب میر صاحب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے خطاب اور لب و لہجہ سب کچھ بتارہا تھا اور وہ نہایت غصے میں بول رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ''آج میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مقامی عہدیداروں کی باتیں سن کر بڑا حیران ہوا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ اجتماع نیشنل عوامی پارٹی کا ہے۔ جہاں مجھ سے کہا جارہاہے کہ میں پارٹی کارکنان کی سندھ کی جیلوں سے رہائی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور سے سفارش کروں! نہیں ہر گز نہیں، میں ایسا کبھی نہیں کروں، یاد رکھو جیل خانے ہمارے لیے تربیت گاہیں ہیں اور پھانسی گھاٹ ہمارے لیے سرخروئی کی منزلیں ہیں۔ تم لوگوں کو یاد نہیں! جنرل ایوب کے دور حکومت میں سکھر شہر کے پھانسی گھاٹ پر میں نے اپنے زندہ ساتھیوں کو دار کے حوالے کیا اور پھر ان کی لاشیں وصول کیں''۔
پھر بابا نے واشگاف الفاظ میں مزید کہا ''میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل نیشنل عوامی پارٹی میں دھڑا دھڑ لوگ شامل ہورہے ہیں۔ (یاد رہے ولی خان بھٹو مذاکرات کے نتیجے میں فضا کو دیکھ کر لوگ اقتدار تک پہنچنے کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کا دروازہ استعمال کرنا چاہ رہے تھے) میں انھیں بتادینا چاہتاہوں کہ نیشنل عوامی پارٹی پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ یہ کانٹوں کا بستر ہے۔ پھر بابا نے یہ بھی کہاکہ میں نے اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے فیصلے کے تحت گورنری قبول کی ہے اور پارٹی جس وقت مجھے واپسی کا حکم دے گی، میں ایک لمحہ ضایع کیے بغیر گورنری چھوڑ کر پارٹی میں واپس آجاؤںگا''۔
بابا یوں بھی مجھے یاد آئے کہ ''11 اگست ان کی برسی کا دن تھا تو ہر سال اگست کے مہینے میں بابائے بلوچستان کی یاد میں جلسے ہوتے ہیں، اسی سلسلے کا ایک جلسہ 25 اگست 2015 کے دن آرٹس کونسل کراچی میں ہوا۔ میں نے دو روز پہلے جلسے کی خبر ایکسپریس میں پڑھی تھی، اور خبر پڑھنے کے بعد جلسے والے دن میرا گھر میں بیٹھنا گناہ عظیم ہوتا، لہٰذا میں وقت مقررہ شام 4 بجے سے دو منٹ پہلے آرٹس کونسل آڈیٹوریم کے دروازے پر پہنچ گیا تھا، سامنے ہی بابا کا دیرینہ پیار کرنے والا مجید بلوچ کھڑا تھا اس سے مل کر میں اندر داخل ہوا تو پروگرام کے روح رواں مجاہد بریلوی سے علیک سلیک ہوئی، اسٹیج پر بزنجو صاحب کی رنگین خوبصورت پورٹریٹ مزین تھی اور جالب صاحب کا شعر لکھا ہوا تھا۔
میرا ہم قفس بزنجو، میرا رہنما بزنجو
کہاں اب سرِ زمانہ میری جان ایسا حق گو
جلسے کی صدارت بابا کے صاحبزادے سینیٹر میر حاصل بزنجو نے کی جب کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک مہمان خصوصی تھے، مقررین نے سینئر صوبائی وزیر ثناء اﷲ زہری، طاہر بزنجو، حمید انجینئر، فہمیدہ ریاض شامل تھے، جب کہ صدر کراچی پریس کلب اور ممتاز شاعر فاضل جمیلی نے بزنجو صاحب کے لیے نظم پڑھی، ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ''ہم نے بابا سے ہی سب کچھ سیکھا، ان کی بات چیت جاری رکھنے والی عادت آج بہت کام آرہی ہے، سردار ثناء اﷲ زہری نے کہاکہ آج سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے رنگوں کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ساری جماعتیں میر غوث بخش بزنجو کی ''ہمیشہ مذاکرات کرو'' کی بات کو لے کر چل رہی ہیں گو میں ان کی جماعت میں نہیں تھا لیکن سیاست میں وہ میرے رہنما تھے۔ میر حاصل بزنجو نے بھی بابا کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہاکہ بابا ہی کی سیاست کو قریب سے دیکھ کر اسے مشعل راہ بنایا ہے، فہمیدہ ریاض نے بابا کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ بابا کراچی میں کھڑے ہوئے تھے اور مجھے مجید بلوچ ان سے ملوانے کے لیے لے کر گئے تھے ان کی شخصیت بہت متاثر کن تھی، طاہر بزنجو اور حمید انجینئر نے بھی جلسے سے خطاب کیا، فاضل جمیلی کی نظم کا پہلا شعر پیش خدمت ہے:
جالب نے جسے راہ نما اپنا کہا تھا
وہ میر سیاست تھا، وہی راہ نما تھا
آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک، حاصل بزنجو، ثناء اﷲ زہری ودیگر شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں میر غوث بخش بزنجو کے نام سے منسوب ایوارڈ کے اجرا کا بھی اعلان کیا گیا، آرٹس کونسل کراچی کا آڈیٹوریم مکمل بھرا ہوا تھا۔ واقعی جو لوگ اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں انھیں زمانہ فراموش نہیں کرتا۔ جالب کا ایک اور شعر نذر بزنجو
اسے مصلحت نہ آئی، یہی اس کی تھی بڑائی
چلو اس کے راستے پر، مرے ہمدمو، رفیقو
بنگلہ دیش بن چکا تھا اور اب نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ہورہے تھے، عبدالولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے رفقا کے ساتھ بات چیت میں شریک تھے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور صوبہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی نمایندگی نہیں تھی، یا نہ ہونے کے برابر تھی، سو ولی خان اور بھٹو صاحب کے درمیان فیصلہ ہوگیا جس کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان کے پہلے گورنر کی حیثیت سے میر غوث بخش بزنجو نے حلف اٹھایا اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے گورنر ایک اور فقیرانہ بود و باش والے ارباب سکندر خان خلیل بنادیے گئے، صوبہ پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر بنے اور صوبہ سندھ میں ممتاز علی بھٹو نے گورنر کا حلف اٹھایا۔
تمہید ذرا طویل ہوگئی مگر حالات کیا تھے، پس منظر بیان کرنا ضروری تھا۔ مجھے خوب یاد ہے میر غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان کی حیثیت سے کراچی تشریف لائے تھے، کراچی ایئرپورٹ پر میر صاحب کے استقبال کے لیے ان کے دیرینہ دوست وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور موجود تھے۔ دونوں عوام دوست ایک دوست ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے۔
میر غوث بخش بزنجو صبح کے دس، گیارہ بجے کراچی تشریف لائے تھے اور عین اسی دن شام چار بجے کراچی نیشنل عوامی پارٹی نے ان کو اپنے دفتر واقع شیریں منزل (رینبو سینما) گارڈن روڈ مدعو کرلیا تھا۔
شیریں منزل کی دوسری منزل پر پارٹی دفتر تھا اور گورنر بلوچستان نے بجائے بڑی بڑی ضیافتوں کے اپنے پارٹی کارکنان سے ملاقات کو ترجیح دی تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے دفتر کا کشادہ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میر صاحب اور کارکن فرش نشیں تھے، اب میں وہ خاص بات بیان کرنے جارہا ہوں، جس بات کے لیے مجھے میر غوث بخش بزنجو بابائے بلوچستان یاد آئے ہیں۔
کراچی نیب کے عہدیداران تقریریں کررہے تھے، وہ گلہ گزار تھے اور کہہ رہے تھے۔ ''ہمارے کارکنان سیکڑوں کی تعداد میں کراچی اور سندھ کے دیگر جیلوں میں بند پڑے ہوئے ہیں، سندھ حکومت نے انھیں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر رکھا ہے، آج آپ کا کراچی ایئرپورٹ پر وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور نے استقبال کیا ہے، وہ آپ کے بہت اچھے دوست بھی ہیں، لہٰذا آپ تالپور صاحب سے کہیں کہ ہمارے کارکنان کی رہائی کے احکامات جاری کریں''
میر صاحب کارکنوں کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے، اور میں ان سے ذرا فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ لہٰذا مقامی نیب کے عہدیداران کی تقریروں پر ان کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن جب میر صاحب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے خطاب اور لب و لہجہ سب کچھ بتارہا تھا اور وہ نہایت غصے میں بول رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ''آج میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مقامی عہدیداروں کی باتیں سن کر بڑا حیران ہوا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ اجتماع نیشنل عوامی پارٹی کا ہے۔ جہاں مجھ سے کہا جارہاہے کہ میں پارٹی کارکنان کی سندھ کی جیلوں سے رہائی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ میر رسول بخش تالپور سے سفارش کروں! نہیں ہر گز نہیں، میں ایسا کبھی نہیں کروں، یاد رکھو جیل خانے ہمارے لیے تربیت گاہیں ہیں اور پھانسی گھاٹ ہمارے لیے سرخروئی کی منزلیں ہیں۔ تم لوگوں کو یاد نہیں! جنرل ایوب کے دور حکومت میں سکھر شہر کے پھانسی گھاٹ پر میں نے اپنے زندہ ساتھیوں کو دار کے حوالے کیا اور پھر ان کی لاشیں وصول کیں''۔
پھر بابا نے واشگاف الفاظ میں مزید کہا ''میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل نیشنل عوامی پارٹی میں دھڑا دھڑ لوگ شامل ہورہے ہیں۔ (یاد رہے ولی خان بھٹو مذاکرات کے نتیجے میں فضا کو دیکھ کر لوگ اقتدار تک پہنچنے کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کا دروازہ استعمال کرنا چاہ رہے تھے) میں انھیں بتادینا چاہتاہوں کہ نیشنل عوامی پارٹی پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ یہ کانٹوں کا بستر ہے۔ پھر بابا نے یہ بھی کہاکہ میں نے اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے فیصلے کے تحت گورنری قبول کی ہے اور پارٹی جس وقت مجھے واپسی کا حکم دے گی، میں ایک لمحہ ضایع کیے بغیر گورنری چھوڑ کر پارٹی میں واپس آجاؤںگا''۔
بابا یوں بھی مجھے یاد آئے کہ ''11 اگست ان کی برسی کا دن تھا تو ہر سال اگست کے مہینے میں بابائے بلوچستان کی یاد میں جلسے ہوتے ہیں، اسی سلسلے کا ایک جلسہ 25 اگست 2015 کے دن آرٹس کونسل کراچی میں ہوا۔ میں نے دو روز پہلے جلسے کی خبر ایکسپریس میں پڑھی تھی، اور خبر پڑھنے کے بعد جلسے والے دن میرا گھر میں بیٹھنا گناہ عظیم ہوتا، لہٰذا میں وقت مقررہ شام 4 بجے سے دو منٹ پہلے آرٹس کونسل آڈیٹوریم کے دروازے پر پہنچ گیا تھا، سامنے ہی بابا کا دیرینہ پیار کرنے والا مجید بلوچ کھڑا تھا اس سے مل کر میں اندر داخل ہوا تو پروگرام کے روح رواں مجاہد بریلوی سے علیک سلیک ہوئی، اسٹیج پر بزنجو صاحب کی رنگین خوبصورت پورٹریٹ مزین تھی اور جالب صاحب کا شعر لکھا ہوا تھا۔
میرا ہم قفس بزنجو، میرا رہنما بزنجو
کہاں اب سرِ زمانہ میری جان ایسا حق گو
جلسے کی صدارت بابا کے صاحبزادے سینیٹر میر حاصل بزنجو نے کی جب کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک مہمان خصوصی تھے، مقررین نے سینئر صوبائی وزیر ثناء اﷲ زہری، طاہر بزنجو، حمید انجینئر، فہمیدہ ریاض شامل تھے، جب کہ صدر کراچی پریس کلب اور ممتاز شاعر فاضل جمیلی نے بزنجو صاحب کے لیے نظم پڑھی، ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ''ہم نے بابا سے ہی سب کچھ سیکھا، ان کی بات چیت جاری رکھنے والی عادت آج بہت کام آرہی ہے، سردار ثناء اﷲ زہری نے کہاکہ آج سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے رنگوں کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ساری جماعتیں میر غوث بخش بزنجو کی ''ہمیشہ مذاکرات کرو'' کی بات کو لے کر چل رہی ہیں گو میں ان کی جماعت میں نہیں تھا لیکن سیاست میں وہ میرے رہنما تھے۔ میر حاصل بزنجو نے بھی بابا کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہاکہ بابا ہی کی سیاست کو قریب سے دیکھ کر اسے مشعل راہ بنایا ہے، فہمیدہ ریاض نے بابا کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ بابا کراچی میں کھڑے ہوئے تھے اور مجھے مجید بلوچ ان سے ملوانے کے لیے لے کر گئے تھے ان کی شخصیت بہت متاثر کن تھی، طاہر بزنجو اور حمید انجینئر نے بھی جلسے سے خطاب کیا، فاضل جمیلی کی نظم کا پہلا شعر پیش خدمت ہے:
جالب نے جسے راہ نما اپنا کہا تھا
وہ میر سیاست تھا، وہی راہ نما تھا
آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک، حاصل بزنجو، ثناء اﷲ زہری ودیگر شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں میر غوث بخش بزنجو کے نام سے منسوب ایوارڈ کے اجرا کا بھی اعلان کیا گیا، آرٹس کونسل کراچی کا آڈیٹوریم مکمل بھرا ہوا تھا۔ واقعی جو لوگ اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں انھیں زمانہ فراموش نہیں کرتا۔ جالب کا ایک اور شعر نذر بزنجو
اسے مصلحت نہ آئی، یہی اس کی تھی بڑائی
چلو اس کے راستے پر، مرے ہمدمو، رفیقو