محاسبہ اندھا گونگا اور بہرا ہونا چاہیے
میری نظر میں وطنِ عزیزکو معاشی اور اقتصادی طور پر تباہ وبرباد کرکے اُسے دوسروں کا دستِ نگر بنانے
قومی ایکشن پلان کے تحت کیا جانے والا تطہیری عمل خوفناک دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے عزم اورشہرکراچی میں امن قائم کرنے کے ارادوں اورکوششوں کے ساتھ ساتھ اب کرپٹ عناصر کے خلاف بھی سرگرم ہوچکا ہے۔
رفتہ رفتہ اُس کے آہنی شکنجے میں بڑے بڑے مگرمچھ پھنستے جارہے ہیں۔ہم ایسا کام کرتے ہی کیوں ہیں جن پر ہمیں پکڑے جانے کا خوف ہر وقت ستاتا رہے۔کیا ہم نہیں جانتے کہ اِس غریب قوم کے ساتھ ہم کیا کیا زیادتیاں کرتے آئے ہیں۔ہم منتخب تو اُنہی کے ووٹوں سے ہوتے ہیں لیکن خدمت صرف اپنی ہی کرتے ہیں۔کروڑوں ، اربوں رُوپے لوٹ کر ہم نہ صرف اپنے عوام کو تاریکیوں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں بلکہ اِس سرزمین ِ پاکستان کو بھی نیست ونابود اور تاراج کر رہے ہوتے ہیں۔
ذرا غورکیجیے دنیا کے خطرناک، سرد اور بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن اورشمالی وزیرستان میں انتہائی سخت موسمی اور جغرافیائی حالات میںاپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے ہمارے فوجی نوجوانوں کی ذہنی وقلبی کیفیت اُس وقت کیسی ہوتی ہوگی جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہوگا کہ ہم تو وطنِ عزیز کے لیے اپنا تمام سکھ اور چین چھوڑ کر یہاں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اورہمارے سیاسی قائدین ملکی وسائل اوردولت لوٹ کر اِس ملک وقوم کو قرق اورکنگال کررہے ہیں ۔
میری نظر میں وطنِ عزیزکو معاشی اور اقتصادی طور پر تباہ وبرباد کرکے اُسے دوسروں کا دستِ نگر بنانے،امداد اورقرض کے دلدل میں غرق کرنے والے اِس ملک کے سب سے بڑے مجرم اور دہشت گرد ہیں۔ اُنہیں بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ہم کسی غدار یا عسکریت پسند دہشت گرد کے لیے تفویض کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ کسی بھی رحم اور ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔اِنہیں اتنی سخت سزائیں دی جائیں کہ اِن کے آنے والی نسلیں آیندہ کئی صدیوں تک اِس جرم کے ارتکاب سے باز رہیں۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یقینا عوام الناس کے جذبات اور شدت کا اندازہ ہے اِسی لیے وہ اپنے ارادوں اورعزائم میں ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں لیکن اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کرپشن کا عفریت اتنا مضبوط اورسخت جاں ہوچکا ہے کہ اِس پر ضرب لگانے والا خود چاروں شانے چت ہوجاتا ہے۔اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے۔ محاسبہ اور سخت ترین احتساب کی باتیں ہم پہلے بھی کئی بار سنتے آئے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ابتدائی دور میںایسے ہی آہنی عزم اور ارادے کا اظہار کیا تھا۔لیکن پھرکیا ہوا ۔
اُن کے ارد گرد بھی وہی سیاستدان دکھائی دینے لگے جنہوں نے اِس قوم کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ نو سال تک وہ حکمراں رہے لیکن وہ کسی ایک کرپٹ سیاستداں کا کچھ بگاڑ نہیں پائے۔اب ہمارے عوام کی نظریں ایک بار پھر اپنی اسٹیبلشمنٹ پر لگی ہوئی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اِس بار ہونے والا احتساب اندھا،گونگا اور بہرہ ہو۔اِس کی زد میں آنے والا کوئی شخص چاہے کتنا ہی بااختیارہو،کتنا ہی بااثر ہو اور قدوقامت کے لحاظ سے کتنا ہی بلند اور تعلقات والا ہو اپنے منطقی انجام سے ہرگز بچنا نہیں چاہیے۔
ایک عرصے سے عوام کا لہو پینے والی اِس مخلوق کو اُس کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔اگر ہم نے اِس بار اُنہیں چھوڑ دیا تو یہ اِس قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ادھورے اور نامکمل احتساب کا مطلب اِس قوم کو پہلے سے زیادہ بُرے حالات کی طرف دھکیل دینا ہوگا۔پاکستان کے عوام قومی وسائل لوٹنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو تختۂ دار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اِس کے علاوہ ہمارے عوام کو اورکچھ نہیں چاہیے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے آج جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ کوئی اتنا آسان اور سہل بھی نہیں ہے۔ کرپشن کی جڑیں بہت گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔سرکاری اداروں میں ہوتی ہوئی کرپشن تو ہم سب کو دکھائی دیتی ہے، لیکن غیر ملکی کمپنیوں اور دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں ہونے والی پسِ پردہ کرپشن کی بے شمار وارداتیں ایسی ہیں جو ہر کسی کی آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔اِس کے علاوہ قومی بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے کر پھر خود کو دیوالیہ اور بینک کرپٹ ظاہرکرکے معاف کروانے والے بھی کسی مصلحت اور رحم کے مستحق ہرگز نہیں ہیں۔
اِس کے لیے کسی بڑی تحقیق اور تفتیش کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارے بینکوں کے پاس اُن کی لمبی فہرست موجود ہے ۔صرف وہی اُٹھا کر اِس پرکام آج ہی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ بلا تفریق ، بے لاگ اور بے رحم محاسبے کی کامیابی کا انحصار اِسی پر ہے کہ وہ بالکل غیرجانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ ہو۔وطنِ عزیزکودیوالیہ اور بے دست و پا کرکے اپنی سلطنتوں کو وسعت دینے والے کرپٹ عناصر ہمیں ہر سیاسی پارٹی میں ملیں گے۔ قطع نظر اِس کے کون کتنا طاقتور اور بااثر ہے ہمیں بلاامتیاز و تفریق ہر ایک پرکاری ضرب لگانا ہوگی۔
سیاست کوکرپشن اوردہشت گردی سے پاک کرنے کا موجودہ بندوبست ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی سے ایک فریق کی جانب سے اُس پر لسانی وصوبائی منافرت کے الزامات لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کی سب سے بڑی داعی اور پاسدارجماعت کی اعلیٰ قیادت نے پہلے پہل اہم ریاستی ادارے کو دھونس اوردھمکی دینے کی کوشش کی لیکن اُنہیں اپنے دام میں پھنسانے کی مذموم کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ اب حکومتِ وقت کو اِس کا الزام دیکر کھلی جنگ کرنے کی باتیں کرنے لگی ہے۔
جمہوریت کے تحفظ کی قسمیں کھانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف حالیہ مہم وفاقی حکومت نے شروع نہیں کی لیکن وہ اُس پر اپنا دباؤ ڈالکر اور اُس کے خلاف محاذ آرائی کرکے خود اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کی پامالی اوربیخ کنی کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ دوسری جانب ایک ایسا جنرل اپنے فولادی اورغیر متزلزل عزم و استقامت کے ساتھ کھڑا ہوا ہے جس کے خاندان نے اِس ارضِ پاک کی حفاظت، سالمیت اوریکجہتی کی قسم کھائی ہوئی ہے۔
اُس کی پاکستان سے محبت، وفاداری اور جانثاری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔اُس نے ابھی تک ایسی کسی گستاخی اور بدکلامی کا جواب تک نہیں دیا ہے۔
وہ خاموشی سے صرف اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے۔کبھی وہ وزیرستان میں دکھائی دیتا ہے تو کبھی سیالکوٹ میںمحاذِ جنگ پر۔کبھی وہ کراچی میں اپیکس کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے تو کبھی نیشنل ایکشن پلان پر اب تک ہونے والے کاموں پر نظر رکھ رہا ہوتا ہے۔وہ ہر خوشی اور عید کے روز اور قومی تہوار کے موقعے پراپنے جوانوں کاحوصلہ بڑھانے کے لیے اُن کے ہمراہ دکھائی دے رہاہوتاہے۔یاد رہے کہ بسیارگوئی ، نفرت اور اشتعال انگیزی سے قوموں کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہواکرتے۔اِس کے لیے جرأت و ہمت کے ساتھ ساتھ کردار کی پاکیزگی ،ایمانداری اور ارادوں کی اولاالعزمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
رفتہ رفتہ اُس کے آہنی شکنجے میں بڑے بڑے مگرمچھ پھنستے جارہے ہیں۔ہم ایسا کام کرتے ہی کیوں ہیں جن پر ہمیں پکڑے جانے کا خوف ہر وقت ستاتا رہے۔کیا ہم نہیں جانتے کہ اِس غریب قوم کے ساتھ ہم کیا کیا زیادتیاں کرتے آئے ہیں۔ہم منتخب تو اُنہی کے ووٹوں سے ہوتے ہیں لیکن خدمت صرف اپنی ہی کرتے ہیں۔کروڑوں ، اربوں رُوپے لوٹ کر ہم نہ صرف اپنے عوام کو تاریکیوں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں بلکہ اِس سرزمین ِ پاکستان کو بھی نیست ونابود اور تاراج کر رہے ہوتے ہیں۔
ذرا غورکیجیے دنیا کے خطرناک، سرد اور بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن اورشمالی وزیرستان میں انتہائی سخت موسمی اور جغرافیائی حالات میںاپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے ہمارے فوجی نوجوانوں کی ذہنی وقلبی کیفیت اُس وقت کیسی ہوتی ہوگی جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہوگا کہ ہم تو وطنِ عزیز کے لیے اپنا تمام سکھ اور چین چھوڑ کر یہاں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اورہمارے سیاسی قائدین ملکی وسائل اوردولت لوٹ کر اِس ملک وقوم کو قرق اورکنگال کررہے ہیں ۔
میری نظر میں وطنِ عزیزکو معاشی اور اقتصادی طور پر تباہ وبرباد کرکے اُسے دوسروں کا دستِ نگر بنانے،امداد اورقرض کے دلدل میں غرق کرنے والے اِس ملک کے سب سے بڑے مجرم اور دہشت گرد ہیں۔ اُنہیں بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ہم کسی غدار یا عسکریت پسند دہشت گرد کے لیے تفویض کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ کسی بھی رحم اور ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔اِنہیں اتنی سخت سزائیں دی جائیں کہ اِن کے آنے والی نسلیں آیندہ کئی صدیوں تک اِس جرم کے ارتکاب سے باز رہیں۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یقینا عوام الناس کے جذبات اور شدت کا اندازہ ہے اِسی لیے وہ اپنے ارادوں اورعزائم میں ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں لیکن اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کرپشن کا عفریت اتنا مضبوط اورسخت جاں ہوچکا ہے کہ اِس پر ضرب لگانے والا خود چاروں شانے چت ہوجاتا ہے۔اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے۔ محاسبہ اور سخت ترین احتساب کی باتیں ہم پہلے بھی کئی بار سنتے آئے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ابتدائی دور میںایسے ہی آہنی عزم اور ارادے کا اظہار کیا تھا۔لیکن پھرکیا ہوا ۔
اُن کے ارد گرد بھی وہی سیاستدان دکھائی دینے لگے جنہوں نے اِس قوم کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ نو سال تک وہ حکمراں رہے لیکن وہ کسی ایک کرپٹ سیاستداں کا کچھ بگاڑ نہیں پائے۔اب ہمارے عوام کی نظریں ایک بار پھر اپنی اسٹیبلشمنٹ پر لگی ہوئی ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اِس بار ہونے والا احتساب اندھا،گونگا اور بہرہ ہو۔اِس کی زد میں آنے والا کوئی شخص چاہے کتنا ہی بااختیارہو،کتنا ہی بااثر ہو اور قدوقامت کے لحاظ سے کتنا ہی بلند اور تعلقات والا ہو اپنے منطقی انجام سے ہرگز بچنا نہیں چاہیے۔
ایک عرصے سے عوام کا لہو پینے والی اِس مخلوق کو اُس کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔اگر ہم نے اِس بار اُنہیں چھوڑ دیا تو یہ اِس قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ادھورے اور نامکمل احتساب کا مطلب اِس قوم کو پہلے سے زیادہ بُرے حالات کی طرف دھکیل دینا ہوگا۔پاکستان کے عوام قومی وسائل لوٹنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو تختۂ دار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اِس کے علاوہ ہمارے عوام کو اورکچھ نہیں چاہیے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے آج جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ کوئی اتنا آسان اور سہل بھی نہیں ہے۔ کرپشن کی جڑیں بہت گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔سرکاری اداروں میں ہوتی ہوئی کرپشن تو ہم سب کو دکھائی دیتی ہے، لیکن غیر ملکی کمپنیوں اور دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں ہونے والی پسِ پردہ کرپشن کی بے شمار وارداتیں ایسی ہیں جو ہر کسی کی آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔اِس کے علاوہ قومی بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے کر پھر خود کو دیوالیہ اور بینک کرپٹ ظاہرکرکے معاف کروانے والے بھی کسی مصلحت اور رحم کے مستحق ہرگز نہیں ہیں۔
اِس کے لیے کسی بڑی تحقیق اور تفتیش کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارے بینکوں کے پاس اُن کی لمبی فہرست موجود ہے ۔صرف وہی اُٹھا کر اِس پرکام آج ہی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ بلا تفریق ، بے لاگ اور بے رحم محاسبے کی کامیابی کا انحصار اِسی پر ہے کہ وہ بالکل غیرجانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ ہو۔وطنِ عزیزکودیوالیہ اور بے دست و پا کرکے اپنی سلطنتوں کو وسعت دینے والے کرپٹ عناصر ہمیں ہر سیاسی پارٹی میں ملیں گے۔ قطع نظر اِس کے کون کتنا طاقتور اور بااثر ہے ہمیں بلاامتیاز و تفریق ہر ایک پرکاری ضرب لگانا ہوگی۔
سیاست کوکرپشن اوردہشت گردی سے پاک کرنے کا موجودہ بندوبست ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی سے ایک فریق کی جانب سے اُس پر لسانی وصوبائی منافرت کے الزامات لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کی سب سے بڑی داعی اور پاسدارجماعت کی اعلیٰ قیادت نے پہلے پہل اہم ریاستی ادارے کو دھونس اوردھمکی دینے کی کوشش کی لیکن اُنہیں اپنے دام میں پھنسانے کی مذموم کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ اب حکومتِ وقت کو اِس کا الزام دیکر کھلی جنگ کرنے کی باتیں کرنے لگی ہے۔
جمہوریت کے تحفظ کی قسمیں کھانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف حالیہ مہم وفاقی حکومت نے شروع نہیں کی لیکن وہ اُس پر اپنا دباؤ ڈالکر اور اُس کے خلاف محاذ آرائی کرکے خود اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کی پامالی اوربیخ کنی کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ دوسری جانب ایک ایسا جنرل اپنے فولادی اورغیر متزلزل عزم و استقامت کے ساتھ کھڑا ہوا ہے جس کے خاندان نے اِس ارضِ پاک کی حفاظت، سالمیت اوریکجہتی کی قسم کھائی ہوئی ہے۔
اُس کی پاکستان سے محبت، وفاداری اور جانثاری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔اُس نے ابھی تک ایسی کسی گستاخی اور بدکلامی کا جواب تک نہیں دیا ہے۔
وہ خاموشی سے صرف اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے۔کبھی وہ وزیرستان میں دکھائی دیتا ہے تو کبھی سیالکوٹ میںمحاذِ جنگ پر۔کبھی وہ کراچی میں اپیکس کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے تو کبھی نیشنل ایکشن پلان پر اب تک ہونے والے کاموں پر نظر رکھ رہا ہوتا ہے۔وہ ہر خوشی اور عید کے روز اور قومی تہوار کے موقعے پراپنے جوانوں کاحوصلہ بڑھانے کے لیے اُن کے ہمراہ دکھائی دے رہاہوتاہے۔یاد رہے کہ بسیارگوئی ، نفرت اور اشتعال انگیزی سے قوموں کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہواکرتے۔اِس کے لیے جرأت و ہمت کے ساتھ ساتھ کردار کی پاکیزگی ،ایمانداری اور ارادوں کی اولاالعزمی کی ضرورت ہوتی ہے۔