سِیسَل کِلر
امریکا میں ڈاکٹروں کی آمدنی اچھی ہے، بلکہ بہت اچھی ہے
امریکا میں ڈاکٹروں کی آمدنی اچھی ہے، بلکہ بہت اچھی ہے۔ایک امریکا ہی پرکیا منحصر یہ ہر جگہ ہی بڑے پیسے بناتے ہیں۔کِسی زمانے میں یہ پیشہ مقدس سمجھا جاتا تھا۔افسوس کہ زمانے کے سردوگرم نے تقدیس کا خاتمہ کردیا۔فرانس کے مایہ ناز فلسفی اورتاریخ دان مائیکل فوکالٹ (15 اکتوبر 1926تا 25 جون1984)نے ''صنعتِ مسیحائی'' پر ایک کتاب لکھی ہے،''دا برتھ آف دا کلینک''۔یہ اِس موضوع پر اہمیت کی حامل ہے۔یہ کتاب ''صنعتِ مسیحائی'' کا وہ رُخ دکھاتی ہے جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔وہ چہرہ دکھاتی ہے جس سے جان بوجھ کر ہم اعراض اور اغماض کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔بات ہو رہی تھی ڈاکٹروں کی آمدن کی، توآمدنی صرف ڈاکٹروں ہی کی نہیں ،دندان شکن صاحبان کی بھی بہت ہے۔ہماری مراد دانتوں کے ڈاکٹروں سے ہے۔
امریکی بیورو آف لیبر کے 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں دانتوں کے ڈاکٹروں کی اوسط آمدن161,750ڈالر سالانہ ہے۔ 3,110 ڈالر فی ہفتہ اور77.76 ڈالر فی گھنٹہ ۔''ٹائم'' کی 13 جنوری 2015کی ایک رپورٹ میں یو ایس نیوز اور ورلڈ رپورٹ کے حوالے سے اِسے بہترین پیشہ قرار دیا گیا ہے۔ امریکا میں دانتوں کے بہترین معالج اور علاج کی جدید اور عمدہ ترین سہولیات میسر ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق یہاں190,000دانتوں کے معالجین ہیں۔برسبیلِ تذکرہ یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ اِس غلط فہمی کی ضرورت نہیں کہ انسانی تاریخ کی بہترین سہولیات کی بِنا پر امریکیوں کے دانت بہت مضبوط ہوں گے اور وہاں دانتوں کے امراض کم ترین سطح پر ہوں گے۔معاملہ اِس کے قطعی برعکس ہے۔
آج امریکیوں کی دانتوں کی صحت انتہائی مخدوش ہے۔امریکی ادارہِ صحت کے مطابق 20سے64 برس کے92فی صدامریکیوں کے دانتوں کو کیڑا لگا ہوتا ہے۔یوایس سینٹرز فارڈیزی کنٹرول اینڈپری وینشن(سی ڈی سی) کے مطابق65برس اور اُس سے زائد عمرکے ایک چوتھائی امریکی دانتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ہر برس 8000امریکی منہ اور حلق کے سرطانوں کی بنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔ ایک اوراندازے کے مطابق تین کروڑ سے زائد امریکی ایک یا دونوں جبڑوں کے دانت گنوا چکے ہیں۔
ڈیڑھ کروڑ نے کراؤن یا برج کے ذریعے جھڑے ہوئے دانتوں کا علاج کروا رکھا ہے۔تیس لاکھ امریکیوں نے مصنوعی دانت لگوائے ہیں اور ہر برس یہ تعداد 500,000 کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق امریکامیں مصنوعی دانتوں کی صنعت 2018 تک 6.4بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔اتنے بہت سے مریضوں کے باوجودحال یہ ہے کہ دانتوں کا علاج ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔لاکھوں امریکی علاجِ دنداں سے محض اِس لیے محروم رہتے ہیں کہ اس مہنگے علاج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ''فرنٹ لائن''کی ڈاکومنٹری''ڈالرز اینڈ ڈینٹسٹ'' اس حوالے سے دیکھے جانے کی چیز ہے۔
طب کی ترقی کے ساتھ ساتھ دو باتیں بالکل صاف ہوتی جا رہی ہیں اول یہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوںدوا کی،یعنی دانتوں کے علاج معالجے میں ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں میں دانتوں کے امراض میں بے طرح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔دوئم،علاج معالجہ عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے۔یہ دو ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن سے آج دنیا بھر کے انسانوں کا سابقہ پیش آرہا ہے۔
جب انسان کے پاس بے تحاشا اور زائد از ضرورت آمدنی ہو تو وہ نت نئے مصارف دریافت کر لیتا ہے۔دورِ جدید نے جہاںدنیا بھر میں ارتکازِ دولت کو عام کیا، وہیں نت نئے مصارف بھی متعارف کروائے۔ایسے ہی مصارف میں سے ایک شکار بھی ہے۔انسان پرانے وقتوں ہی سے شکار کرتا آیا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شکار صرف غذائی ضروریات کے لیے یا کسی مُوذی سے نجات پانے کے لیے ہوا کرتا تھا۔تفریح کے لیے شکار کرنے والے شاذ ہوا کرتے تھے۔
آج حال یہ ہے کہ تفریح اور کھیل تماشے کے طور پر جانوروں کو ہلاک کرنا،اُن کی گردنیں اورکھال اُتار کر بہ طور ''ٹرافی''اپنے گھروں کی زینت بنانا مشغلے کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔امیر لوگ شکارکے لیے غریب اور پس ماندہ ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔اُن کے سر اورکھالیں بہ طور ''ٹرافی''اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔جنوبی اورمرکزی یورپ کے شکاریوں نے اِسے عام کیا۔19ویں صدی سے قبل اِس کا رواج نہ تھا۔شکاریوں نے ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کی نسلیں ختم کر ڈالیں۔(یہ ایک الگ داستانِ الم ہے)۔اِس تمام کھیل تماشے کو''دا بِگ گیم ''کا خوب صورت نام دیا گیا ہے۔بہیمیت کو خوشنما الفاظ کے جامے میں ملفوف کردینا رواج پا گیا ہے۔
آدمی کیوں ہے وحشتوں کا شکار
کیوں جنوں میں کمی نہیں ہوتی
(ابنِ صفی)
جنوں میں کمی نہ ہونے کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ آج ہر ہر چیز کے لیے جذبہ محرکہ، پیسہ یا تفریح اور لذت کوشی قرار پاچکا ہے۔شکار کا بِگ گیم ایک جانب ملین ڈالر انڈسٹری ہے تو دوسری جانب پیسے والوں کی تفریح وتسکین کا سامان۔افریقا میں اِسے ''بگ فائیوگیم'' کا نام دیا گیا ہے۔ وہاں شیر، ہاتھی، گینڈے، بھینسے اورچیتے کے شکارکے لیے شکاری آتے ہیں ہزاروں ڈالر لُٹا کر شکارکرتے ہیں اور اپنی ''ٹرافی'' سمیٹ کر چلتے بنتے ہیں۔
ایسے ہی ایک امریکی دانتوں کے معالج ''والٹر پامر'' ہیں۔آپ جناب کو بھی ڈالروں کی بہتات کے باعث شکارکا مرض لاحق ہوا اور وہ گاہے بہ گاہے افریقا اور دیگر پس ماندہ ممالک کا رُخ کر کے جانداروں کی قیمت پر اپنی تسکین کا سامان کرتے رہے۔ موصوف سفاری کلب انٹرنیشنل کے رکن ہیں۔ یہ ''ٹرافی ہنٹرز''کا کلب ہے۔اِس کے مطابق پامر اب تک 43جانوروںکو ہلاک کر چکے ہیں۔
کچھ غمِ زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
(قابل اجمیری)
''منیسوٹا'' کے یہ قاتل مسیحا،اپنی مسیحائی سے زیادہ اپنی ہلاکتوں پر فخر کرتے تھے اور اِسی سبب آپ کو عالمی رُوسیاہی نصیب ہوئی۔اِس جولائی کو موصوف نے شکار کے لیے زمبابوے کا رُخ کیا۔یہاں پامرکا نشانہ ایک شیر تھا۔سیسل دا لائن۔اِس شیر کے شکار کے لیے پامر نے اطلاعات کے بموجب55,000 امریکی ڈالر صرف کیے۔یہ شیر مقامی افراد کا پسندیدہ ترین شیر ہے اور وہاں کے ''ہوانج نیشنل پارک'' میں تھا۔نیشنل پارک میں کسی بھی قسم کے شکار کی قطعاً ممانعت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نے پیسے کے بل پر انتظامات کیے، ہانکا کرکے شیر کو خاص مقام تک لایا گیا۔رات کی تاریکی میں جدید تیر وکمان سے شیرکوگھائل کردیا گیا۔تمام تر انتظامات اور افراد کی موجودگی میں شیر زخمی ہونے کے باوجود بھاگ نکلا۔پامر اور اُس کے مددگاروں نے 40گھنٹے تک شیرکا تعاقب کیا، تب کہیں جا کر اُسے رائفل سے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئے۔شیر ہلاک کرنے کے بعد پامر نے اُس کی کھال اتاری اور سر بطور ٹرافی محفوظ کیا گیا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا تھا۔ڈاکٹر پامر ایک عادی مجرم ہے۔وہ اِس سے قبل بھی غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جاتا رہا ہے۔یہ اطلاعات جب عام ہوئیں تو عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔افریقی شیروں کی آبادی گزشتہ21برسوں میں42فی صد تک کم ہوگئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ صرف20 ہزار رہ گئے ہیں۔تیزی سے معدوم ہوتی جانداروں کی انواع میں تو ان شیروں کا شمار نہیں کیا جاسکتا(کہ ہر برس تین سے پانچ جاندار معدوم ہوئے جاتے ہیں)لیکن پھربھی اِن کے شکار پر پابندی ضروری ہے۔
جرم اورگناہ کی دوائی کے بعد محض قوانین تہذیبِ اخلاق کی پابندی میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔''اے بی سی'' کے اینکر پرسن''جمی کمِّل'' نے ڈاکٹر پامر کو''امریکا کا سب سے زیادہ نفرت کیا جانے والا فرد ''قرار دیا ہے۔کسی سے نفرت مسئلے کا حل نہیں ہے۔ڈاکٹر پامر کے کلینک کے باہر احتجاج کرتی ایک بچی نے ایک پلے کارڈ سنبھال رکھا تھا۔میرے خیال میں اُس بچی کے اُس پلے کارڈ پر اِس قضیے کا سب سے اہم سوال درج ہے۔وہ سوال جو اب تک کسی نے کسی سے نہیں کیا۔''ڈاکٹر!آپ نے شیر کوکیوں مارا؟''۔سوال یہ ہے کہ یہ کون سی ترقی ہے؟یہ کون سی تہذیب ہے جس نے ایسے افراد کو جنم دیا ہے جن کی بہیمیت سے درندے بھی نہیں بچ پاتے۔
امریکی بیورو آف لیبر کے 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں دانتوں کے ڈاکٹروں کی اوسط آمدن161,750ڈالر سالانہ ہے۔ 3,110 ڈالر فی ہفتہ اور77.76 ڈالر فی گھنٹہ ۔''ٹائم'' کی 13 جنوری 2015کی ایک رپورٹ میں یو ایس نیوز اور ورلڈ رپورٹ کے حوالے سے اِسے بہترین پیشہ قرار دیا گیا ہے۔ امریکا میں دانتوں کے بہترین معالج اور علاج کی جدید اور عمدہ ترین سہولیات میسر ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق یہاں190,000دانتوں کے معالجین ہیں۔برسبیلِ تذکرہ یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ اِس غلط فہمی کی ضرورت نہیں کہ انسانی تاریخ کی بہترین سہولیات کی بِنا پر امریکیوں کے دانت بہت مضبوط ہوں گے اور وہاں دانتوں کے امراض کم ترین سطح پر ہوں گے۔معاملہ اِس کے قطعی برعکس ہے۔
آج امریکیوں کی دانتوں کی صحت انتہائی مخدوش ہے۔امریکی ادارہِ صحت کے مطابق 20سے64 برس کے92فی صدامریکیوں کے دانتوں کو کیڑا لگا ہوتا ہے۔یوایس سینٹرز فارڈیزی کنٹرول اینڈپری وینشن(سی ڈی سی) کے مطابق65برس اور اُس سے زائد عمرکے ایک چوتھائی امریکی دانتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ہر برس 8000امریکی منہ اور حلق کے سرطانوں کی بنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔ ایک اوراندازے کے مطابق تین کروڑ سے زائد امریکی ایک یا دونوں جبڑوں کے دانت گنوا چکے ہیں۔
ڈیڑھ کروڑ نے کراؤن یا برج کے ذریعے جھڑے ہوئے دانتوں کا علاج کروا رکھا ہے۔تیس لاکھ امریکیوں نے مصنوعی دانت لگوائے ہیں اور ہر برس یہ تعداد 500,000 کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق امریکامیں مصنوعی دانتوں کی صنعت 2018 تک 6.4بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔اتنے بہت سے مریضوں کے باوجودحال یہ ہے کہ دانتوں کا علاج ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔لاکھوں امریکی علاجِ دنداں سے محض اِس لیے محروم رہتے ہیں کہ اس مہنگے علاج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ''فرنٹ لائن''کی ڈاکومنٹری''ڈالرز اینڈ ڈینٹسٹ'' اس حوالے سے دیکھے جانے کی چیز ہے۔
طب کی ترقی کے ساتھ ساتھ دو باتیں بالکل صاف ہوتی جا رہی ہیں اول یہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوںدوا کی،یعنی دانتوں کے علاج معالجے میں ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں میں دانتوں کے امراض میں بے طرح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔دوئم،علاج معالجہ عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے۔یہ دو ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن سے آج دنیا بھر کے انسانوں کا سابقہ پیش آرہا ہے۔
جب انسان کے پاس بے تحاشا اور زائد از ضرورت آمدنی ہو تو وہ نت نئے مصارف دریافت کر لیتا ہے۔دورِ جدید نے جہاںدنیا بھر میں ارتکازِ دولت کو عام کیا، وہیں نت نئے مصارف بھی متعارف کروائے۔ایسے ہی مصارف میں سے ایک شکار بھی ہے۔انسان پرانے وقتوں ہی سے شکار کرتا آیا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شکار صرف غذائی ضروریات کے لیے یا کسی مُوذی سے نجات پانے کے لیے ہوا کرتا تھا۔تفریح کے لیے شکار کرنے والے شاذ ہوا کرتے تھے۔
آج حال یہ ہے کہ تفریح اور کھیل تماشے کے طور پر جانوروں کو ہلاک کرنا،اُن کی گردنیں اورکھال اُتار کر بہ طور ''ٹرافی''اپنے گھروں کی زینت بنانا مشغلے کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔امیر لوگ شکارکے لیے غریب اور پس ماندہ ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔اُن کے سر اورکھالیں بہ طور ''ٹرافی''اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔جنوبی اورمرکزی یورپ کے شکاریوں نے اِسے عام کیا۔19ویں صدی سے قبل اِس کا رواج نہ تھا۔شکاریوں نے ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کی نسلیں ختم کر ڈالیں۔(یہ ایک الگ داستانِ الم ہے)۔اِس تمام کھیل تماشے کو''دا بِگ گیم ''کا خوب صورت نام دیا گیا ہے۔بہیمیت کو خوشنما الفاظ کے جامے میں ملفوف کردینا رواج پا گیا ہے۔
آدمی کیوں ہے وحشتوں کا شکار
کیوں جنوں میں کمی نہیں ہوتی
(ابنِ صفی)
جنوں میں کمی نہ ہونے کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ آج ہر ہر چیز کے لیے جذبہ محرکہ، پیسہ یا تفریح اور لذت کوشی قرار پاچکا ہے۔شکار کا بِگ گیم ایک جانب ملین ڈالر انڈسٹری ہے تو دوسری جانب پیسے والوں کی تفریح وتسکین کا سامان۔افریقا میں اِسے ''بگ فائیوگیم'' کا نام دیا گیا ہے۔ وہاں شیر، ہاتھی، گینڈے، بھینسے اورچیتے کے شکارکے لیے شکاری آتے ہیں ہزاروں ڈالر لُٹا کر شکارکرتے ہیں اور اپنی ''ٹرافی'' سمیٹ کر چلتے بنتے ہیں۔
ایسے ہی ایک امریکی دانتوں کے معالج ''والٹر پامر'' ہیں۔آپ جناب کو بھی ڈالروں کی بہتات کے باعث شکارکا مرض لاحق ہوا اور وہ گاہے بہ گاہے افریقا اور دیگر پس ماندہ ممالک کا رُخ کر کے جانداروں کی قیمت پر اپنی تسکین کا سامان کرتے رہے۔ موصوف سفاری کلب انٹرنیشنل کے رکن ہیں۔ یہ ''ٹرافی ہنٹرز''کا کلب ہے۔اِس کے مطابق پامر اب تک 43جانوروںکو ہلاک کر چکے ہیں۔
کچھ غمِ زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
(قابل اجمیری)
''منیسوٹا'' کے یہ قاتل مسیحا،اپنی مسیحائی سے زیادہ اپنی ہلاکتوں پر فخر کرتے تھے اور اِسی سبب آپ کو عالمی رُوسیاہی نصیب ہوئی۔اِس جولائی کو موصوف نے شکار کے لیے زمبابوے کا رُخ کیا۔یہاں پامرکا نشانہ ایک شیر تھا۔سیسل دا لائن۔اِس شیر کے شکار کے لیے پامر نے اطلاعات کے بموجب55,000 امریکی ڈالر صرف کیے۔یہ شیر مقامی افراد کا پسندیدہ ترین شیر ہے اور وہاں کے ''ہوانج نیشنل پارک'' میں تھا۔نیشنل پارک میں کسی بھی قسم کے شکار کی قطعاً ممانعت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نے پیسے کے بل پر انتظامات کیے، ہانکا کرکے شیر کو خاص مقام تک لایا گیا۔رات کی تاریکی میں جدید تیر وکمان سے شیرکوگھائل کردیا گیا۔تمام تر انتظامات اور افراد کی موجودگی میں شیر زخمی ہونے کے باوجود بھاگ نکلا۔پامر اور اُس کے مددگاروں نے 40گھنٹے تک شیرکا تعاقب کیا، تب کہیں جا کر اُسے رائفل سے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئے۔شیر ہلاک کرنے کے بعد پامر نے اُس کی کھال اتاری اور سر بطور ٹرافی محفوظ کیا گیا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا تھا۔ڈاکٹر پامر ایک عادی مجرم ہے۔وہ اِس سے قبل بھی غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جاتا رہا ہے۔یہ اطلاعات جب عام ہوئیں تو عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔افریقی شیروں کی آبادی گزشتہ21برسوں میں42فی صد تک کم ہوگئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ صرف20 ہزار رہ گئے ہیں۔تیزی سے معدوم ہوتی جانداروں کی انواع میں تو ان شیروں کا شمار نہیں کیا جاسکتا(کہ ہر برس تین سے پانچ جاندار معدوم ہوئے جاتے ہیں)لیکن پھربھی اِن کے شکار پر پابندی ضروری ہے۔
جرم اورگناہ کی دوائی کے بعد محض قوانین تہذیبِ اخلاق کی پابندی میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔''اے بی سی'' کے اینکر پرسن''جمی کمِّل'' نے ڈاکٹر پامر کو''امریکا کا سب سے زیادہ نفرت کیا جانے والا فرد ''قرار دیا ہے۔کسی سے نفرت مسئلے کا حل نہیں ہے۔ڈاکٹر پامر کے کلینک کے باہر احتجاج کرتی ایک بچی نے ایک پلے کارڈ سنبھال رکھا تھا۔میرے خیال میں اُس بچی کے اُس پلے کارڈ پر اِس قضیے کا سب سے اہم سوال درج ہے۔وہ سوال جو اب تک کسی نے کسی سے نہیں کیا۔''ڈاکٹر!آپ نے شیر کوکیوں مارا؟''۔سوال یہ ہے کہ یہ کون سی ترقی ہے؟یہ کون سی تہذیب ہے جس نے ایسے افراد کو جنم دیا ہے جن کی بہیمیت سے درندے بھی نہیں بچ پاتے۔