بُوٹے میں سانپ

سیاسی پارٹیاں آخر کب تک ’’وائیٹ کالر کرائمز‘‘ کے بے تاج بادشاہوں کو اپنے ماتھے کا جھومر بناتی رہیں گی؟


انعام مسعودی September 08, 2015
آخر وہ کیا وجہ ہے کہ یہاں غریب اپنے مسائل کے حل کے لئے غریب پرور لیڈر کو موقع نہیں دیتے؟ شاید لوگ بھی زہریلے سانپوں سے ڈسوانے کے نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔

بچپن میں والد صاحب ملازمین کو غلط بیانی اور بہانے بازی پر ڈانٹتے ہوئے ایک جملہ کہا کرتے تھے لیکن اُس وقت اس کی ''ککھ'' سمجھ نہیں آتی تھی۔ ابھی بھی شاید نہ آتی اگر ایک ٹی وی پروگرام دیکھتے یہی جملہ دوبارہ نہ سنتے، یہ جملہ ہے ''بوٹے وچ سپ باڑنا'' یعنی درخت کے تنے میں سانپ گھسانا۔ سندھ میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں پر پی پی پی کی ایک خاتون رہنما ''سانپ کی دُم پر پاؤں'' آجانےکے مِصداق غصے کے عالم میں پُھنکار رہی تھیں، چند نمایاں ''پُھنکاریاں'' یعنی سُرخیاں جو ان کی پُھنکار سے برآمد ہوئیں ان کا خلاصہ یہ تھا۔
پیپلز پارٹی کو مفاہمتی سیاست جبکہ زرداری کو ''پاکستان کھپے'' کی سزادی جارہی ہے۔

کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت رہے۔

اگر پولیٹیکل وِکٹامائزیشن نہ روکی گئی تو وفاق خطرے میں پڑجائے گا۔

والد صاحب نے ان کی گفتگو سُن کر کہا کہ ''ایہہ بوٹے وِچ سپ باڑ ریہے نے'' ان کی کرپشن کیونکر چُھپےگی؟ سندھ میں سندھیوں کے لئے بہتی نہروں کا ذکر میڈیا کے ذریعے تو بہت سنا تھا مگر اس کا ''لائیو ایکسپیرینس'' یا براہِ راست تجربہ اپنے ایک حالیہ سفرِ سندھ کے دوران ہوا، جب کشمور، سکھر، بدین اور تھر کے علاقوں میں ایک پروجیکٹ کے لئے ہفتہ بھر سفر کرنا پڑا۔ کم و بیش 8 سالوں سے سندھ حکومت کی مسندِ اقتدار پر براجمان رہنے کے باوجود پی پی پی سندھی عوام کے لئے ''فخرِ ایشیا'' کے ایجنڈے یعنی روٹی، کپڑا اور مکان میں سے کیا کیا تحفے دے سکی یہ تلاش کرنے کے لئے سندھ کے طول وعرض میں ابنِ بطوطہ کی طرح ایک تحقیقی سفر کرنا پڑے گا۔ اور شاید کافی موٹے شیشوں والی عینک کا بوجھ بھی اپنی ناتواں ناک پر ڈالنا پڑے گا کیوں کہ ''ننگی آنکھوں'' سے تو بھوک اور ننگ ہی نظر آتا ہے، رہ گیا مکان تو یہ کام ملک ریاض صاحب اپنے ذمے لے چکے، ویسے بھی زرداری صاحب کے اسلام آباد سے جاتے ہی ملک صاحب بھی اب کراچی کے ہوچکے ہیں۔

داد دینا پڑتی ہے تو پی پی پی کے کارکن کو جو ''اسلامی سوشل ازم'' کے نعرے پر قائم کی جانے والی پارٹی کے ''فیوڈل لارڈز'' کے لئے اپنی گردن کٹوانے اور ان کے مفادات کے لئے کبھی ''پاکستان کھپے اور کبھی نہ کھپے'' کے نعرے لگانے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔ حالانکہ ان ''جیالوں'' کے قائد ایک زرداری جو باقی سب کے ساتھ ساتھ اب اپنے آپ پر بھی بھاری دِکھتے ہیں کہ نزدیک طاقت کا اصل سر چشمہ عوام کی بجائے وہ فرنٹ مین ہیں، جن کو انھوں نے تنظیمی اور حکومتی اختیار دے رکھے ہیں۔ حکومتی عہدوں پر براجمان ''مجاور'' ہوں یا ''سائیں'' ان کا کردار زیادہ سے زیادہ شو پیس سے زیادہ نہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو سندھ میں سائیں سے ''ٹپی'' کے بارے میں پوچھ لیں جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان والوں سے ''ادی'' کے بارے میں پوچھ لیں۔

''عجب کرپشن کی یہ غضب کہانیاں'' نئی نہیں ہیں، پی پی پی کے دورِ حکومت میں ہی اس پر میڈیا اور سول سوسائٹی میں صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں لیکن ملکی داخلی سلامتی کی صورتِ حال اور دہشت گردی کے تناظر میں اُس وقت کی دُور اندیش اور مدبر اسٹیبلشمنٹ نے ایک غیر اعلانیہ ''این آراو'' کے تحت اپنی آنکھیں موندھ لیں اور جواباً افغان پالیسی، خارجہ پالیسی اور اندرون ملک آپریشنز وغیرہ پر پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو مکمل بے دخل کردیا۔

کرپشن کے عنوان کے تحت اس ''ریسلنگ رِنگ'' کے باقی پلیئرز کی ''سوانحِ حیات'' پھر کبھی، اس وقت تو دماغ چند ایک المیوں پر گھوم رہا ہے۔ اس ملک کے غریب لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے کبھی کسی غریب یا غریب پرور لیڈر کو موقع دینے پر تیار کیوں نہیں؟ شاید لوگ بھی زہریلے سانپوں سے ڈسوانے کے نشے کے عادی ہوچکے اور ہر بار زیادہ کارگر زہر والے سانپ سے ڈسوانے میں ہی زندگی کی بقا سمجھتے ہیں۔ پھر ہمارے ملک کے مقتدر حلقے اور طاقت کے اصل مراکز بھی اپنی ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔

موجودہ حالات کے پسِ منظر میں یہ ضروری ہے کہ کرپشن کے خلاف بے لاگ، مربوط، طویل مدتی اور شفاف کاروائی کی جائے اور اسے کسی ایک پارٹی اور صوبے تک محدود نہ رکھا جائے۔ بصورتِ دیگر پی پی پی کی قیادت ''سیاسی شہادت'' کا کوئی نہ کوئی بہانہ پیدا کرکے اس اہم کام کو غیر موثر اور متنازعہ بنا دے گی۔ ان کی ایک لیڈر نے اسے ''لیفٹ ونگ اور سیکولر پارٹیوں'' کے خلاف کاروائی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کے لئے لمحہِ فکریہ بھی ہے کہ آخر کب تک وہ ''وائیٹ کالر کرائمز'' کے ان بے تاج بادشاہوں کو اپنے ماتھے کا جھومر بناتے رہیں گی؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ اب جُرم اور سیاست کو الگ الگ نظر سے دیکھا جائے۔

[poll id="649"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں