برطانیہ میں معزّزاور خوشحال پاکستانی
چودہ اگست کو یومِ آزادی کی تقریب میں بڑی تعداد میںپاکستانی باشندے قونصلیٹ کے ہال میں جمع تھے۔
KABUL:
چودہ اگست کو یومِ آزادی کی تقریب میں بڑی تعداد میںپاکستانی باشندے قونصلیٹ کے ہال میں جمع تھے۔ قونصل جنرل نے صدر اور وزیرِاعظم کے پیغامات پڑھ کر سنائے ، مقامی ممبر پارلیمنٹ عمران حسین نے اپنی پرجوش تقریر میں کشمیریوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہارکیا ۔ آخرمیںمہمانِ خصوصی کی حیثیّت سے مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔
راقم نے آزادی کی اہمیّت ، بانیانِ پاکستان کی جدوّجہد اور خدمات کے علاوہ پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے عالمی ماہرین کے اعتراف کا ذکر کیا اور جب تفصیل سے بتایا کہ وطن ِعزیز میں معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اور قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی ہے تو یارانِ وطن کے چہرے کھل اُٹھے۔ تقریب کے بعد سامعین بڑی گرمجوشی سے ملتے رہے۔
وہیں برطانیہ میں پہلے پاکستانی لارڈ میئر چوہدری محمد عجیب سمیت کئی سرکردہ شخصیات سے ملاقات ہوئی، شام کو پاکستان سوسائٹی کی طرف سے بریڈفورڈ ہوٹل میں تقریب منعقدہوئی جس میںسیکڑوں پاکستانی فیملیز نے شرکت کی۔ یہاں نئی نسل کے نمایندے بڑی تعداد میں شریک تھے اس لیے انگریزی میں خطاب ہوا۔ دونوں تقاریب میںجب راقم نے زور دے کر کہا کہ"آپ میں سے ہر شخص کسی پارٹی یا گروہ کا نمایندہ نہیں بلکہ پاکستان کا سفیر ہے۔
آپ ایسی سرگرمیوں سے گریز کریںجو آپ کو تقسیم کردیں، دیارِغیر میں متحد رہ کر اپنی طاقت اور اہمیّت میں اضافہ کریں، آپ کے ہاتھوں میں مختلف پارٹیوں اور گروپوں کے جھنڈے نہیں بلکہ صرف پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہونا چاہیے" تو سامعین نے بڑی پر جوش تالیاں بجاکر اس سے اتفاق کیا۔
برطانیہ میں پاکستانی باشندوں نے ہرمیدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ تعلیم و تدریس کا شعبہ اختیار کرنے والے آج محتلف یونیورسٹیوں میںپروفیسر ہیں اور بزنس مَین محنت کرنے والے خوشحالی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بریڈ فورڈ میں ڈاکٹر خورشید نے عشائیے پر اورڈاکٹرمختار نے اپنے خوبصورت گھر میں ناشتے پر مدعو کیا، دونوں موقعوں پرزیادہ تر پی ایچ ڈی ڈاکٹرصاحبان شریک تھے۔ وہیں ڈاکٹرعرفان سے بھی ملاقات ہوئی جو نمل یونیورسٹی کے سب سے پہلے وائس چانسلر رہے ہیں، اس یونیور سٹی کی تعمیر و ترقی میں ڈاکٹر خورشید اور ڈاکٹرعرفان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ان صاحبانِ علم و دانش سے پاکستانیوں کو درپیش مسائل پر بات چیت ہوئی رہی، ا ن کی متفقہ رائے تھی کہ اپنی فراخدلی کے باوجود برطانوی حکومت بھی9/11کے بعد نسلی امتیاز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ،کسی اہم اسامی کے لیے ایک جیسی کوالیفیکیشن رکھنے والے اگر تین امیدوار جن میں ایک یہودی ایک انڈین اور ایک پاکستانی ہو تو ان کی پہلی ترجیح یہودی اور دوسری بھارتی امیدوارہوگا۔
میرے قیام کے دوران برطانوی اخبارات میں خبر چھپی کہ بارہ سے چودہ سال کی پچھتر ہزار بچیّاں حاملہ ہوگئی ہیں، اس پر کئی دانشور خواتین وحضرات نے نوجوانوں میںاخلاقی بے راہروی پر بڑی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ نصاب سے مذہبی تعلیم کا مواد نکال دینے سے نو جوان طلباء و طالبات اخلاقی رہنمائی سے محروم ہوگئے ہیں۔
بہت سے پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ یہ سانحہ قصور والے سانحے سے ہزار گناہ بڑا سانحہ ہے مگر برطانیہ کے چینل اسے کئی دن تک اچھالتے نہیں رہے۔ کئی موقعوںپر پاکستانی خواتین و حضرات بڑے درد مندانہ لہجے میں مجھے کہتے رہے کہ "ٹی وی والوں کو ہماری طرف سے ہاتھ جوڑ کر پوچھیں کہ ملک کی بدنامی کا باعث بننے والی خبریں آپ کئی کئی دن کیوںچلاتے ہیں، ملک کو بدنام کرنے والی خبریں برطانیہ میں تو نہیں چلائی جاسکتیں، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟"
جعلی پیر اور فرقہ باز مولوی بھی بڑی تعداد میں برطانیہ پہنچ چکے ہیں جو نہ صرف سادہ لوح پاکستانیوں کو لُوٹ رہے ہیں بلکہ پاکستان کا امیج بھی خراب کررہے ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کو نظر رکھنی چاہیے اورفرقہ واریت جیسی مذموم سرگرمیوں میں ملوث افراد کے پاسپورٹ کینسل کردینے چاہئیں۔ پاکستانی کمیونٹی اس بات پر بھی پریشان تھی کہ پاکستانیوں کو اپنے ملک کا ویزہ لینے کے لیے براہِ راست سفارتخانے سے رابطہ کرنے کے بجائے ایک پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے درخواست دینی پڑتی ہے۔کمپنی ہر درخواست دھندہ سے خاصی رقم وصول کرتی ہے۔ وزارتِ داخلہ اور پاکستانی سفارتخانے کو یہ پخ ہٹادینی چاہیے۔
بریڈ فورڈ سے مانچسٹر کے لیے روانہ ہوئے تو موٹروے چھوڑ کر دیہاتی علاقے سے سفر کو ترجیح دی، راستے میں خوبصورت نظارے دیکھ کریوں لگا کہ یہ سین نہیں سینریاں ہیں جو دستِ قدرت نے خود بنائی ہیں۔ ان خوبصورت مناظر نے مجھے ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی حسین وادیاں یاد کرادیں۔ مانچسٹر میںپاکستانی قونصلیٹ کے متحرّک اور مقبول کمیونٹی ویلفئر کونسلر ساجد قاضی نے قونصلیٹ کے ہال میں تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں پڑھے لکھے خواتین و حضرات مدعو تھے۔ خطاب کے بعد ان کے ساتھ سوال و جواب کی نشست بڑی مفید رہی ۔ چائے پر بہت سے لوگوںنے کہا کہ'' آپ کی باتوں سے بڑا حوصلہ ہوا ہے''۔
اُسی شام مانچسٹر سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے برنلے بھی گئے جہاں پاکستانی کمیونیٹی نے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کر رکھاتھا۔ ان کی اکثریّت کھاریاں گجرات اور جہلم کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ انھوں نے جب ایک سول سرونٹ کی زبانی یہ سنا کہ'' اصل پاکستان اسکرین پر نظر آنے والے پاکستان سے کہیں زیادہ خوشنما، محفوظ اور مضبوط ہے'' تو ان کی آنکھیں خوشی اور مسّرت سے چمک اُٹھیں۔ پاکستان سے برطانیہ جاکر جن نوجوانوں نے اپنی محنت اور لگن کے باعث اپنا مقام بنایا ہے، ان میں عزیزم ارشد بھٹی بھی شامل ہے۔
آج سے بارہ چودہ سال پہلے وہ پولیس اکیڈیمی میں ملنے آیا کرتا تھا۔ انتہائی با اخلاق اور پسندیدہ اطوارکا مالک اسمارٹ سا نوجوان اس وقت مستقبل کی راہیں تلاش کررہا تھا ۔ پھر ایک دن اس نے والدین سے دعائیں اور جہاز کا کرایہ لیا اور سات سمندر پار جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔ دس سالوں سے بھی کم عرصے میں اس نے بزنس میں کامیابیوں کے بہت سے زینے طے کرلیے ہیں۔ سینٹرل لنڈن میں اس کا دفتر دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ ارشد کی کمپنی میں درجنوں انگریزملازم ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کو ماںکی دعاؤںکے بعدمحنت اور ایمانداری (Fair Dealing) کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔
ارشد بھی لندن سے مانچسٹر پہنچ گیا اوراس کے بعد ہمارا ہمرکاب رہا۔ مانچسٹر سے نکلے توکہنے لگا ''آپ کامیاب پاکستانیوں سے ملکر خوش ہوتے ہیں، ایک بہت کامیاب پاکستانی میرا دوست ہے اور آپ سے ملنے کا خواہشمند ، اس نے اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا ہے'' کلّر سیداں کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والا شبیرحسین اعلیٰ معیار کے ریستورانوں کی چین کا مالک ہے۔
اس نے اپنے ایک سوچھ ایکڑ کے عالیشان فارم ہاؤس پرہمارا استقبال کیا جہاں وہ ایسے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا ہے جو برطانوی اشرافیہ کے محدودے چندافرادکوہی نصیب ہوگا۔ شبیر حسین سے کامیابی کا راز پوچھا تو کہنے لگا ''بے پناہ محنت کے علاوہ اپنے شعبے میں جنون کی حد تک دلچسپی اور اُس پر ایسی دسترس جیسے مستری کو مشین پر ہوتی ہے،کہ سارے پرزے کھول کر پھرجوڑ لیتا ہے، میں نے ریستوران میں ویٹری سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ آج بھی ضرورت پڑنے پر خود ویٹری بھی کرتا ہوں، میرا بزنس میرا Passionہے''۔ ارشد اور شبّیرحسین میں ایک خوبی مشترک ہے۔ اﷲ کی راہ میں دل کھول کر خیرات کرتے ہیں۔
اس دوران برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر سیدابنِ عباّس نے فون پر بتایا کہ وہ میری کتاب 'دو ٹوک باتیں 'کے بارے میں لندن میں ہونے والی تقریب میںضرور شریک ہوںگے۔ برطانیہ کی معروف یونیورسٹی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) کی پاکستان سوسائٹی کی طرف سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں ڈاکٹرز، پروفیشنلز،پروفیسرز اور بیرسٹرزنے بڑی تعداد میں شرکت کی، صدارت ہائی کمشنر سیّد ابنِِ عباّس نے کی جو میرے بیچ میٹ بھی ہیںاور ایک شستہ اطوار ، خوش گفتاراور منجھے ہوئے سفارتکار بھی۔ مصنّف کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے ذکرکے علاوہ انھوں نے کتاب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔
تقریب کے بعد اسٹال پررکھی ہوئی تمام کتابیں بِک گئیں۔ جس سے ملنے والی رقم پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ہائی کمشنر کو پیش کردی گئی۔کھانے پر سفیرپاکستان نے اس بات کی بھرپور تائید کی کہ بیرونِ ملک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں نہیں ہونی چاہیں۔
کئی باخبر حضرات سے جب ایم کیو ایم کے سربراہ کے کیسوں کے بارے میں برطانوی حکومت اور برطانوی پولیس کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ عمومی طور پر پولیس غیر جانبدار ہوتی ہے مگر مذکورہ کیس میں ایم آئی سکس پوری دلچسپی لے رہی ہے لہٰذا پولیس وہی کرے گی جو برطانوی حکومت چاہے گی۔ لیکن عدلیہ کوئی دباؤ قبول نہیںکرتی جب کیس عدالت میں چلا گیاتو اس کا فیصلہ میرٹ پر ہوگا۔