دوبارہ نہیں ملا کوئی تجھ سا مردِ حُر

اشفاق احمد یقینی طور پر قوم کی آواز، قوم کی شناخت، قوم کی عزت اور قوم کا مان تھے۔

آج جب اشفاق صاحب عالم بالا سے ملکی نیوز چینلز پر ہر دوسرے لمحے ’’بریکنگ نیوز اور نیوز فلیش‘‘ دیکھتے ہوں گے تو یقیناً کہتے ہوں گے کہ’’اچھا ہوا جو بھلے وقتوں میں ہی عزتِ سادات بچا کر لے آیا۔‘‘

یہ بھلے دنوں کی بات ہے۔ اتنے بھلے دن کہ لوگ ابھی ''بریکنگ نیوز'' کے معنی، مفہوم و مقام سے بھی آشنا نہ تھے۔ جب لوگ پرائیوٹ میڈیا سے بھی نا واقف تھے اور جب اخبار و ٹیلی ویژن کو ''سچ'' کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ جب ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے ہر شخص کی باتوں پر اندھا اعتماد کیا جا سکتا تھا کیونکہ ابھی ٹی وی ٹاک شوز میں ''مرغے لڑانے'' کی ریت شروع نہ ہوئی تھی۔ جب ابھی نان ایشوز کو ایشوز بنا کر کھڑا نہیں کیا جاتا تھا، جب میڈیا ہائوسز سیاسی جماعتوں اور حکومتی شخصیات کے ''پی آر او'' کا کردار ادا نہیں کرتے تھے۔ جب ٹی وی ڈرامے کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہوتا تھا ٹی آر پیز انہیں اور ٹاک شوز کا مقصد عوامی مسائل کو زیر بحث لانا ہوتا تھا اپنی ریٹنگ بڑھانا نہیں۔

اُس وقت تفریح کا ذریعہ بھی صرف ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا جسے زبانِ عام میں سرکاری ترجمان بھی کہا جاتا تھا مگر یہ چینل عوام کی ترجمانی کا فریضہ بھی بخوبی سر انجام دیتا تھا۔اس کی نشریات کا بھی وقت مقرر ہوتا تھا، پہلے رات گیارہ بجے، پھر بارہ بجے اور پھر تین بجے کے بعد یہ بھی اگلے دن کی صبح تک کیلئے رخصت پر چلا جاتا تھا۔ بہت سے بزعم خویش دانشور لوگ اس سے نالاں بھی تھے اور بجاطور پر تھے کہ یہ تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے اور چشم فلک اس بات کی گواہ ہے کہ اس سرکاری چینل پر ایک ڈرامہ لگتا تھا اور سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں کیونکہ اس دور کا ڈرامہ اور ڈرامہ نگار کمرشل نہیں تھے، ڈرامے کا مقصد اشتہار حاصل کرنا نہیں بلکہ معاشرے کی بزورِ قلم اصلاح کرنا ہوتا تھا۔ آج بھی اگر پاکستان کے سنہری دور کا ڈرامہ تلاش کیا جائے تو اس کے ڈانڈے بھی وہیں جا کر ملیں کہ جب نہ تو چینل کے پاس اس قدر پروڈکشن کی سہولیات تھیں اور نہ ہی کوئی مانے تانے ڈائریکٹر۔

اُس ڈرامے پر تو پھر شاید کوئی انگلی اٹھانے والا مل جائے مگر ڈرامہ نگار کو دیکھ کر لوگ آج بھی اپنی ٹوپیاں اتار کر، جھک کر سلام کریں کہ جب انہیں علم ہو کہ یہ ڈرامہ ''اشفاق احمد'' جیسے قلمکار نے لکھا ہے۔

آج اشفاق احمد کے اس قدر تعارف بن گئے ہیں کہ ان میں حقیقی اشفاق احمد کو تلاشنا ہی مشکل ہوچکا ہے کہ اشفاق احمد اصل میں کون تھا؟ ایک ادیب، ایک افسانہ نگار، ایک سخن طراز، ایک ڈرامہ نویس، ایک ریڈیو براڈکاسٹر، ایک دانشور یا ایک صوفی وہ بھی ملامتی طرز کا ایک بابا، ایک بزرگ یا محض ایک قلمکار؟

اس بچے کا سا قلمکار جس کا جب کسی کھلونے سے دل بھر جائے تو وہ دوسرے کی ضد کرنے لگتا ہے۔ قلم تو جیسے اشفاق صاحب کے اشارہ ابرو پر چلتا تھا کہ ''گڈریا'' لکھا تو افسانے کو دوام دیا ۔ ''تلقین شاہ'' کے روپ میں ریڈیو کیا تو صوتی لہروں کی جاوداں زندگی دی اور جب ''منچلے کا سودا'' لکھا تو ڈرامے کو امر کردیا۔ فیضؔ صاحب کا یہ مصرعہ حرف بحرف ان کی ذات کی عکاسی کرتا ہے کہ؎
''رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا''

عجب مردِ حُر تھے اشفاق صاحب بھی کہ کبھی ''منچلوں کو کھٹا و میٹھا سودا'' خریدنے راغب کرتے تو کبھی ان کی انگلی پکڑ کر''حیرت کدوں'' میں چھوڑ دیتے، کبھی ''توتوں کی زبانی کہانی'' سناتے تو کبھی سخن طرازی کیلئے ''نیلی چڑیا'' کا سہارا پکڑتے اور تو اور کبھی کبھار تو خود ہی ''داستان گو'' بن کر سامنے آجاتے۔ کبھی ''ایک محبت سو افسانوں'' میں سناتے تو کبھی ''تلقین شاہ'' بن کر اپنے ''زاویہ'' سے سمجھانے لگتے۔ آخر میں دامن جھاڑتے کہتے جاتے کہ ''سونا ملا نہ پی ملے''۔ سوال پھر وہی ہے کہ آخر اشفاق احمد کون تھا مگر اشفاق احمد جو بھی تھا وہ قوم کی آواز تھا، قوم کی شناخت تھا، قوم کی عزت اور قوم کا مان تھا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

مگر ایسے آزاد مردان ڈھونڈیں بھی کہاں کہ۔ ۔ ۔
ایہہ سودا نقد وی نہیں ملدا

توں لبھدی پھریں ادھار کڑے

آج 7 ستمبر 2015ء کو گیارہ سال ہو چلے ہیں اشفاق احمد کو ہم سے جدا ہوئے اور یہ اہل وطن ہی جانتے ہیں کہ ان 11 سالوں میں انہوں نے 11 صدیوں کا سفر کیا ہے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ جیسے ڈرامہ نگار آخر کہاں کھو گئے؟ کیا معاشرہ واقعی اخلاقی لحاظ سے اُن دموں پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں اس سے اس کی سب سے قیمتی متاع یعنی علم و حکمت چھین لی جاتی ہے؟ کیا آج کبھی ہم نے سوچا کہ علم و حکمت، عقل و دانش، فکر و حیرت کے جو موتی اشفاق صاحب کی باتوں سے چھلکتے تھے وہ آج ناپید کیوں ہوگئے؟ آج زمانہ دو انتہائوں میں کیوں بٹ گیا، آج ہمارے طبقات کے مابین اتنی خلیجیں کہاں سے آگئیں؟ آج ہم میں سے برداشت کیوں ختم ہوگئی؟

شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے اُمید کے چراغ جلانا چھوڑ دئیے ہیں اور خود پر مسلط اندھیروں اور شب ظلمت کو ہی اپنے مقدر کا لکھا سمجھ لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نااُمیدی کفر ہے، ہم نے اُمید کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ یہی امید کی کرنیں روشن کرنا تو اشفاق احمد خان جیسے مردانِ حُر کا طرہ تھا۔

آج ہم نے ذاتی مفاد کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا ہے، ہم صرف اپنی راہیں آسان کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں اور دوسروں کی آسانی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے جبکہ اشفاق صاحب جیسے حکیم ہر گفتگو کے اختتام پر فرمایا کرتے تھے ''اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے'' مگر آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف تو بہت دور کی شے ہے ہم تو صرف اپنی آسانی کی پریشانی میں گھلتے رہتے ہیں۔

اشفاق صاحب کے گزرنے پر اس ملک پر دو قیامتیں گزریں۔ ایک تو ملک ایسے حکیم سے محروم ہوگیا جو اپنی ذات میں ہی ایک انجمن تھا، جو ہر کسی کیلئے ایک قابل قبول حیثیت رکھتا تھا، جس کی بات سے اختلاف کیا جاتا تھا، اس کی نیت، اس کے اندازِ فکر اور اس کی ذات سے نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے بعد ڈرامے کا ہاتھ کسی نے نہیں پکڑا۔ ایک عرصے تک ڈرامہ یتیموں کی مانند در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا، کبھی بھارت سے ڈرامے لے کر اس کے رخ پر غازے تھوپے گئے اور کبھی ترکی کے ڈب کردہ ڈرامے سے اس کی نائو ڈبوئی گئی۔ ہم نے بالکل فراموش کردیا کہ یہ ڈرامے ہمارے معاشرے سے میل نہیں کھاتے۔ ڈرامے کہنے کو تو ڈرامہ ہوتا ہے مگر یہ حقیقت کا عکاس ہوتا ہے۔ ڈرامے کا ہر کردار معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے زندہ ہوتا ہے۔ ڈرامہ وہی اچھا ہوتا ہے کہ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو ڈرامے کے ایک کردار کی صورت میں پائے۔ اگرچہ اب ڈرامے میں ایک حدتک بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر ''کمرشلزم'' کے نام پر ڈرامے کے ساتھ جو ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر مجھ جیسے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اچھا ہوا کہ اشفاق صاحب بھلے وقتوں میں ہی جنت سدھار گئے وگرنہ اگر انہیں آج کا کمرشل ڈرامہ لکھنا پڑتا تو کیا ہمیں وہ ناقابل فراموش ڈرامے مل سکتے کہ جن پر آج پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ناز کرتی ہے۔ یا تصور کریں کہ آج وہ کسی چینل پر کاپی رائٹر ہوتے تو کیا ہوتا؟ مگر شاید وہ بھی ''بانو آپا'' کی طرح قلم کی حرمت کا سودا کرنے کی بجائے وہ بھی ٹی وی سے ہی کنارہ کر لیتے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ آج جب اشفاق صاحب عالم بالا سے ملکی نیوز چینلز پر ہر دوسرے لمحے ''بریکنگ نیوز اور نیوز فلیش'' دیکھتے ہوں گے یا جب ٹی وی اسٹوڈیو میں ''مرغے لڑتے'' دیکھتے ہوں گے یا جب وہ دیکھتے ہوں کہ کس طرح میڈیا ہائوسز سیاسی جماعتوں کے ''پی آر اوز'' بن چکے ہیں یا کس طرح ٹی وی ڈرامے کو مقصد ٹی آر پیز کا حصول بنا لیا گیا ہے تو وہ یقیناً کہتے ہوں گے کہ''اچھا ہوا جو بھلے وقتوں میں ہی عزتِ سادات بچا کر لے آیا۔''

[poll id="648"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story