بھارت کی مختلف ریاستوں میں بارشوں اور آسمانی بجلی گرنے سے 93 افراد ہلاک

سیلابی پانی اپنے ساتھ ناصرف ہزاروں گھروں بلکہ سڑکوں، رابطہ پلوں اور بجلی کے ترسیل کے نظام کو بھی بہا کر لے گیا ہے


ویب ڈیسک September 07, 2015
آسام میں 61، آندھرا پردیش میں 23 جب کہ اڑیسہ میں 9 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے فوٹو: فائل

بھارت کی مختلف ریاستوں میں شدید بارشوں اور آسمانی بجلی گرنے سے 93 افراد ہلاک جب کہ لاکھوں متاثر ہوئے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق خلیج بنگال میں ہوا کے کم دباؤ نے بھارت کی کئی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ملک بھر میں صرف آسمانی بجلی گرنے سے 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جب کہ لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔

آندھراپردیش کی حکومت نے آسمانی بجلی گرنے سے کم از کم 23 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، یہ اموات نالور، پرکاسم، گنتور، کرشنا، مشرقی گوداوری، اننت پور اور سریکاکولم اضلاع میں ہوئیں۔ ریاست کے وزیراعلی چندر بابو نائیڈو نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 4،4 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ آندھرا پردیش سے ملحقہ ریاست اڑیسہ میں بھی آسمانی بجلی سے کم از کم 9 افراد ہلاک اور 8 زخمی ہوئے ہیں۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں طوفانی بارشوں کےنتیجے میں دریائے برہم پترا اور اس سے نکلنے والی نہروں میں طغیانی کے نتیجے میں 18 اضلاع کے ایک ہزار 880 سے زائد دیہات کو نقصان پہنچا ہے، سیلابی پانی اپنے ساتھ ناصرف ہزاروں گھروں بلکہ سڑکوں، رابطہ پلوں اور بجلی کے ترسیل کے نظام کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکام نے سیلاب سے 61 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

حکام کے مطابق سیلاب کی وجہ سے 20 اضلاع میں تقریباً 18 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور ریاستی حکومت کی جانب سے مختلف اضلاع میں قائم کیے جانے والے 277 ریلیف کیمپوں میں تقریباً 2 لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔ اب بھی ہزاروں افراد سیلابی پانی میں گھرے متاثرہ دیہات میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

آسام کے دھبری، موری اور درنگ کے اضلاع میں صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امدادی کاموں میں مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے بھارتی فوج بھیج دی گئی ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ ترون گوگوئی کا کہنا ہے کہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے نئی دلی سرکار سے 500 کروڑ کی عبوری امداد طلب کی گئی ہے لیکن مرکزی حکومت نے اب تک کوئی مدد نہیں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں