صرف 8 انجکشنوں کا سوال ہے

ہر دل عزیز سعد اللہ جان برق صاحب السلام علیکم!امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے

barq@email.com

KARACHI:
ہر دل عزیز سعد اللہ جان برق صاحب السلام علیکم!امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا نام محمد یوسف ہے۔ میں بونیر سوات کا رہنے والا ہوں۔ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے، ہمارے جیسے غریب ملکوں کے عوام کے لیے جہاں حکمران غریب لوگوں سے ان کی ہر ضرورت پر بالواسطہ ٹیکس وصول کرتے ہیں مگر ان کی روٹی، روزگار کی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ یہ دنیا کچھ زیادہ ہی دکھوں کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

آج آپ کے کالم کے ذریعے اپنی فریاد لوگوں تک پہنچا رہا ہوں۔ میں دو سال سے کمر کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوں۔ میں آج کل پشاور کے ارنم اسپتال جو کینسر کا اسپتال ہے ،وہاں سے علاج کرا رہا ہوں، اس سے پہلے جن اسپتالوں سے علاج کرایا، ان اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے مہنگی ترین ادویات تجویز کی تھیں جو میرے خریدنے سے باہر تھیں، پھر کسی نے ہمیں پاکستان بیت المال کا پتہ دیا وہاں پر انگریزی کے فارم پر کر کے جمع کیے چھ مہینے گزر گئے مگر ابھی تک یہی جواب دیا ہے کہ فی الحال فنڈ نہیں ہے۔

پھر جتنے خیراتی ادارے ہیں، سب سے رابطہ کیا لیکن ان دفتروں نے ہمیں جھوٹی تسلی بھی نہیں دی، پھر ہم نے ارنم اسپتال کے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا وہاں پر ٹیسٹوں پر ٹیسٹ کیے، ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے ہمیں ایک انجکشن Zuldix تجویز کیا جو (8) انجکشنوں کا مکمل کورس ہے، جسے ہر صورت میں مکمل کرنا ہے، ارنم اسپتال کی انتظامیہ نے کہا کہ ہمارے پاس یہ انجکشن نہیں کیوں کہ یہ انجکشن مارکیٹ میں دستیاب نہیں، یہ انجکشن کمپنی سے آرڈر پر منگوانے پڑیں گے کیوں کہ ایک انجکشن کی قیمت 17500 روپے ہے۔

یہ انجکشن منفی سنٹی گریڈ میں رکھے جاتے ہیں جب کہ دو مہینوں کے لیے 8 انجکشنوں کی قیمت 1,40,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار روپے) بنتی ہے۔ میں محنت مزدوری کرنے والا نوجوان تھا۔ اپنی زندگی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشی سے گزار رہا تھا۔ بچے اسکول جارہے تھے اور ہمیں دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی مگر جب سے کمر کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوا ہوں تو میں کسی کام کاج کا نہیں رہا اور مسلسل بیروزگار ہوں، بیروزگاری کی وجہ سے گھر کی چارپائی پر بے یارومددگار بیمار پڑ گیا۔

اب کوئی کمانے والا نہیں، مسلسل بیماری اور بے روزگاری کی وجہ سے گھر میں فاقے شروع ہوئے، گھر کا چولہا ٹھنڈا ہو گیا، یقین جانیئے کہ صبح کا ہوتا تو شام کا نہیں اور جب شام کا ہوتا تو صبح کا نہیں، سفید پوش نوجوان ہوں، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا نہیں سکتا، یہاں تک اپنے علاج کے لیے گھر کی ایک ایک چیز بیچ دی ۔ آخر کار میری بیوی مجبور ہو کر ایک پرائیویٹ اسکول میں تین ہزار روپے ماہانہ پر خالہ کے طور پر کام کرنے لگی مگر میری بیوی نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور اسکول سے آتے ہی ایک دو گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے جس سے گھر کی روزی روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے۔

میں کسی کام کاج کا نہیں ہوں، کوئی اللہ کا نیک بندہ میرے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر میرے لیے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے بھیج کر میرے ان معصوموں کی دعالیں لے ۔ میرے ان معصوم بچوں کی خاطر میرا یہ خط اپنے کالم میں چھاپ دیں۔ آپ کے چند الفاظ سے میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ آمین

آپ کا بیٹا محمد یوسف وارڈ نمبر 3 ارنم اسپتال بیڈ نمبر 15 ، پوسٹ آفس پوسٹل مال پشاور یونیورسٹی۔

ایک مریض کا درد ناک مکتوب

معمول سے ہٹ کر کالم میں خط چھاپنے کی وجہ صرف یہ نہیں کہ صرف محمد یوسف نامی اس بے بس اور بے کس کا مقدمہ پیش کرنا مقصود ہے حالانکہ اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اس خط کی اہمیت مسلمہ ہے کیوں کہ اتنے بڑے ملک میں زکوٰۃ، بیت المال، للمسائل و المحروم اور بہت بڑے بڑے دعوؤں بہت بڑے اسپتالوں، شہرت کمانے والے مخیر اداروں اور این جی اوز کے باوجود زندگی کا اصل چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ کس قدر درد ناک ہے اور صورت حال کتنی المناک ہے کہ اس بھرے پرے ملک میں اربوں روپے خیرات میں بانٹنے والی حکومت، پاک پاکیزہ دین داروں، حاجیوں، پارٹیوں، تنظیموں اور لاف و گزاف کے ہوتے ہوئے


پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا

خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا

اوپر کی سطح پر بیانات اعلانات بڑ بڑ ہانکیوں اور جھوٹی چمک دھمک کے نیچے صورت حال کیا ہے؟ یہ اس خط سے بھی عیاں ہے اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ ''صحت'' کے اتنے مدعیوں، چارہ گری کے اتنے بڑے اداروں، مسیحائی کے نام پر دن رات بکواس کرنے والوں، سرکاری اسپتالوں، پرائیویٹ اور سیاسی علاج گاہوں ، کروڑوں اربوں روپے کے چندے بٹورنے والوں، انسانی خدمت کے نام پر کرسی نشینوں کے نیچے اصل اور گہرے پانی میں کیا ہے؟

چھوٹی مچھلیوں کا کیا حشر نشر ہو رہا ہے اور بڑی مچھلیاں پیٹ بھرنے کے بعد اوپر کی سطح پر کیا کیا خوش مغلیاں کرتی ہیں، خط میں ایسے چند مقامات کا ذکر کیا بھی گیا ہے جو عام خیال کے مطابق مسیحائی کرتے ہیں اور اس کے عوض جانوروں کی کھالوں سے لے کر انسانوں بلکہ مردوں کے کفن تک کھینچ رہے ہیں اور اصل صورت حال کیا ہے؟ اس کے لیے ہی تو ہم نے اس مکتوب کو من وعن شایع کر دیا تاکہ عوام کو پتہ لگ جائے کہ بڑے دعوؤں بڑی بلڈنگوں بہت بڑے مسیحاؤں اور اس سے بھی بڑے بڑے دین داروں کے اصل چہرے ذرا صاف دکھائی دیں، ایک سو ارب سے اوپر رقم صرف بے نظیر انکم سپورٹ میں ہر سال بانٹی جاتی ہے اور یہ کس کو نہیں معلوم کہ کن لوگوں میں بانٹی جاتی ہے اور کیوں بانٹی جاتی ہے۔

ہر وزیر اور سرکاری شہزادے کی صوابدید پر جو رقمیں دی جاتی ہیں، منتخب نمایندوں کی عیاشیوں پر جو صرف کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ بانٹا جاتا ہے کبھی وہ عطا کیا جاتا ہے، بہت دور جانے اور اونچے مقامات کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، ابھی چند ہی روز پہلے خبروں میں وہ اعداد و شمار آئے تھے جو وزیروں کے بنگلوں کی آرائش و زیبائش پر خرچ ہونے والی رقموں پر مشتمل تھیں، سڑکوں کے کنارے کھجور کے فی درخت کا خرچہ بھی لاکھوں تھا، فضول فضول قسم کے آرائشی دروازوں پر جو رقمیں اڑائی گئی ہیں وہ اربوں میں ہیں، اگر صرف بنی گالہ پر خرچ ہونے والی رقم کی صرف زکوٰۃ ہی نکالی جائے تو ایسے آٹھ دس مریضوں کا علاج آسانی سے نکل آئے گا، اگر وزیروں کے بنگلوں پر صرف کھانے پینے کے اخراجات سے ایک دو نوالے بھی کاٹے جائیں تو نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ کیا انسان اتنا بے حس اور بے انصاف بھی ہو سکتا ہے کہ ادھر ''سرکار دربار'' میں رقومات کی طغیانیاں چل رہی ہوں، وزیروں، لیڈروں، منتخب نمایندوں، سرکاری افسروں کے گھروں میں روپے کا سیلاب آیا ہوا ہو اور اصل حقیقت یہ ہو کہ ایک مریض صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے نہ ہونے کی وجہ سے مر رہا ہو۔ ایک پورا خاندان تباہ ہو رہا ہو، بلکہ ایک کیا ۔۔۔۔ کس نے پتہ کیا ہے کہ اس سطح پر کیا ہو رہا ہے۔

کمال کی بات تو یہ ہے کہ بے شمار علاج گاہوں میں حد سے زیادہ رقومات ادھر ادھر ہو رہی ہیں، بلڈنگوں پر خرچ کیا جارہا ہے، انتظامیہ کو نہلایا جارہا ہے حتیٰ کہ ان اسپتالوں اور علاج گاہوں میں تزئین و آرائش کے لیے بھی پیسے بہت ہوتے ہیں لیکن ایک زندگی کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو اخباروں میں آرہا ہے جو چینلوں پر دکھایا جارہا ہے جو بیانوں میں ظاہر کیا جاتا ہے سب جھوٹ ہے ۔ یہاں سے وہاں تک صرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے جو بیچا جارہا ہے خریدا جارہا ہے ۔۔۔ ایک پشتو ٹپہ یاد آیا

عالمہ مینے مینے نشتہ
سوداگری دہ یو پہ بل ئے خرسوینہ

یعنی محبت اور خلوص کہاں صرف سوداگری ہے اور بیچنا خریدنا ہے پیار وفا محبت نیکی ثواب دین ایمان دیانت امانت ضمیر اور سچ سب باتیں ہیں اور باتوں کا کیا ۔۔۔۔ کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کہہ رہا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ایک مریض فریاد کناں ہے لیکن جیسے سب کے سب اندھے بہرے اور گونگے ہو گئے ہوں۔

اس مریض کو بچانے کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہے وہ تو کسی وزیر کا چمچہ بلکہ چمچے کا، کسی افسر کا چپراسی، کسی این جی او کا چوکیدار بھی دے سکتا ہے، جس ملک میں لوگ مریضوں کو کھانا شروع کر دیں اس کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
Load Next Story