زمیندار کی عقلمندی
ایک زمیندار کا گزر اپنے باغ سے ہوا تو اسے بڑی حیرانی ہوئی۔ تین لوگ نہ صرف آم توڑ رہے تھے اور بے دردی سے کھا رہے تھے
لاہور:
ایک زمیندار کا گزر اپنے باغ سے ہوا تو اسے بڑی حیرانی ہوئی۔ تین لوگ نہ صرف آم توڑ رہے تھے اور بے دردی سے کھا رہے تھے بلکہ تھیلیوں میں بھی بھر رہے تھے۔ زمیندار کا خون کھول اٹھا لیکن اس نے ضبط سے کام لیا۔ بڑے خوش گوار اور اچھے موڈ میں وہ تینوں سے ملا اور کہا کہ یہ آپ کا اپنا باغ ہے۔ ان تین لوگوں میں ایک کمی تھا تو دوسرا اس کا پڑوسی زمیندار تو تیسرا گاؤں کا ایک حکیم تھا۔ تھوڑی دیر بعد باغ کا مالک کمی کی طرف متوجہ ہوا، اس نے کہا کہ یہ تو میرا ساتھی زمیندار ہے اور یہ معزز و محترم حکیم صاحب ہیں، تم چھوٹے آدمی میرے باغ میں کیوں کر آئے؟ باغ کے مالک نے زمیندار سے اس کی پگڑی لی اور کمی کو درخت سے باندھ کر خوب پٹائی کی۔
تھوڑی دیر بعد وہ ساتھی زمیندار کی طرف لپکا اور کہاکہ یہ تو گاؤں کے حکیم بلکہ مربی و محسن ہیں لیکن تم ایک کاشتکار ہو، یہ جانتے ہو کہ درخت پر پھل لانے میں کتنی محنت اور پیسہ درکار ہوتا ہے، تم میرے باغ کا ستیا ناس کررہے تھے۔ اس نے حکیم صاحب سے ان کی پگڑی لی اور ساتھی زمیندار کو دوسرے درخت سے باندھ کر خوب پٹائی کی۔ اب باغ کا مالک حکیم صاحب کی طرف متوجہ ہوا، اس نے کہاکہ آپ تو حکمت اور دانائی کی باتیں کرتے ہیں، میرے باغ میں چوری کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اب اس نے اپنی پگڑی اتار کر حکیم صاحب کو درخت سے باندھ کر خوب پٹائی کی۔ اگر وہ تینوں سے ایک ساتھ لڑتا تو خود مار برداشت کرتا، اس نے ایک ایک کرکے تینوں کو قابو کرلیا۔
کیا پاکستان ایک باغ ہے؟ اس گلشن کے پھل فروٹ کچھ اچکے چرا رہے ہیں؟ چھوڑیں اس بات کو اور کہانی کو تھوڑی دیر کے لیے بھول کر ملکی سیاست پر آجائیں۔ بدامنی، دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور کرپشن پر فوج کو قابو پانا ہے۔ انھوں نے خوشگوار موڈ میں تاثر دیا کہ مذہبی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر قسم کے دہشت گردوں کو پکڑا جائے۔ متحدہ نے اس ترمیم پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا بلکہ جب کراچی آپریشن شروع ہوا تو ایم کیو ایم نے خیر مقدم کیا۔ مارچ میں رینجرز مارچ کرتی ہوئی عزیز آباد میں متحدہ کے مرکزی دفتر 90 تک پہنچ گئی کچھ دنوں بعد دوسرا چھاپا مارا۔ اب شکایات شروع ہوگئیں ۔ متحدہ کا مطالبہ تھا کہ مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی جائیں لیکن اس پر اب تک کسی نے کان نہیں دھرا۔ یقین جانیے کہ زمیندار کی عقلمندی کا سیاسی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔
کراچی آپریشن نے شہر قائد میں امن وامان پیدا کیا۔ پہلے لوگوں نے رمضان اور عید کی خوشیاں پرسکون انداز میں منائیں، اتنی زیادہ خریداری ہوئی کہ تاجر و صنعت کار خوش ہوگئے۔ چند ہفتے گزرے تو چودہ اگست آگیا۔ اہل کراچی نے یہ دن پرجوش انداز میں اور بغیر کسی خوف و خطر کے منایا۔ شہری خوش تھے لیکن ایم کیو ایم کی شکایات اپنی جگہ تھیں۔ شہر سے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں بہت کمی آگئی۔ اتنا پرسکون ماحول کراچی کے شہریوں نے کئی عشروں بعد دیکھا۔ ایم کیو ایم کی یہ شکایت بھی تھی ہر جگہ کے تمام دہشت گردوں کو پکڑا جائے۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ دوسرے شہروں اور صوبوں میں بھی کوئی فرشتے نہیں بستے۔ الطاف حسین نے شکایت کی کہ آپریشن جانبدارانہ اور یکطرفہ ہے۔ ان کا شکوہ آصف زرداری سے تھا کہ انھوں نے متحدہ کو تنہا چھوڑدیا ہے۔ امید ہے شروع میں دی گئی کہانی کو اب تک آپ نے بھلادیا ہوگا۔
پیپلزپارٹی سے سوال کیا جاتا تو وہ آپریشن کی پرجوش حمایت کرتے۔ متحدہ کے مانیٹرنگ کمیٹی کے مطالبے کے جواب میں قائم علی شاہ نے کہاکہ وہ آپریشن کے کپتان ہیں۔ جب ایپکس کمیٹی ہے اور عدلیہ آزاد ہے تو کسی اور کی نگرانی کی کیا ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کی میڈیا ٹیم ٹی وی چینلز پر آکر آپریشن کی تعریف کرتی، وہ شہر قائد میں امن وامان کا حوالہ دیتے۔ آپ کہانی کو بالکل بھول جائیں کہ اس میں سب سے پہلے سب سے کمزور کو دبوچنے والا قصہ اتفاقاً ہے۔
رمضان تک ایم کیو ایم اور عید کے بعد پیپلزپارٹی پر گرفت کی جائے گی۔ یہ اندازہ تھا لیکن جیالے مگن تھے کہ ان پر کون ہاتھ ڈالے گا۔ جب ذرا دباؤ بڑھا تو آصف زرداری نے فوج اور رینجرز کو للکارا۔ انھیں نواز شریف سے حمایت کی امید تھی۔ ایسی امید جیسی الطاف حسین کو سابق صدر سے تھی۔ نواز شریف نے آصف زرداری سے ملنے سے انکار کردیا۔ یوں پیپلزپارٹی پر دباؤ بڑھتا گیا۔ یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کی مبینہ کرپشن کے قصوں کو یاد دلایا گیا۔ ضبط کا بندھن اس وقت ٹوٹ گیا جب ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیا۔ آصف زرداری اپنے قریبی دوست کے پابند سلاسل ہونے پر بپھرگئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ اگلی باری ان کی ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اپنے ہدف کو تبدیل کیا۔ اگلے مرحلے میں ان کی تنقید کا نشانہ نواز شریف بن گئے۔ اب پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ، قمر الزمان کائرہ اور شیری رحمان اسی طرح فریاد کرتے نظر آرہے ہیں جیسے متحدہ فریاد کرتی نظر آرہی تھی۔ لندن سے ایم کیو ایم نے انھیں یاد دلایا کہ ہماری فریاد پر کان نہ دھرنے والے زرداری کے ساتھی اب کس منہ سے آہ و زاری کررہے ہیں۔ قارئین سے پھر گزارش ہے کہ آپ کمی کے بعد زمیندار کو درخت سے باندھ کر پٹائی کرنے والے واقعے کو بالکل نظر انداز کردیں۔
عید کے بعد پیپلزپارٹی اور بقر عید کے بعد مسلم لیگ (ن)۔ یہ بات جون میں ایک ٹی وی پروگرام میں کہی تھی۔ اس وقت تک صرف ایم کیو ایم کی فریاد تھی۔ پیپلزپارٹی اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ جیالوں کو نوے کا دور یاد آرہا تھا جب سندھ کی 72 گندی مچھلیوں کو پکڑنے کا کہہ کر آپریشن کا رخ کراچی کی جانب موڑ دیا گیا۔ چھ ماہ بعد اچانک آرمی چیف آصف نواز انتقال کرگئے تو الطاف حسین نے بہتری محسوس کی۔ جب پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو جنرل نصیر اﷲ بابر نے بطور وزیر داخلہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کردیا۔ پیپلزپارٹی بیس پچیس سال قبل کی طرح آپریشن کو صرف کراچی اور متحدہ کی حد تک سمجھ رہی تھی۔ جب پنجاب سے ان کے ایک سابق وزیر کو گرفتار کیا گیا تو انھیں زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت چوروں، اچکوں اور دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچتے دیکھنا چاہتی ہے۔ آصف زرداری نے رانا مشاہد کا نام لے کر رائے ونڈ کے تالاب میں ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ رقم لیتے ہوئے ویڈیو کو ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں لوگوں نے دیکھا ہے۔ نواز شریف کے ساتھیوں کو دودھ کے دھلے نہ کہہ کر ان کی جانب بھی رخ موڑنے کا کہا جارہا ہے۔ ہم کمی اور زمیندار کے بعد حکیم صاحب تک آنے والی کہانی بھلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی پر ہاتھ ڈالے جانے کو احسن اقبال جیسے لوگ سراہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ جب بقرعید کے آس پاس تیسری جانب بڑھا جائے گا تو کیا ہوگا؟
عقلمند زمیندار نے تین لوگوں سے ایک ساتھ لڑنے کے بجائے ایک ایک کرکے ان پر قابو پایا۔ یہ سلوک ایک چھوٹے سے باغ کے پھل چرانے والوں کے ساتھ کیا گیا۔ پاکستان بھی ایک باغ ہے، اس کے پھل چرانے والوں سے نمٹنے کے لیے کیا سبق سیکھا گیا ہے ایک زمیندار کی عقلمندی سے؟