تہذیب و ثقافت ایک وہ ہیں اور ایک ہم

تہذیب و ثقافت ایسی انسانی میراث ہے جو دنیا کی تمام زمینوں، زمانوں اور مذہبی روایات کو اپنے دائرے میں لیتی ہے

zahedahina@gmail.com

تہذیب و ثقافت ایسی انسانی میراث ہے جو دنیا کی تمام زمینوں، زمانوں اور مذہبی روایات کو اپنے دائرے میں لیتی ہے۔ آج ابتدائی جماعتوں میں پڑھنے والا بچہ اسپین، فرانس ، روس اور جرمنی کے ان غاروں کی دیواروں اور چھتوں پر کھینچے ہوئے نقش و نگار کو اپنا سرمایہ خیال کرتا ہے، جو ابتدائی دورکے انسان نے شکار سے واپس آکر، جانوروں کی چربی سے روشن مشعلوں کی روشنی میں، غار کی دیوار یا چھت پر جانوروں کی نوکیلی ہڈیوں سے کھرچ کر بنائے تھے اور ان میں رنگ بھرے تھے۔

ماسکو کے پشکن، لندن کے برٹش اور واشنگٹن کے میٹرو پولیٹن میوزیم میں دبے قدموں چلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر میں نے رشک کیا تھا ۔ یہ وہ بچے تھے جو مصوری کے شاہ کار دیکھنے کے لیے اپنی ٹیچروں کی رہنمائی میں آئے تھے۔ روغنی اور آبی رنگوں سے بنی ہوئی تصویروں کو چشم حیرت سے دیکھنے والے یہ بچے ان کے احترام میں چپکے چپکے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے تھے۔

ان کے اندر اس کثیرالمشربی کو بیج بوئے جارہے تھے جو کھلیں گے تو اس باغ میں مغربی، ہندوستانی ، افریقی، عرب، چین اور جاپان سب ہی تہذیبوں کی سمائی ہوگی۔ ان میں سے کچھ اگر دوسری تہذیبوں سے نفرت کرنے والے ہوں گے تو بہت سے وہ بھی ہوں گے جو فاشسٹ رجحانات کا مقابلہ کریں گے اور اجنبی تہذیبوں اور اجنبی مذاہب کے لیے کشادہ دل ہوں گے۔

ہم دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے وارث ہیں۔ موہنجوڈرواور مہرگڑھ کے آثار ہمیں مغرب کے ماہرینِ آثار قدیم نے ڈھونڈکردیے ۔ مہاتما بدھ کے معبد، ان کی خانقاہیں اور ان کے دیواری نقش و نگار ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ دنیا ان کی تعظیم و تکریم کرتی ہے لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس خزانے کی قدر نہیں کرتے اور اسے مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔

یہ سوچتے ہوئے مجھے وہ گم نام لوگ یا د آتے ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد یورپ کے مختلف ملکوں اور شہروں کے ثقافتی ورثے کو نازی حملوں سے محفوظ رکھنے، چھپانے اور بعد میں انھیں ان کے وارثوں تک پہنچانے میں اپنی زندگیاں صرف کردیں۔ یہ لوگ یورپ اور ان میں سے چند امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بہ ظاہر عام یورپی شہری تھے، انھوں نے کبھی کسی رائفل کو ہاتھ نہیں لگایا، نہ کسی توپ میں گولہ و بارود بھرا لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے جان پر کھیل کر جو خدمات انجام دیں، وہ محاذِ جنگ پر لڑنے والے فوجیوں اور افسروں سے کم نہ تھیں۔

یورپ کے سیکڑوں برس پرانے مصوری' نقاشی اور فنون لطیفہ کے بے بہا ہزارہا شاہ کار نازی بمباری اور جرمن فتح کے نتیجے میں لوٹ مار کے خطرے سے دوچار تھے۔ آرٹ اور فن کا دل دادہ ہر شخص مضطرب تھا اور اس سلسلے میں اپنی سی کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ ایک طویل داستان ہے کہ مصوری کے ان نادرہ کار ' نمونوں' پر کیا گزری، وہ کس طرح محفوظ کیے گئے اور جنگ کے بعد کیوں کر خفیہ ٹھکانوں سے واپس لائے گئے۔

پیرس کا لوور میوزیم جس کی سال میں لاکھوں شائقین زیارت کرتے ہیں، وہاں قدم رکھنے والے بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ جولائی اور اگست 1939ء میں جب یہ بات یقینی ہوچکی تھی کہ کسی بھی وقت نازی جرمنی کی طرف سے فرانس پر حملہ ہوجائے گا اور صرف اس کے شہر اور شہری ہی گولہ باری اور بمباری کا نشانہ نہیں بنیں گے بلکہ اس کا ثقافتی ورثہ بھی زد میں ہوگا ۔ انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ ہٹلر یورپ میں موجود مصوری اور مجسمہ سازی کی نادر روز گار اشیا کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے تاکہ جرمنی میں وہ اپنے نام سے ایک عظیم الشان آرٹ میوزیم قائم کرسکے ۔

یہ ایک ایسا بھیانک خیال تھا جس نے لوور اور فن و ثقافت کے دوسرے مراکز کے لیے کام کرنے والوں کو لرزہ بہ اندام کردیا ۔ یہی وجہ تھی کہ لوور سے مصوری کے تمام شاہ کار ہٹانے اور انھیں خفیہ مقامات پر چھپانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کا اعلان 3 ستمبر 1939ء کو ہوا اور جرمن توپ خانے کے گولے فرانس کی سرحدی آبادیوں کو تاراج کرنے لگے لیکن اس سے 6 دن پہلے دنیا کی مشہور ترین پینٹنگ ' مونالیزا' لوور سے رخصت ہوچکی تھی اور دوسری پینٹنگز کی منتقلی کا مشقت طلب مرحلہ شروع ہوچکا تھا۔ لیونارڈو ڈی ونسی کی اس پینٹنگ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران 5 ٹھکانے بدلے اور یہی کچھ مصوری اور مجسمہ سازی کے دوسرے ہزاروں نمونوں کے ساتھ ہوا۔

دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فرانس ، برطانیہ، اٹلی ، اسپین اور دوسرے یورپی ملکوں کا یہ تہذیبی اور ثقافتی سرمایہ کسی ایک ملک کا نہیں، تمام یورپ کا خزانہ تھا۔ امریکا جو ابتدا میں اس عالمی جنگ میں شریک نہ تھا ، اس کام کے لیے اس نے بھی مصوری اور مجسمہ سازی کے اپنے ماہرین کو اکٹھا کیا اور اس وقت کے صدر امریکا نے ہدایت کی کہ مغرب کا یہ عظیم سرمایہ صرف یورپ نہیں، تمام عالم انسانی کا نادرِ روزگار سرمایہ ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی مشترک ذمے داری ہے۔


یہ خبریں مسلسل آرہی تھیں کہ جرمن فوجیں جس شہر اور ملک سے گزرتی ہیں وہاں سے فن مصوری کے سرکاری اور ذاتی سرمائے کو لوٹتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ یہ خبر بھی سب ہی کے علم میں تھی کہ وہ یہودی اشرافیہ جس کے ہزارہا لوگ ہٹلر کے حکم پر گیس چیمبر میں ہلاک کیے گئے۔ ان کے محلات اور حویلیوں سے بیش قیمت نوادرات سمیٹ کر جرمنی بھیج دیے گئے ہیں۔

یورپ نے کسی ملک یا کسی قوم کی تخصیص کے بغیر اپنے ثقافتی ورثے کی ہر قیمت پر حفاظت کی ۔ اس کام کے لیے ہارورڈ، آکسفورڈ اور مغرب کی دوسری اہم یونیورسٹیوں میں فنون لطیفہ کے شعبوں سے وابستہ پروفیسروں اور ماہرین فن نے اپنی خدمات پیش کیں اور دن رات کام کیا۔

ان لوگوں میں 30 خواتین بھی شامل تھیں جن کی سربراہی ایک عالم و فاضل امریکی خاتون آرڈیلیا ہال کررہی تھی۔ مائیکل اینجلو، رینوئر، روبنز، وان گو اور دوسرے مشہور و معروف مصوروں اور مجسمہ سازوں کی تخلیقات کو خفیہ جگہوں پر محفوظ کرنا اور پھر انھیں واپس لانا اوران کے حقیقی ورثاء کے سپرد کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا لیکن ان مردوں اور خواتین نے جان جوکھم میں ڈال کر یہ کام کیا۔ ان میں سے دو افراد محاذ جنگ پر ہلاک بھی ہوئے لیکن کسی نے اس کام سے راہ فرار اختیار نہیں کی۔

یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ستمبر 2015 میں دوسری جنگ عظیم کی سترہویں سالگرہ منائی جارہی ہے، دنیا کے مختلف ملکوں میں شاندار تقریبات ہورہی ہیں ایسے میں ان تقریباً گمنام لوگوں کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ جنہوں نے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کی۔ پچھلے برس فن و ثقافت کے محاذ پر کام کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں جارج کلونی کی ایک فلم بھی سامنے آچکی ہے۔

اس تاریخی موقعے پر کچھ مہم جو ان لوگوں کو تلاش کرنے نکلے جنہوں نے ہتھیار چلائے اور بارود سے کام لیے بغیر ہٹلر کے خلاف ایک جنگ لڑی تھی اور اس میں کامیاب رہے تھے۔ بہت چھان ٹھیک کے بعد معلوم ہوا کہ ان لوگوں میں سے صرف این اولیور بل زندہ ہے، وہ برطانوی شہری ہے اور سسکس میں رہتی ہے۔

عمر نام خدا صرف 99 برس ہے اور اس وقت بھی ادبی کاموں میں مصروف ہے۔ جرمنی سے واپس آنے کے بعد اس نے مشہور زمانہ برطانوی ادیب ورجینیا وولف کی ڈائریوں کی 25برس لگاکر ترتیب و تدوین کی۔ یہ ڈائری 5جلدوں میں شایع ہوچکی ہے اور اس ادبی کام کے اعتراف میں اسے ملکہ کی طرف سے ایم بی ای کا اعزاز عطا ہوا ہے۔

اس نے جرمنی میں صرف ڈیڑھ برس گزارے لیکن ان کی یاد آج بھی اس کے ذہن میں زندہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نازی افواج نے راستے میں آنے والے تمام گرجا گھروں کی ہزاروں گھنٹیاں اتار کر انھیں جرمنی بھیج دیا تھا، تاکہ انھیں پگھلا کر اس سے یورپ پر فتح کی یادگاریں اور میڈل ڈھالے جائیں اور فیوہرر (ہٹلر) فاتح جرمن افواج کو اپنے ہاتھوں سے یہ اعزازات عطا کریں۔

وقت کی عنایت ہے کہ یورپ کو یہ روز بد نہ دیکھنا پڑا۔ گرجا گھروں سے اتاری جانے والی یہ گھنٹیاں نازی فوج کے اسلحہ خانوں میں رکھی رہ گئیں جہاں سے انھیں بھٹیوں کو بھیجا جانا تھا۔ یاد رہے کہ ان میں سے ہر گھنٹی منوں وزنی ہوتی تھی۔ این کا کہنا ہے کہ یہ گھنٹیاں جن گرجا گھروں سے اتاری گئی تھیں، انھیں متعلقہ گرجا گھروں کو بھیجنا ایک بہت بڑا مرحلہ تھا جس سے این اور اس کے مٹھی بھر ساتھی گزرے۔

دوسری جنگ عظیم کا یہ ایک الگ پہلو ہے۔ تین اور چارسو برس پہلے بنائی جانے والی روغنی تصویریں اور تراشے جانے والے مجسمے، یہ اپنے لبوں سے کچھ نہ کہتے تھے لیکن آنے والی نسلوں نے صدیوں بعد بھی ان کی حفاظت جان پر کھیل کر کی۔ ایک وہ ہیں اور ایک ہم ہیں کہ دہشت گردوں سے نہ رحمان بابا کا مزار محفوظ رکھ سکے اور نہ داتا دربار ، اور نہ دوسری خانقاہیں، درگاہیں ، مسجدیں ان کے شر سے محفوظ رہیں۔ ایسے میں ہم بامیان کے بدھا اور پامیرا کے کھنڈرات کی بربادی کا کیا ماتم کریں۔ لگتا ہے کہ ثقافت اور تہذیب و تمدن کو اپنے سینے سے لگا کر رکھنا صرف ''کفار'' کا ہی کام رہ گیا ہے۔
Load Next Story