رمضان بلوچ کی کتاب باتیں اور یادیں

4اگست 1944 کو شاہ بیگ لین لیاری کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔

shabbirarman@yahoo.com

مقامی ہوٹل میں ''لیاری کی ادھوری کہانی'' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ شرکا کی تعداد سے ہال لیاری کا منظر پیش کر رہا تھا۔ یہ کتاب رمضان بلوچ کی دلچسپ اور تاریخی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ جس میں 60 کی دہائی سے لے کر 2004 تک کے ان خاص خاص واقعات کا ذکر ہے جس میں وہ خود شامل تھے یا پھر ان کے اردگرد رونما ہوئے تھے۔

یہ کتاب 25 ابواب پر مشتمل ہے ہر باب کا ایک الگ عنوان ہے جو قاری کو ہر باب پڑھنے پر مجبورکردیتا ہے۔ مثلاً 'دو ہاتھیوں کی جنگ، بمباسا اسٹریٹ'۔ قاری سوچتے ہوں گے کہ یہ دو ہاتھی کون ہیں؟ اور بمباسا اسٹریٹ یقیناً براعظم افریقا میں واقع ہوگا۔ یہ تو کتاب پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ دوہاتھی کون ہیں اور بمباسا اسٹریٹ کہاں واقع ہے۔ اسی طرح ہر باب اپنے اندر ایک ادبی چاشنی رکھتا ہے اور قاری کو ماضی کی سنہری یادوں میں لے جاتا ہے جنھوں نے وہ دور دیکھا ہوگا وہ بلاشبہ یہ کتاب پڑھ کر ماضی میں کھوجاتے ہوں گے۔

جہاں اگرچہ غربت اپنے پنجے گاڑھے ہوئی تھی مگر ہر سو سکھ وچین تھا کیونکہ بھائی چارگی کی فضا غربت پر غالب تھی۔ رمضان بلوچ اپنی عرضداشت میں لکھتے ہیں کہ ''لیاری کی ادھوری کہانی'' دراصل لیاری ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے ماہوار رسالے ''صدائے لیاری'' میں قسط وار شایع شدہ میرے مضامین ''ماضی میں لیاری کے شب و روز'' کا مجموعہ ہیں۔ میں میونسپل انتظامیہ کا بے حد شکر گزار ہوں جنھوں نے ''صدائے لیاری'' کی سرپرستی کی جس کی اشاعت لیاری میں اس لیے کافی مقبول ہوئی ہے کہ اس میں یہاں کی سماجی، تعلیمی، ادبی، ثقافتی اور اسپورٹس سے متعلق سرگرمیوں سے عام قاری کو معلومات فراہم ہوتی ہیں۔

اس موقعے پر لیاری ٹاؤن کے سابق ناظم ملک فیاض اور کوآرڈینیٹر حبیب حسن کا میں بے حد ممنون ہوں۔ یہی وہ دو عوامی نمایندے تھے جنھوں نے 2007 میں ''صدائے لیاری'' کے پروجیکٹ کی منظوری دی۔ ان کے ساتھ ساتھ سابق ناظم محمود ہاشم صاحب اور ایڈمنسٹریٹر و میونسپل کمشنر محمد رئیسی نے بھی ''صدائے لیاری'' کی اشاعت میں دلچسپی برقرار رکھی۔

میں یہاں پر ''صدائے لیاری'' کے ایڈیٹر اور میرے قریبی ساتھی شبیر احمد ارمان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں جنھوں نے ''صدائے لیاری'' میں ماضی کے شب و روز کی سرگزشت لکھنے پر مجھے ''اکسایا''! لیکن ''لیاری کی ادھوری کہانی'' مزید ادھوری رہے گی اگر میں یہاں پر کچھ اور شخصیات کا ذکر نہ کروں۔یہ (ARM) Child And Youth Welfare (KY1) کی میڈم صبا گل سے رابطہ ہوا اور آج یہ کتاب ان کی اور اس ادارے کے سربراہ مشہود رضوی، میڈم انوشکا جتوئی اور مظہر آصف قریشی کی مرہون منت آپ کے زیر مطالعہ ہے۔

''لیاری کی ادھوری کہانی'' کی تقریب رونمائی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ لیاری کی تمام گیارہ یونین کونسلوں تک پھیلائی گئی۔ ہر یونین کونسل میں بریفنگ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ ہر سیشن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت اور ماضی کے بابت سوالات کیے۔ ہر سیشن میں حاضرین کے اسرار پر رمضان بلوچ نے کوئی نہ کوئی باب پڑھ کر سنایا۔ جسے سراہا گیا۔ اور حاضرین میں مفت کتابیں تقسیم کی گئیں۔ واضح رہے اس کتاب کی قیمت انمول ہے یعنی کوئی قیمت نہیں ہے۔ 210 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2000 کی تعداد میں شایع کی گئی ہے اور دن بہ دن اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔


اس کتاب میں شایع شدہ لیاری کی پرانی تصاویر واجد یوسف نسکندی، عبدالرحیم موسوی اور راقم کی فراہم کردہ ہیں۔ کتاب کے بابت تبصرہ بہت کیا گیا ہے یہاں ہم کتاب کے مصنف رمضان بلوچ کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے۔ رمضان بلوچ کو میں ان دنوں سے جانتا ہوں جب میں نے شعوری طور پر آنکھ کھولی۔ ان کے والدین اور بہن بھائیوں بلکہ پورے گھرانے کو اس لیے قریب سے دیکھا ہے کہ یہ ہمارے پڑوسی تھے۔

ہمارا گھر شاہ بیگ لین کی گلی نمبر 1 میں اور ان کا گھر گلی نمبر 2 میں واقع تھے ہمارے گھر کی کھڑکی اور ان کے بھائی جمعہ بلوچ کے گھر کا دروازہ آمنے سامنے تھے برابر میں رمضان بلوچ کا گھر ہوا کرتا تھا۔ ان کے والدین بہت ہی نیک تھے اکثر ان کی والدہ کھڑکی پر میری نانی سے روز مرہ کے معاملات پر گفتگو کرتی اور میں ان کی باتیں سنا کرتا تھا۔ جب بھی اپنی والدہ کے ہمراہ لی مارکیٹ جاتا تو میری والدہ رمضان بلوچ کے والد یا پھر ان کے بھائی جمعہ بلوچ سے سبزی وغیرہ خریدتی تھی اور مجھے تاکید کرتی تھی کہ میں تمہیں مارکیٹ بھیجوں تو تم بھی ان ہی سے سودا سلف لینا اور میں ایسا ہی کرتا تھا۔

یہ تھی اس زمانے کی بھائی چارگی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رمضان بلوچ اور ان کے بھائی جمعہ بلوچ نے یہ گھر چھوڑ دیا رمضان بلوچ قریبی علاقے گل محمد لین میں اور ان کا بھائی جمعہ بلوچ مواچھ گوٹھ میں منتقل ہوگئے۔ پھر کبھی کبھار رمضان بلوچ سے میری ملاقات ہوتی۔ 2004 میں رمضان بلوچ میرے نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے وقتوں میں ہم ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہوں گے۔

ایک دن میں صحافتی کام کی غرض سے لیاری ٹاؤن کے آفس گیا۔ سوچا رمضان بلوچ کو سلام کرتا چلوں۔ اس ملاقات میں باتوں باتوں میں لیاری ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے ایک نیوز لیٹر کے اجرا کے بابت بات چل نکلی۔ ہم دونوں متفق ہوگئے، رمضان بلوچ نے مجھے ڈمی بنانے کے ساتھ ساتھ اس مجوزہ نیوز لیٹر کا نام بھی تجویز کرنے کو کہا۔ دوسرے دن میں ڈمی بناکر لے گیا اور ساتھ ہی کچھ نام بھی لکھ کر لایا جس میں ایک نام ''صدائے لیاری'' بھی تھا۔ رمضان بلوچ کے معرفت اس وقت کے ٹاؤن ناظم ملک فیاض اور ان کے کوآرڈی نیٹر حبیب حسن کے درمیان میٹنگ ہوئی اور صدائے لیاری کی پروجیکٹ کو پسند کیا گیا۔ اس طرح 27جنوری 2007 کو باقاعدہ ایک تقریب میں صدائے لیاری کا اجرا ہوا۔ ان دنوں یہ اخباری شکل میں تھا بعد میں میگزین کے روپ میں نکلنا شروع ہوا پھر یہ رنگین ہوگیا۔

میں اور رمضان بلوچ اپنے کام میں اس قدر مگن ہوگئے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ ایک ساتھ کام کرتے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ ان آٹھ سالوں میں، میں نے رمضان بلوچ کو شریف النفس پایا ہے۔ رمضان بلوچ اکثر مجھ سے اپنے ماضی کی یادیں شیئر کرتے تھے۔ ایک دن راہ چلتے ہوئے میں نے رمضان بلوچ سے کہا آپ کا ماضی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ انھیں قلم بند کریں۔ اکثر ہمارے بزرگوں نے اپنے دور کو اپنے ساتھ دفن کیا ہے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے، آپ ایسا نہ کریں، آپ اپنی آپ بیتی کو لیاری کی نئی نسل کو منتقل کردیں تاکہ انھیں رہنمائی مل سکے جنھیں رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔

رمضان بلوچ کا شمار لیاری کے اہم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ 4اگست 1944 کو شاہ بیگ لین لیاری کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک محنتی مزدور تھے جو مٹی گارے کے مکان میں رہتے تھے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ ان کی سماجی زندگی اس وقت شروع ہوئی جب وہ طالب علم تھے اور لیاری اسٹوڈنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی قیادت میں کونے کونے میں تعلیمی اور سماجی شعور پھیلانے کے لیے موثر مہم چلائی گئی تھی۔

1973 میں انھوں نے حکومت سندھ کی پیشکش قبول کرتے ہوئے رانی پور ڈسٹرکٹ خیرپور میں ٹاؤن میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اپنی 30 سالہ سرکاری خدمات کا آغاز کیا۔ بعد میں انھوں نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں بھی اہم فرائض سرانجام دیے ۔ 2004 میں وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل وہ ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن لیاری میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ اس لحاظ سے وہ مقبول ماہنامہ میگزین ''صدائے لیاری'' کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ ہماری دعا ہے اللہ انھیں صحت مندانہ عمر درازی عطا کرے۔
Load Next Story