ہائے بھوک تجھے کیوں نہ موت آئی
خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے خوراک کا زیاں
کیا کبھی ایک لمحے کو بھی آپ نے تصور کیا ہے کہ جتنی دیر میں آپ کھانا کھاتے ہیں محض اتنی سی دیر میں دنیا بھر میں 5 سال سے بھی کم عمر کے کم و بیش 15 بچے صرف غذائی قلت اور بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن یہ تو ان کا مسئلہ ہے ہمیں کیا؟ اس معاملے پر قطعاً حساس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کل کے دور میں حد سے زیادہ حساسیت انسان کیلئے جینا دشوار کردیتی ہے، اور ویسے بھی اس قسم کی خبروں یا ان چیزوں سے ہمیں کونسا فرق پڑتا ہے، یا ہمارا لائف اسٹائل تبدیل ہوجاتا ہے؟ اس طرح کی ہزار ہا خبریں ہر روز چھپتی ہیں، جن پر نظر ڈال کر آگے بڑھ جانا چاہئے کیونکہ ماضی کے ساتھ جینے والے ماضی کا ہی حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
ایک طرف بھوک تو ایک طرف صورت حال کچھ یوں ہے کہ اضافی خوراک بغیر کھائے پیے کوڑے کے ڈرموں کی نذر ہوجاتی ہے۔ گلوبل کمیشن اکانومی اینڈ کلائمیٹ کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک کھانے کا زیاں بڑھ جائے گا جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار برائے 2014ء بتاتے ہیں کہ دنیا میں ہر سال تقریباً 31 لاکھ بچے صرف غذائی قلت کے ہاتھوں دم توڑ دیتے ہیں اور یہ اس تعداد کا صرف 45 فیصد ہے جنہیں مکمل غذا میسر نہیں آتی، اور اس وجہ سے ان کی بھرپور نشوونما نہیں ہوپاتی۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی کا تخمینہ تقریباً 7 ارب لگایا جاتا ہے مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسی روئے زمین پر86 کروڑ افراد اس فکر میں بھی گھلے جارہے ہیں کہ پیٹ کا یہ دوزخ کیسے بھرنا ہے؟ تقریباً ہر آٹھویں شخص کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے اور جنگ و جدل کے واقعات میں تیزی اور پے در پے آنے والی قدرتی آفات کے باعث یہ تعداد نہایت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے اسی ادارے کے مطابق دنیا میں سالانہ تقریباً ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جو پوری دنیا کی خوراک کا کم و بیش 30 فیصد ہے۔ اس خوراک سے اندازاً سالانہ 2 ارب لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ یہ تو اُن لوگوں کا مسئلہ ہے ناں، ہمارا اس معاملے سے کیا لینا دینا۔ ہم تو آج سے قبل بھی اسی نظریے پر کاربند تھے اور آئندہ بھی یہی اصول اپنائیں گے کہ جتنا کھا سکے کھالیں گے باقی کوڑے دان میں، بھوک ہم لوگوں کا مسئلہ تھوڑی ہے، ہمارے فریزر تو پہلے ہی خوراک سے بھرے پڑے ہیں، پھر ہماری جیب میں پیسے بھی ہیں اور باہر دکانیں بھی موجود ہیں۔
معاشی ماہرین تو پاکستان کو غریب ممالک کی فہرست میں رکھتے ہیں مگر یہاں کے اطوار دیکھ کر قطعاً اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارا حال بھی امریکا جیسا ہے جہاں شہری ہر سال اندازاً اپنا 40 فیصد کھانا بغیر کھائے کوڑے کے ڈرموں کی نذر کردیتے ہیں جس کے سبب 165 ارب ڈالر سالانہ کا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ امریکی اپنا جتنا کھانا ضائع کرتے ہیں وہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں خوراک کی کل کھپت سے 10 گنا زیادہ ہے۔ امریکا کی نیشنل ریسورس ڈیفنس کونسل کے مطابق امریکی شہریوں میں کھانے کو ضائع کرنے کا عمل ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یکساں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خوراک کی قیمتیں کم ہونا ہے۔ اسی طرح ریستورانوں اور فوڈ سروس کی جگہوں پر گاہک کیلئے حکومت کی طرف سے منظور کردہ خوراک کی پلیٹ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی گاہک خوراک کا کچھ حصہ کھا کر باقی ہاتھ لگائے بغیر واپس کر دیتا ہے۔
مارکیٹ سے خریدی گئی 15 فیصد غذائی چیزیں بھی امریکا میں ڈسٹ بن کا حصہ بنتی ہیں اور ان میں سے 93 فیصد وہ ہوتی ہیں جنہیں لوگ خرید تو لیتے ہیں مگر استعمال نہیں کرپاتے جبکہ یورپ میں اوسطاً فی فرد سالانہ تقریباً 280 کلو گرام غذائی اشیاء کوڑے کے ڈرم کے حصے میں آتی ہیں، جن میں سے 90 کلو گرام خوراک افراد اور 190 کلو گرام خوراک پروڈکشن اور دوسرے مراحل کے دوران کمپنیاں ضائع کرتی ہیں۔ چلیں یہ تو امریکا و یورپ کی مثال تھی مگر کیا ہمارے ہاں بھی ایسا نہیں ہوتا؟ ہوٹلنگ کے شائقین نے بارہا یہ عمل دہرایا ہوگا۔ اگرچہ ہم نے بہت محتاط لوگوں کو بھی دیکھا ہے مگر یہ ''اسٹیٹس سمبل'' کے خلاف ہے، اب کون پوری پلیٹ کو شیشے کی مانند چمکائے، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایک عرصے بعد کچھ کھانے کو ملا ہے، اس لئے اپنی ناک اونچی رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ پلیٹ کو بالکل خالی کرکے نہ چھوڑا جائے بلکہ اگر نصف نہیں تو ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا جائے۔
اگر اب بھی آپ کو اپنے اسٹیٹس سے زیادہ غریبوں کی فکر ستا رہی ہے تو سنیئے کہ پریشانی کی بات یہ نہیں کہ مجموعی طور پر ترقی پذیر ممالک کی تقریباً 13.5 فیصد آبادی اس وقت خوراک کے مسئلے سے نبرد آزما ہے اور ان ممالک میں ہر چھٹا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور یہ کہ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے 6 کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے صبح بھوکے پیٹ اسکول جاتے ہیں بلکہ جائے افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے اور سالانہ ضرورت سے زیادہ اناج اگایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود بھوک اور خوراک کی کمی کے حوالے سے ہمارا ملک پاکستان 125 ممالک کی فہرست میں 97 ویں نمبر پرہے اور یہاں پر بھی شادی بیاہ کی تقاریب میں کم و بیش 40 فیصد کھانا ضائع ہوجاتا ہے اور ہم میں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دنیا بھر میں ایڈز، ملیریا اور تپ دق سے مجموعی طور پر سالانہ اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے اس بھوک نامی بیماری سے مرجاتے ہیں۔
خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے خوراک کا زیاں، اگر پاکستان کو ہی دیکھا جائے تو یہاں بھی ایک عرصہ دراز سے حالات یہ ہیں کہ ایک طرف تھر پارکر میں بھوک کا ننگا ناچ جاری ہے اور دوسری طرف آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان خوراک کا انتظار کر رہے ہیں اور ان سب کے باوجود بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں اور شادی بیاہ پر خوراک کے ضائع ہونے کا معاملہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے کیوں کہ بحیثیت مجموعی ہم سب کی سوچ یہی ہے کہ یہ تو اُن لوگوں کا مسئلہ ہے ناں، ہمارے گھروں میں تو خوراک وافر تعداد میں موجود ہے، پھر اس سارے جھمیلے سے ہمیں کیا لینا دینا۔
[poll id="653"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایک طرف بھوک تو ایک طرف صورت حال کچھ یوں ہے کہ اضافی خوراک بغیر کھائے پیے کوڑے کے ڈرموں کی نذر ہوجاتی ہے۔ گلوبل کمیشن اکانومی اینڈ کلائمیٹ کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک کھانے کا زیاں بڑھ جائے گا جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار برائے 2014ء بتاتے ہیں کہ دنیا میں ہر سال تقریباً 31 لاکھ بچے صرف غذائی قلت کے ہاتھوں دم توڑ دیتے ہیں اور یہ اس تعداد کا صرف 45 فیصد ہے جنہیں مکمل غذا میسر نہیں آتی، اور اس وجہ سے ان کی بھرپور نشوونما نہیں ہوپاتی۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی کا تخمینہ تقریباً 7 ارب لگایا جاتا ہے مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسی روئے زمین پر86 کروڑ افراد اس فکر میں بھی گھلے جارہے ہیں کہ پیٹ کا یہ دوزخ کیسے بھرنا ہے؟ تقریباً ہر آٹھویں شخص کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے اور جنگ و جدل کے واقعات میں تیزی اور پے در پے آنے والی قدرتی آفات کے باعث یہ تعداد نہایت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے اسی ادارے کے مطابق دنیا میں سالانہ تقریباً ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جو پوری دنیا کی خوراک کا کم و بیش 30 فیصد ہے۔ اس خوراک سے اندازاً سالانہ 2 ارب لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ یہ تو اُن لوگوں کا مسئلہ ہے ناں، ہمارا اس معاملے سے کیا لینا دینا۔ ہم تو آج سے قبل بھی اسی نظریے پر کاربند تھے اور آئندہ بھی یہی اصول اپنائیں گے کہ جتنا کھا سکے کھالیں گے باقی کوڑے دان میں، بھوک ہم لوگوں کا مسئلہ تھوڑی ہے، ہمارے فریزر تو پہلے ہی خوراک سے بھرے پڑے ہیں، پھر ہماری جیب میں پیسے بھی ہیں اور باہر دکانیں بھی موجود ہیں۔
معاشی ماہرین تو پاکستان کو غریب ممالک کی فہرست میں رکھتے ہیں مگر یہاں کے اطوار دیکھ کر قطعاً اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارا حال بھی امریکا جیسا ہے جہاں شہری ہر سال اندازاً اپنا 40 فیصد کھانا بغیر کھائے کوڑے کے ڈرموں کی نذر کردیتے ہیں جس کے سبب 165 ارب ڈالر سالانہ کا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ امریکی اپنا جتنا کھانا ضائع کرتے ہیں وہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں خوراک کی کل کھپت سے 10 گنا زیادہ ہے۔ امریکا کی نیشنل ریسورس ڈیفنس کونسل کے مطابق امریکی شہریوں میں کھانے کو ضائع کرنے کا عمل ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یکساں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خوراک کی قیمتیں کم ہونا ہے۔ اسی طرح ریستورانوں اور فوڈ سروس کی جگہوں پر گاہک کیلئے حکومت کی طرف سے منظور کردہ خوراک کی پلیٹ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی گاہک خوراک کا کچھ حصہ کھا کر باقی ہاتھ لگائے بغیر واپس کر دیتا ہے۔
مارکیٹ سے خریدی گئی 15 فیصد غذائی چیزیں بھی امریکا میں ڈسٹ بن کا حصہ بنتی ہیں اور ان میں سے 93 فیصد وہ ہوتی ہیں جنہیں لوگ خرید تو لیتے ہیں مگر استعمال نہیں کرپاتے جبکہ یورپ میں اوسطاً فی فرد سالانہ تقریباً 280 کلو گرام غذائی اشیاء کوڑے کے ڈرم کے حصے میں آتی ہیں، جن میں سے 90 کلو گرام خوراک افراد اور 190 کلو گرام خوراک پروڈکشن اور دوسرے مراحل کے دوران کمپنیاں ضائع کرتی ہیں۔ چلیں یہ تو امریکا و یورپ کی مثال تھی مگر کیا ہمارے ہاں بھی ایسا نہیں ہوتا؟ ہوٹلنگ کے شائقین نے بارہا یہ عمل دہرایا ہوگا۔ اگرچہ ہم نے بہت محتاط لوگوں کو بھی دیکھا ہے مگر یہ ''اسٹیٹس سمبل'' کے خلاف ہے، اب کون پوری پلیٹ کو شیشے کی مانند چمکائے، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایک عرصے بعد کچھ کھانے کو ملا ہے، اس لئے اپنی ناک اونچی رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ پلیٹ کو بالکل خالی کرکے نہ چھوڑا جائے بلکہ اگر نصف نہیں تو ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا جائے۔
اگر اب بھی آپ کو اپنے اسٹیٹس سے زیادہ غریبوں کی فکر ستا رہی ہے تو سنیئے کہ پریشانی کی بات یہ نہیں کہ مجموعی طور پر ترقی پذیر ممالک کی تقریباً 13.5 فیصد آبادی اس وقت خوراک کے مسئلے سے نبرد آزما ہے اور ان ممالک میں ہر چھٹا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور یہ کہ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے 6 کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے صبح بھوکے پیٹ اسکول جاتے ہیں بلکہ جائے افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے اور سالانہ ضرورت سے زیادہ اناج اگایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود بھوک اور خوراک کی کمی کے حوالے سے ہمارا ملک پاکستان 125 ممالک کی فہرست میں 97 ویں نمبر پرہے اور یہاں پر بھی شادی بیاہ کی تقاریب میں کم و بیش 40 فیصد کھانا ضائع ہوجاتا ہے اور ہم میں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دنیا بھر میں ایڈز، ملیریا اور تپ دق سے مجموعی طور پر سالانہ اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے اس بھوک نامی بیماری سے مرجاتے ہیں۔
خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے خوراک کا زیاں، اگر پاکستان کو ہی دیکھا جائے تو یہاں بھی ایک عرصہ دراز سے حالات یہ ہیں کہ ایک طرف تھر پارکر میں بھوک کا ننگا ناچ جاری ہے اور دوسری طرف آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان خوراک کا انتظار کر رہے ہیں اور ان سب کے باوجود بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں اور شادی بیاہ پر خوراک کے ضائع ہونے کا معاملہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے کیوں کہ بحیثیت مجموعی ہم سب کی سوچ یہی ہے کہ یہ تو اُن لوگوں کا مسئلہ ہے ناں، ہمارے گھروں میں تو خوراک وافر تعداد میں موجود ہے، پھر اس سارے جھمیلے سے ہمیں کیا لینا دینا۔
[poll id="653"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس